"JDC" (space) message & send to 7575

سمندر پار پاکستانیوں کا ووٹ

اس وقت تقریباً نو ملین یعنی نوے لاکھ پاکستانی ملک سے باہر مقیم ہیں۔ ان میں سے تقریباً آدھی تعداد خلیجی ممالک میں کام کر رہی ہے۔ ہمارے یہ محنتی جفاکش پاکستان میں اپنے خانوادوں کی کفالت بھی کرتے ہیں اور ملک کی معیشت کے لئے انتہائی اہم زرمبادلہ بھی بھیجتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستانی دنیا کے ایک سو چالیس (140) ممالک میں موجود ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کا مطالبہ ہے کہ ہمیں ووٹ دینے کا حق ملنا چاہئے مگر یہ مطالبہ حقیقت پر مبنی نہیں‘ بلکہ ایک مغالطہ ہے۔
دراصل ہر وہ پاکستانی‘ جو اپنے حلقے میں رجسٹرڈ ووٹر ہے‘ حق رائے دہی استعمال کر سکتا ہے خواہ وہ پاکستان کے اندر رہتا ہو یا باہر۔ حقیقت میں سمندر پار پاکستانیوں کا مطالبہ یہ ہے کہ ہمارے لیے ملک سے باہر پولنگ سٹیشن بنائے جائیں یا پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ووٹ بھیجنے کا بندوبست کیا جائے اور ہاں اب تو الیکٹرانک ووٹنگ بھی ممکن ہے یعنی آپ جدہ یا نیویارک میں بیٹھ کر بٹن دبائیں اور آپ کا ووٹ پاکستان میں کاسٹ ہو جائے۔ بادی النظر میں یہ سب کچھ بہت آسان لگتا ہے لیکن حقیقت میں خاصا مشکل کام ہے۔ اس میں کئی پیچیدہ مسائل ہیں۔ اس کالم میں انہی مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ سب سے پہلے اس بات کا اعادہ کر دیا جائے کہ اپنی موجودہ جائے سکونت پر ووٹ ڈالنے کا حق پاکستانیوں کو ملک کے اندر بھی حاصل نہیں‘ یعنی باجوڑ کا رہنے والا پاکستانی اگر آج کل کراچی یا لاہور میں کام کر رہا ہے تو ووٹ ڈالنے کے لئے اسے باجوڑ ہی جانا پڑے گا۔ نئی جائے رہائش پر ووٹ دینے کے لئے اسے اپنا ووٹ شفٹ کرانا پڑے گا جس کا ایک علیحدہ پراسس ہے۔
سمندر پار پاکستانیوں کے لئے وہیں بیٹھے بٹھائے رائے دہی کا مطالبہ گزشتہ تیس سال سے ہو رہا ہے‘ لیکن آج تک کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کبھی کسی سیاست دان نے سمندر پار پاکستانیوں کو یہ سمجھانے کی کوشش نہیں کی کہ فی الوقت دنیا کے کونے کونے سے بیلٹ پیپر محفوظ طریقے سے اور ہر وقت منگوانے کی استعداد الیکشن کمیشن کے پاس نہیں‘ اور نہ ہی ملک کے پاس اتنے بڑے عمل کے لئے وسائل ہیں۔ سیاسی پارٹیوں نے سمندر پار پاکستانیوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ دراصل وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ کام مستقبل قریب میں ہونے والا نہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کے حق رائے دہی یا آسان ووٹنگ کے لئے نعرہ بازی تو تین عشروں سے ہو رہی ہے‘ لیکن اس مطالبہ کے لئے سنجیدہ کام پہلی مرتبہ تحریک انصاف نے کیا اور 2011 میں اس مطالبے کو اعلیٰ عدلیہ کے پاس لے گئی۔ عدلیہ نے مثبت سفارش کے ساتھ اسے الیکشن کمیشن کو بھیج دیا۔ 9 مئی 2013 کو ایک صدارتی آرڈیننس جاری ہوا کہ سمندر پار پاکستانیوں کو ملک سے باہر ووٹنگ کا حق دیا جا رہا ہے۔ مجھے آج تک اس آرڈیننس کی سمجھ نہیں آئی کیونکہ گیارہ مئی کو یعنی دو روز بعد عام انتخابات ہو رہے تھے۔ آرڈیننس کی قانونی عمر چھ ماہ ہوتی ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو اس نے آرڈیننس کو پارلیمنٹ سے پاس نہیں کرایا اور یوں یہ نومولود بچپن میں ہی فوت ہو گیا۔ غالباً مسلم لیگ ن کی حکومت کو اس سلسلہ میں درپیش مشکلات کا اچھی طرح علم تھا۔
2015 میں اس مطالبے کی عملیت جانچنے کے لئے ایک تجربہ کیا گیا۔ چار ملکوں یعنی امریکہ برطانیہ سعودی عرب اور عرب امارات میں سفارت خانوں میں فرضی انتخابات کرائے گئے۔ ووٹ دینے والوں میں صرف سفارت خانوں کا سٹاف شامل تھا۔ امیدواروں کے نام فرضی یعنی Fictitious تھے۔ پھر یہ ووٹ پاکستان بھیجے گئے۔ الیکشن کمیشن تک ووٹ پہنچنے میں چھ سے چودہ دن لگے۔ اس تجربے کے بعد متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ دی گئی۔ فیڈرل وزیر زاہد حامد نے بیان دیا کہ 2018 کے الیکشن میں یہ ممکن نہ ہو گا کہ پاکستان سے باہر ووٹنگ کا بندوبست کیا جائے۔ اگلے سال یعنی 2016 میں ہی یو این ڈی پی کے ذریعے ایک آزاد سٹڈی کرائی گئی۔ یہ سٹڈی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کہنے پر ہوئی تھی۔ نتائج میں کہا گیا کہ اپنے محدود وسائل میں پوری دنیا میں اتنی بڑی ایکسرسائز کرانا پاکستان کے لئے مہنگا عمل ہو گا۔ نیز لوجسٹک مسائل کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔ اسی سٹڈی کا دوسرا استنتاج یہ تھا کہ پوسٹل بیلٹ یا انٹرنیٹ ووٹنگ سے شفافیت کے مسئلے پیدا ہوں گے اور الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھ سکتی ہیں۔ لیکن ہم بھی مجاہدوں کی قوم ہیں۔ نادرا نے 2016 میں کہا کہ بیرون ملک الیکٹرانک ووٹنگ ممکن ہے۔ ہر شخص کو ایک کوڈ نمبر دے دیا جائے گا اور وہ یہ نمبر مشین میں داخل کرے گا۔ اس کے حلقے کے امیدواروں کے نام سکرین پر آ جائیں گے۔ وہ اپنے پسندیدہ امیدوار کے نام پر انگلی لگائے گا اور ووٹ فی الفور الیکشن کمیشن کو پاکستان منتقل ہوئے گا۔ لیکن نادرا والوں کو شائد یہ علم نہیں کہ سعودی عرب رقبے میں پاکستان سے ڈھائی گنا ہے اور ہمارے ساٹھ فیصد ورکر ان پڑھ ہیں۔ پچھلے سال وزیر اعظم نواز شریف نیو یارک گئے۔ وہاں پاکستان کمیونٹی کی جانب سے پھر یہی مطالبہ ہوا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آپ کا مطالبہ جلد پورا کیا جائے گا۔ اور اب بھی سینیٹر اسحاق ڈار کی سربراہی میں قائم انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی اس امر کا جائزہ لے رہی ہے۔
گزشتہ اپریل میں ترکی میں صدارتی ریفرنڈم ہوا۔ جرمنی اور ہالینڈ میں ترک بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ان میں سے کئی ایک دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ ریفرنڈم بنیادی طور پر صدر طیب رجب اردوان کو مزید پاورز دینے کے بارے میں تھا۔ یورپ میں عام خیال تھا کہ صدر اردوان شخصی آمریت کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن یورپ میں مقیم ترک باشندے زیادہ تر اپنے صدر کو مزید اختیارات دینے کے حامی تھے۔ ہالینڈ میں صدر اردوان کے حق میں جلسے جلوس نکل رہے تھے۔ ترکی کے وزیر خارجہ ایک ایسے ہی جلسے سے خطاب کیلئے ایمسٹرڈیم روانہ ہوئے۔ ہالینڈ کی حکومت نے ان کے طیارے کو لینڈ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ صدر اردوان نے کہا کہ ہالینڈ کی حکومت فاشسٹ ہے اور دھمکی دی کہ ترکی بھی ہالینڈ کے جہازوں کو لینڈ کرنے سے روک سکتا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں خاصا تنائو پیدا ہوا۔ 
میں نے اپنے کیرئیر کے دس سال خلیجی ممالک میں گزارے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ خلیجی ممالک میں اپنے الیکشن کروا کے ہم گھاٹے کا سودا کریں گے۔ وجہ یہ ہے کہ خلیجی ممالک میں مغربی طرز کی جمہوریت نہ ہونے کے برابر ہے۔ سعودی عرب میں مجلس شوریٰ کے ممبران نامزد کئے جاتے ہیں۔ تقریباً اس سے ملتا جلتا حال دیگر خلیجی ممالک کا بھی ہے سوائے کویت کے۔ سلطنت عمان میں الیکشن ہوتے ہیں مگر سیاسی جماعتیں نہیں ہیں۔ سلطان قابوس کی صوابدید ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے پاس شدہ کسی قانون کو شرف قبولیت بخشیں یا رد کر دیں۔
جدہ اور گردونواح میں تقریباً پانچ لاکھ پاکستانی ہیں۔ وہاں الیکشن ہوا تو نعرے بھی لگیں گے۔ جلسے جلوس بھی ہوں گے۔ رنگ برنگے پاکستانی لیڈر وہاں جانے کی کوشش بھی کریں گے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سعودی حکومت اس سارے پراسس کو اچھی نظر سے نہیں دیکھے گی اور فرض کیجئے کہ جدہ یا دمام میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے حامیوں میں جھگڑا ہوتا ہے تو اگلے ہی روز سینکڑوں پاکستانی یا جیلوں میں ہوں گے یا ڈیپورٹ ہو جائیں گے۔ لہٰذا خلیجی ممالک کو ہمیں اس عمل کا حصہ نہیں بنانا چاہئے۔ یہ پاکستان کے قومی مفاد میں نہیں۔ اور ویسے بھی جیالے متوالے اور کپتان کے کھلاڑی خلیجی ممالک سے آسانی سے ووٹ دینے پاکستان آ سکتے ہیں۔ آخر کو کراچی میں مقیم باجوڑ کا رہنے والا بھی تو ووٹ دینے باجوڑ جائے گا ناں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں