"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستان انڈیا میں آبی جنگ؟

کیاپاکستان اور انڈیا کے درمیان پانی کے مسائل آہستہ آہستہ جنگ کی طرف لے جا سکتے ہیں؟ یہ سوال ان متعدد سوالوں میں سے ایک ہے جو ڈاکٹر اعجاز حسین نے اپنی تازہ ترین کتاب میں اٹھائے ہیں۔ یہ کتاب سندھ طاس معاہدے کا چھپن سال گزرنے کے بعد ایک بے لاگ جائزہ ہے اور بقول مشہور انڈین قانون دان اور رائٹر اے جی نورانی پاکستان کی طرف اس موضوع پر پہلی سنجیدہ سٹڈی ہے۔
ڈاکٹر اعجاز حسین بین الاقوامی تعلقات‘ ریسرچ اور تعلیم کے میادین کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ فرانس سے انٹرنیشنل لا میں پی ایچ ڈی کی۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ رہے۔ سوشل سائنس سے متعلقہ تمام شعبوں کے ڈین رہے۔ چار سال تک پیرس میں‘ یونیسکو میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ 1982ء میں ایک سال تک ایک امریکی کانگریس مین یعنی پارلیمنٹ کے ممبر کے ساتھ کام کیا۔ جاپان اور امریکہ میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ریسرچ کا کام کیا۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں‘ کئی برس انگریزی اخباروں میں کالم لکھتے رہے۔ میری ان سے پہلی ملاقات ایتھنز میں ہوئی تھی جہاں یونانی حکومت نے انہیں قبرص کے مسئلہ کو سٹڈی کرنے کے لیے بلایا تھا۔
اس کتاب کو لکھنے کے لیے مصنف کو جو پاپڑ بیلنے پڑے ان کا ذکر دیباچہ میں موجود ہے۔ سندھ طاس معاہدہ کرانے میں ورلڈ بینک کا کلیدی رول تھا‘ لہٰذا اس معاہدے سے متعلق اہم دستاویزات بھی امریکہ میں ہیں۔ مصنف نے اس ریسرچ کو فنڈ کرنے کے لیے قائد اعظم یونیورسٹی ہائر ایجوکیشن کمشن‘ فل برائٹ ایجوکیشنل فائونڈیشن سے رجوع کیا مگر کہیں سے مثبت جواب نہ ملا۔ تمام حکومتیں بیس پچیس سال گزرنے کے بعد سرکاری دستاویزات کو ڈی کلاسیفائی کر دیتی ہیں۔ میں جمہوری ممالک کی بات کر رہا ہوں اور پاکستان بھی جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو سرکاری کاغذات عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہے ہیں‘ وہ منظر عام پر آ جائیں۔ ریسرچ کرنے والے انہیں سٹڈی کریں اور اہم حقائق کو اپنے کالموں اور کتب کی شکل میں سامنے لائیں تاکہ تاریخ کی درست تدوین ہو سکے اور ماضی قریب کے اہم واقعات پر قومی مباحثہ ہو سکے۔ تاکہ ماضی میں جو غلطیاں سرزد ہوئی ہوں آئندہ ان سے بچا جا سکے۔ مصنف نے اس کتاب پر جب کام کی ابتدا کی تو سندھ طاس منصوبے پر دستخط ہوئے نصف صدی ہو چکی تھی۔ اس سلسلہ کے کئی اہم کاغذات حکومت پاکستان اور انڈین گورنمنٹ کے پاس تھے۔ اسلام آباد میں ایک فیڈرل سیکرٹری سے رابطہ کیا گیا لیکن دستاویزات تک مصنف کی رسائی نہ ہو سکی۔ ان حالات میں مصنف کو دو مرتبہ اپنے ذاتی خرچ پر امریکہ جانا پڑا۔ ورلڈ بینک کے آرکائیو سیکشن میں درجنوں مرتبہ جا کر پرانی خط و کتابت کو غور سے دیکھا۔ کئی اہم حقائق پہلی مرتبہ سامنے آئے اور اب وہ تمام کے تمام ریفرنس یعنی اسناد کے ساتھ اس جید کتاب کا حصہ ہیں۔ میرے خیال میں ایمانداری سے اتنی عرق ریزی کرکے مصنف نے پاکستان کے لیے شاندار کام سرانجام دیا ہے۔ پاکستان کے خلاف ممکنہ انڈین آبی جارحیت کی بنیاد آزادی سے پہلے ہی رکھ دی گئی تھی اور یہ کام سر سیرل ریڈکلف Cyril Radcliffe نے سرانجام دیا تھا۔ لاہور‘ شیخوپورہ‘ ساہیوال‘ اوکاڑہ‘ وہاڑی‘ بہاولنگر پنجاب کے زرخیز زرعی اضلاع ہیں۔ ان اضلاع میں آبپاشی راوی ستلج اور بیاس کے پانی سے ہوتی تھی۔ ان تین دریائوں کا ستر فیصد پانی مندرجہ بالا اضلاع کی اراضی کو سیراب کرتا تھا۔ راوی اور ستلج پر دو بیراج تھے جہاں سے مندرجہ بالا اضلاع کے لئے نہریں نکلتی تھیں اور یہ تھے مادھوپور یعنی ضلع گورداسپور میں اور دوسرا ضلع فیروزپور میں۔ ان بیراجوں کے اردگرد آبادی کی اکثریت بھی مسلمان تھی لیکن ریڈکلف نے یہ دونوں علاقے انڈیا کو دے دیئے۔ ان دونوں اضلاع میں سے گورداس پور سٹریٹیجک لحاظ سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا کیونکہ یہ کشمیر کو انڈیا سے ملاتا تھا۔ انڈیا کے کئی دانشور آج بھی یہ تھیوری پیش کرنے سے باز نہیں آتے کہ پاکستان بنانے میں انگریز کا ہاتھ تھا۔ اگر ایسا ہوتا یعنی انگریز کے دل و دماغ میں پاکستان کے لئے ذرا سی بھی ہمدردی ہوتی تو وہ ہمیں ان اہم ہیڈ ورکس سے محروم نہ کرتا۔ پارٹیشن کی غیر منصفانہ لکیر نے انڈیا کو شروع سے اس قابل کیا کہ وہ نوزائدہ ریاست پاکستان کے خلاف آبی جارحیت پر سنجیدگی سے منصوبے بنائے۔
نہری پانی کی ترسیل کو بلا رکاوٹ جاری رکھنے کے لئے پاکستان نے انڈیا کے ساتھ معاہدہ کیا جسے Stand Still Agreement کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق پاکستان کو مشرقی دریائوں سے پانی 14 اگست 1947ء کی مقدار کے مطابق ملنا تھا‘ مگر یہ معاہدہ قلیل مدت کے لئے تھا۔ پانی کے مسئلے پر مشرقی اور مغربی پنجاب کی حکومتوں کے درمیان بات چیت جاری تھی۔ انڈین پنجاب کے وفد کی سربراہی سردار سورن سنگھ کر رہے تھے جبکہ پاکستانی پنجاب کے وفد کے لیڈر سردار شوکت حیات تھے۔ 1948ء کے اوائل میں دونوں وفود لاہور میں ملے۔ پاکستان کی خواہش تھی کہ انڈیا آبی جارحیت نہ کرنے کا پکا وعدہ کرے۔ چائے کا وقفہ تھا۔ سردار شوکت حیات نے بے تکلفی سے سورن سنگھ سے پنجابی میں سوال کیا ''او سردارا تسی ساڈا پانی تے بند نہیں کرو گے؟‘‘ سورن سنگھ نے جواب دیا ''بھائی جی کیہہ کہندے او کدی کوئی بھراواں دا پانی وی بند کردا اے‘‘۔ اس بات کے بعد پاکستان کو یقین ہو گیا کہ انڈیا پانی بند نہیں کرے گا۔ چنانچہ Stand Still Agreement کی تحریری تجدید پر بھی پاکستان نے اصرار نہیں کیا۔ اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ یکم اپریل
1948ء کو انڈیا نے پاکستان کو آنے والی گیارہ نہروں کا پانی بند کر دیا۔ پنڈت نہرو نے مشرقی پنجاب کی حکومت کو ایسا کرنے پر ڈانٹ پلائی لیکن یہ سب سوچا سمجھا ڈرامہ تھا۔ کشمیر اور پانی کے معاملے میں پنڈت نہرو کے جھوٹے وعدے اور منافقانہ کردار اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس کے بعد انڈیا اور پاکستان میں پانی کے مسئلے پر کئی مرتبہ مذاکرات ہوئے مگر ناکام رہے۔ اس عرصے میں امریکہ کی ایک بااثر شخصیت نے اس مسئلے کے حل کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ یہ صاحب ڈیوڈ لیلنتھال David Lilenthal تھے جو امریکن اٹامک انرجی کمشن کے سربراہ رہ چکے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ٹینسی ویلی اتھارٹی کے ہیڈ بھی رہے تھے اور دریائے ٹینسی کی مختلف امریکن ریاستوں میں تقسیم کے پراجیکٹ پر کام کر چکے تھے۔ پنڈت نہرو نے انہیں انڈیا آنے کی دعوت دی۔ وہ انڈیا جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ مشہور امریکن صحافی والٹر لپ مین Walter Lipman نے تجویز دی کہ انہیں اسی دورہ میں پاکستان بھی جانا چاہیے کہ پاکستان کے لیے یہ بہت ہی حساس معاملہ ہے۔ چنانچہ وہ انڈیا اور پاکستان آئے۔ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم یعنی پنڈت نہرو اور لیاقت علی خان سے ملے۔ امریکہ واپس جا کر دو مضمون لکھے جن کا عنوان تھا "Another "Korea" in the Making?" یعنی برصغیر میں ایک اور کوریا بننے جا رہا ہے۔ اس کے بعد ورلڈ بینک کے صدر یوجین بلیک Eugene Black نے دلچسپی لینا شروع کی۔ مذاکرات کئی سال تک چلے۔ انڈیا کو بڑا فائدہ یہ نظر آ رہا تھا کہ تینوں مشرقی دریائوں کا پانی اُسے مل جائے گا۔ پاکستان شروع میں ان دریائوں کا پانی سرنڈر کرنے کو تیار تھا۔ انٹرنیشنل لا کے مطابق پاکستان کو راوی ستلج اور بیاس کے پانیوں سے محروم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ امریکہ اور ورلڈ بینک کی دلچسپی بڑھ رہی تھی۔ اس کی وجہ کیا ہو گی؟ مصنف نے دستاویزی ثبوت دے کر کہا ہے کہ ورلڈ بینک سندھ طاس معاہدہ کرانے پر مُصر تھا اور ان کی رائے میں وجہ یہ تھی کہ مغربی ممالک انڈیا کو اپنے کیمپ کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔ یہ ایک اہم انکشاف ہے اور کتاب میں ایسے متعدد انکشافات اور بھی ہیں۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں