"JDC" (space) message & send to 7575

امریکہ کے بدلتے حریف و حلیف

سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ کا صرف ایک ہی حریف تھا اور وہ تھا سوشلسٹ نظام‘ اور اس نظام کی سبب سے بڑی علامت سوویت یونین تھا۔ لہٰذا سوویت یونین امریکہ کا اکلوتا حریف تھا۔ کہنے کو تو اس کے علاوہ کچھ چھوٹے دشمن بھی امریکہ بہادر کے تھے مثلاً ویت نام اور کیوبا لیکن دراصل یہ چھوٹے ممالک سوویت یونین کی چھتری کے زیر سایہ تھے۔ لہٰذا اصلی تے وڈا حریف ایک ہی تھا۔ امریکہ کے تمام حلیف مثلاً مغربی یورپ‘ خلیجی ریاستیں‘ جاپان اور آسٹریلیا‘ سب یکسوئی سے امریکہ کے ہم نوا تھے۔ سب سوشلزم کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے تھے۔ کئی اہم خلیجی ممالک نے 1990 کے آس پاس سوویت یونین اور چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے۔ پاکستان کئی سال سیٹو اور سینٹو کا ممبر رہا اور دونوں کا مقصد سوشلزم کے ممکنہ پھیلائو کے آگے حصار کھڑا کرنا تھا۔ انڈیا اس زمانے میں غیر جانب داری کا بظاہر بہت بڑا علم بردار تھا مگر سوویت یونین کے ساتھ اس کی گاڑھی چھنتی تھی۔
امریکہ کے بارے میں کہا جاتا ہے اگر اس کا کوئی دشمن نہ ہو تو وہ پریشان ہو جاتا ہے اور کوئی نہ کوئی دشمن تراش لیتا ہے‘ ایجاد کر لیتا ہے لیکن یہ بات صرف امریکہ پر ہی منطبق نہیں‘ کچھ دوسرے ممالک بھی یہی حرکت کرتے ہیں۔ مثلاً پاکستان کے گزشتہ تین انتخابات میں کسی سیاسی پارٹی نے انڈیا مخالف نعرہ نہیں لگایا‘ لیکن انڈین لیڈرشپ پاکستان مخالف نعرے باقاعدگی سے لگاتی رہی ہے۔ اور ان نعروں کی بنیاد پر کامیابی بھی حاصل کرتی رہی ہے۔ امریکہ سپر پاور ہے۔ اس ایک ملک کا عسکری بجٹ دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ دنیا کی سب بڑی اسلحہ ساز فیکٹریاں امریکہ میں ہیں۔ وہ اسلحہ برآمد بھی کرتی ہیں اور امریکی حکومت کو بیچتی بھی ہیں۔ اسلحہ ساز لابی کا پورے ملک میں اثر و رسوخ ہے۔ خاص طور پر امریکی میڈیا میں ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ امریکی ساخت کا اسلحہ نہ صرف بکے بلکہ ٹیسٹ بھی ہوتا رہے۔ یہی وہ سوچ ہے جو امریکہ کو یو این کی منظوری کے بغیر عراق پر چڑھائی کرنے اور ایسے ہی دوسرے اقدامات کرنے کی ترغیب دیتی تھی۔
سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ کے لئے دوست دشمن کی تمیز آسان تھی۔ جو بھی ملک سوویت یونین کا دوست تھا وہ امریکہ کا دشمن تھا اور امریکہ کے دوست سوویت یونین کے مخالف تھے۔ گویا تمام دنیا دو بلاکوں میں تقسیم تھی۔ آج صورتحال بہت مختلف ہے۔ سوشلزم بطور نظام ناکام ہو چکا ہے۔ کئی مبصروں کا خیال تھا کہ سوشلسٹ نظام کی ہزیمت کے بعد امریکہ ایک عرصے تک دنیا کی اکلوتی سپر پاور کا رول ادا کرے گا لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔ آج کی دنیا میں امریکہ کے واضح دشمن پانچ ہیں یعنی روس‘ چین‘ ایران‘ شمالی کوریا اور انتہا پسند تنظیمیں بشمول داعش‘ طالبان اور القاعدہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی کے برعکس اب امریکہ کے دشمن ایک چھتری کے نیچے موجود نہیں۔ ان میں سے چند ایک دوسرے کے مخالف ہیں مثلاً روس اور داعش یا ایران اور داعش۔ امریکہ کے حریف خاصے متنوع ہو گئے ہیں۔ امریکہ اگر ایک پر فوکس کرتا ہے تو دوسرے نسبتاً آزاد ہو جاتے ہیں۔ پانچوں حریفوں پر بیک وقت فوکس کرنا خاصا دشوار ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی امریکہ کے ان پانچ حریفوں کے حریف بھی یکساں نظر نہیں آتے مثلاً اگر برطانیہ‘ جرمنی‘ پولینڈ اور فرانس سے پوچھا جائے تو شائد سب کے سب روس کی بڑھتی ہوئی طاقت کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ کہیں۔ یہی سوال آپ خلیجی عرب ممالک سے کریں تو جواب ملے گا ایران۔ اور اگر آسٹریلیا یا فلپائن سے پوچھا جائے کہ آپ کا سب سے بڑا حریف کون ہے تو یقینا جواب ملے گا چین۔ گویا کہ صورت حال میں ماضی کی نسبت خاصی پیچیدگی آ گئی ہے۔
آپ اقوام متحدہ کا ووٹنگ ریکارڈ اٹھا کر دیکھیں‘ مختلف مسائل پر انڈیا کا ووٹ آپ کو اکثر امریکہ کے خلاف نظر آئے گا مگر آج انڈیا امریکہ کی آنکھوں کا تارا ہے۔ امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ انڈیا کو سلامتی کونسل میں دائمی نشست مل جائے اور اسے نیوکلیئر سپلائزر گروپ کا ممبر بھی بنایا جائے‘ حالانکہ انڈیا نے ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخط نہیں کئے لہٰذا کل کے حریف آج کے حلیف ہیں کیونکہ اب امریکن فارن پالیسی کا واضح ہدف چین کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے۔
جب امریکہ کی فوج کا بڑا حصہ افغانستان سے جا چکا تو امریکی کانگریس میں پاکستان مخالف کوششیں تیز کر دی گئیں۔ 2015ء میں پاکستان کو دہشت پسندی کی سرپرستی کرنے والا ملک ڈیکلیئر کرنے کیلئے بل پیش کیا گیا۔ یہ بل ہر چند ماہ کے بعد پھر سے کانگریس میں آ جاتا ہے۔ اس کے محرک ایوان نمائندگان کے ممبر اور دہشت گردی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین ٹیڈ پو Ted Poe ہیں۔ پچھلے سال ستمبر میں یہ بل پھر سے پیش ہوا اور اپنی رائے کی حمایت میں ٹیڈ پو نے کہا ''پاکستان قابل اعتماد حلیف نہیں۔ اس نے اسامہ بن لادن کو پناہ دی اور حقانی نیٹ ورک کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ روابط ہیں‘‘۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کہاں کھڑا ہے تو جواب ہو گا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ نہیں۔ صدر اوباما جتنے بھارت نواز تھے اتنے ہی پاکستان مخالف بھی تھے۔ جب تک امریکی فوجیں افغانستان میں رہیں پاکستان کے ساتھ رویہ کم جارحانہ رہا لیکن غور فرمائیے کہ اس سال 19 جنوری کو امریکہ نے اقوام متحدہ میں مولانا مسعود اظہر پر عالمی پابندیاں لگانے کی قرارداد پیش کی۔ برطانیہ اور فرانس نے قرارداد کی حمایت کی مگر آخر میں چین کا ویٹو مولانا کو بچا گیا۔ کانگریس میں ٹیڈ پو والا بل پھر سے مارچ میں پیش ہوا یعنی آج سے دو تین مہینے پہلے جس میں دیگر باتوں کے علاوہ امریکی صدر سے کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان پر نظر رکھیں اور نوے دن کے اندر پارلیمنٹ کو آگاہ کریں۔ جب پارلیمنٹ میں سماعت ہو رہی تھی تو امریکی سنٹرل کمانڈ کے ہیڈ جنرل جوزف ووٹل Joseph Votel نے کہا: پاکستان نے حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔ امریکن کانگریس میں چند لوگوں کی کوشش ہے کہ پاکستان کو مسلسل دبائو میں رکھا جائے۔ ظاہر ہے کہ انڈین لابی Lobby پس پردہ ان تمام کوششوں کی سرگرم حمایتی ہے۔
امریکہ میں انڈین لابی اور خود انڈین لیڈرشپ کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان کو امریکہ اپنا چھٹا حریف تصور کرنے لگ جائے۔ ان تمام کوششوں کے پیچھے سی پیک کی وجہ سے اٹھنے والا غم و غصہ بھی ہے اور افغانستان میں ہزیمت کی شرمندگی بھی۔ انڈیا‘ امریکہ اور اس کے حلیفوں کو مسلسل یہ تاثر بھی دے رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حقوق کی جنگ کو پاکستان سپانسر کر رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں پاکستان کو کیا کرنا چاہئے۔ ہمیں امریکہ میں اپنی مضبوط لابی بنانی چاہئے جو ممبران پارلیمنٹ سے مسلسل رابطے میں رہے‘ امریکی میڈیا میں پاکستان کا مثبت امیج اجاگر کرے اور وہ پاکستانی جن کی امریکہ کے تھنک ٹینکس میں رسائی ہے انہیں پاکستانی ایمبیسی مسلسل بریف کرتی رہے۔ انڈین لابی نے حسین حقانی جیسے بکائو مگر اعلیٰ پائے کے دانشور کو خرید لیا ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہر فورم پر پاکستان کا نقطۂ نظر پیش ضرور ہو اور اچھے پیرائے میں پیش ہو۔ امریکہ ہمارے لئے اب بھی بہت اہم ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں