"JDC" (space) message & send to 7575

خلیج میں ڈیڈ لاک

خلیجی ممالک پوری دنیا اور پاکستان کے لئے اقتصادی لحاظ سے بے حد اہم ہیں۔ یہاں کے تیل اور گیس کے وافر ذخائر عالمی صنعتوں کا پہیہ چلاتے ہیں۔ تقریباً چالیس لاکھ پاکستانی خلیجی ممالک میں کام کر رہے ہیں اور یوں سمجھئے کہ چالیس لاکھ پاکستانی خاندان ان کے بھیجے ہوئے پیسوں سے نان و نفقہ کا بندوبست کرتے ہیں ملک زر مبادلہ حاصل کرتا ہے۔ بیرونی ادائیگیوں کا توازن خاصی حد تک درست رہتا ہے۔ اس سے بڑھ کر روحانی رشتہ ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔ خلیج کے تمام آٹھ ممالک اسلامی تعاون تنظیم کے ممبر ہیں۔
چند ہفتے پہلے چھ عرب ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے۔ تجارت بند کر دی تھی اور پروازوں کا آنا جانا بھی ختم ہو گیا تھا۔ قطری میڈیا اس ساری صورت حال کے لئے حصار کا الفط استعمال کر رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں قطر کو تنہا کیا جارہا ہے اور مقصود یہ ہے کہ قطر وہ مطالبے مان لے جو ان ممالک نے اس سے کئے ہیں۔ ان چھ ممالک میں سے چار نے 2 3 جون کو یہ مطالبے تیرہ نقات کی شکل میں پیش کیے تھے۔
سب سے پہلا مطالبہ قطر کے ایران کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ہے۔ قطر سے کہا گیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات کو ڈائون گریڈ کر دے یعنی نچلی سطح پر لے آئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنا سفیر تہران سے واپس بلا لے اور تعلقات کو ناظم الامور کی سطح پر لے آئے۔ ناظم الامور قائم مقام سفیر ہوتا ہے اور پروٹوکول میں اس کا رتبہ سفیر سے کمتر ہوتا ہے۔ قطر سے یہ بھی مکالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایرانی پاسداران کے نمائندوں کو دوحہ سے فارغ کر دے، ایران کے ساتھ عسکری تعاون ختم کیا جائے اور دو طرفہ تجارت میں ایران پر نافذ بین الاقوامی پابندیوں کی پاسداری کی جائے۔
قطر سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اخوان المسلمون ، داعش، القاعدہ اور حزب اللہ سے تعلقات ختم کر دے اور انہیں دہشت گرد تنظیمیں تصور کرے۔ الجزیرہ ٹی وی چینل اور اس سے متعلقہ اداروں کو ختم کیا جائے۔ قطر سے ترکی کے فوجی واپس بھیجے جائیں اور ان تمام افراد اور اداروں کی فنڈنگ بند کی جائے جنہیں سعودی عرب مصر،متحدہ عرب امارات ،امریکہ اور بحرین نے دہشت گرد قرار دیا ہے۔ مزید برآں سعودی عرب،متحدہ عرب امارات بحرین اور مصر کو ان کے وہ تمام شہری واپس کئے جائیں جنہوں نے قطر میں پناہ لے کر رکھی ہے اور وہ ان چار ممالک کو مطلوب ہیں۔ قطر دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی بندکرے۔ مصر، سعودی عرب بحرین اور عرب امارات کے جن شہریوں کو خلاف قانون قطر کی شہریت دی گئی ہے وہ منسوخ کی جائے۔ قطر ان چاروں ممالک میں اپوزیشن عناصر سے قطع تعلقی کا اعلان کرے اور اس سلسلہ میں اب تک کے تعلقات کی تفاصیل شیئر کی جائیں۔ قطر کی پالیسی سے گزشتہ برسوں میں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کی تلافی کی جائے۔ قطر عسکری سماجی اقتصادی اور سیاسی طور پر خلیجی ریاستوں کے ساتھ 2014 کے سعودی قطری سمجھوتے کے مطابق تعاون کرے۔
جرمنی فرانس اور برطانیہ نے کہا ہے کہ قطر سے کئے گئے تازہ ترین مطالبے اس کی خود مختاری کے خلاف ہیں۔ امریکہ میں صورت حال دلچسپ ہے ، وائٹ ہائوس کے بیانات قطر مخالف ہیں جبکہ سٹیٹ ڈیپارنمنٹ یعنی وزارت کی سٹیٹ منٹ یورپی ممالک سے قریب تر ہے۔ لگتا ہے کہ امریکہ دونوں دھڑوں کو مختلف پیغامات دے رہا ہے۔ قطر میں امریکہ کا بہت بڑا ائیربیس ہے جہاں دس ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں داعش کے خلاف جنگ اورشام کی صورت حال کی وجہ سے اس ائیر بیس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب ہے جو امریکی ہتھیاروں کا بڑا خریدار ہے ، یو اے ای کی اہمیت بھی اس زاویے سے ہے۔ مصر وہ اہم ملک ہے جس نے نہ صرف اسرائیل کو 1978 سے تسلیم کیا ہو اہے بلکہ وہ حماس اور حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دے چکا ہے امریکہ کے بیانات میں موجود تنا قص زمینی حقائق کی عکاسی کر رہا ہے۔
خلیجی عرب ممالک کی باہمی شکر رنجی خطے کے لئے خطر ناک ہو سکتی ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں پینے کا بیشتر پانی سمندر کے پانی کی تطہیر کر کے حاصل کیا جاتا ہے۔ پوری دنیا کے پنتالیس (45) فیصد Desalination کے پلانٹ عرب خلیجی ممالک میں ہیں اگر کسی ممکنہ جنگ میں ان میں سے چند پلانٹ تباہ ہو جائیں تو پینے کے پانی کا شدید بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ خلیج کے پانیوں میں موجود انواع واقسام کی مچھلی ان ممالک میں بیحد مقبول ہے مجھے یاد ہے کہ حمور مچھلی تو ہر متمول خلیجی دستر خوان پر موجود ہوتی ہے۔ آبی حیات کی افزائش اور اس کا معقول طریقے سے استعمال باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے اور معنی خیز تعاون کے لئے امن پہلی شرط ہے اکثر خلیجی ممالک اب تیل اور گیس سے آگے کا سوچ رہے ہیں۔ ایران سعودی عرب اور یو اے ای ایٹمی بجلی گھر بنا رہے ہیں۔ ایٹمی بجلی گھروں کا استعمال بھی تعاون مانگتا ہے تاکہ ایک ملک میں ممکنہ ایٹمی حادثے کی صورت میں ہمسایہ ممالک فوراً مدد کو آئیں۔ لہٰذا خلیجی ممالک میں تعاون کی روح کا فروغ ازبس ضروری ہے۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ اس وقت کے زمینی حقائق تعاون کی بجائے مخاصمت کی طرف جارہے ہیں۔
یوں لگتا ہے جیسے خلیجی ممالک غیظ و غضب کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ قطر سعودی عرب اورامارات کے مقابلے میں بہت ہی چھوٹا ملک ہے، قطر کو ایران اور ترکی سپورٹ کر رہے ہیں۔ قطر کے میڈیا کو پچھلے دنوں میں نے غور سے دیکھا ہے امیر قطر کی پاپولیرٹی میں اضافہ ہوا ہے۔ غذائی مواد سعودی عرب سے آنا بند ہوا تو ایران نے سپلائی شروع کر دی۔ ترکی نے چند دستے عسکری تعاون کی علامت کے طورپر بھیج دئیے ہیں اس سے قطر کی کافی ڈھارس بندھی ہے۔ پہلے پہل امریکہ کے صدر ٹرمپ نے اپنے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کو کہا کہ وہ خلیج میں صلح کاعمل شروع کریں لیکن وہ جلد ہی سمجھ گئے ایسی کوشش فی الوقت سود مند نہیں ہو گی۔ سنجیدہ کوشش صرف کوئت کی طرف سے ہوئی ہے مگر امیر کوئت نے بھی اسے صلح یا مصالحت کا نام نہیں دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ میں فریقین کی بات سن رہا ہوں۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا قطر کو جرم ضعیفی کی سزا ملی ہے۔ میرے خیال میں یہ سوال کسی حد تک صحیح بھی ہے۔ قطر کے مخالف گروپ کا کہنا ہے کہ یہ چھوٹا سا ملک اپنے حجم اور قد سے بہت بڑھ کررول پلے کرنے کی کوشش میں ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ قطری قیادت میں فراست کی کمی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہائوس میں آمد کے بعد بدلے ہوئے سیناریو کا ادراک نہیں کرپائی۔ وائٹ ہائوس میں تبدیلی کے فوراً بعد واشنگٹن کے بعض تھنک ٹینک قطر کے خلاف متحرک ہو گئے تھے اس سلسلہ میں واشنگٹن میں اماراتی سفیر یوسف العتیبہ بھی بڑے سرگرم نظر آئے ۔ ظاہر ہے کہ قطر کو اس بدلتی ہوئی صورت حال کا علم تو ہو گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ قطر کو یقین ہو کہ وہ آئندہ آنے والی مشکل صورت حال کا مقابلہ کر سکتا ہے اور یہ کہنا ہے کہ قطری امداد صرف دہشت گردوں کو جاتی ہے قرین قیاس نہیں۔ ترکی میں لاکھوں شامی مہاجرین کی سب سے زیادہ امداد قطری حکومت کر رہی ہے۔ قرآئن بتا رہے ہیں کہ خلیج کا ڈیڈ لاک ابھی کچھ عرصہ چلے گا۔ ترکی اور ایران تو اب تنازعے میں فریق بن چکے ہیں لہٰذا پاکستان کو چاہئے کہ سعودی ایران مصالحت کے لئے خاموشی سے کام کرتا رہے۔ امت مسلمہ کا نفاق ہمارے مفاد میں نہیں۔ خلیج میں درجہ حرارت کم ہونا چاہئے یہ خطہ ہمارے لئے بے حد اہم ہے ۔اس کار خیر میں ہمیں انڈونیشیا اور ملائشیا کو ساتھ ملانا چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں