"JDC" (space) message & send to 7575

ترکی میں دو روز

ترکی اور پاکستان کا تعلق پرانا ہے۔ تحریک خلافت کے ساتھ برصغیر کے مسلمانوں کا جذباتی لگائو دیدنی تھا۔ یہ کئی لحاظ سے بہت ہی دلچسپ تحریک تھی اور اس قدر پاپولر کہ گاندھی جی بھی سیاسی مفادات کے لئے اس میں شامل ہو گئے تھے۔ ادھر ترکی میں کمال اتاترک کی قیادت میں ترکوں کے نوجوان Young Turks اپنے تئیں خلافت کو قوم کے زوال کا سبب گردان رہے تھے۔ جرمنی‘ اٹلی اور ترکی کو پہلی جنگ عظیم میں شکست ہوئی۔ سلطنت عثمانیہ ختم ہوئی۔ پورا مڈل ایسٹ ترکی کے تسلط سے آزاد ہو گیا۔ برطانیہ نے اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے عربوں کے شوق آزادی کو تقویت فراہم کی مگر تاریخی ستم ظریفی یہ بھی ہوئی کہ برطانیہ اور مغربی ممالک جاتے جاتے اسرائیل کا پودا لگا گئے جو اب تن آور درخت بن چکا ہے۔
کمال اتاترک نے ایک شکست خوردہ قوم کو نئی اور پرعزم قیادت فراہم کی۔ تحریک خلافت کے بے حد مقبول ہونے کے باوجود قائداعظمؒ اس سے الگ تھلگ رہے اس کی ایک وجہ تو تحریک میں گاندھی کی شرکت ہو سکتی ہے لیکن اس سے بڑھ کر مجھے لگتا ہے کہ قائداعظمؒ جیسے حقیقت پسند Pragmatic لیڈر کا ایک ایسی موومنٹ میں شریک ہونا محال تھا جس کی ناکامی کے امکانات روزروشن کی طرح عیاں تھے۔ اس کے باوجود ترک عوام ایک لمبے عرصے تک پاکستان کی محبت میں اس وجہ سے گرفتار رہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے ترکی کے ساتھ اپنی وابستگی کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا۔
کمال اتاترک کے خیال میں خلافت اور ملائیت ترکی کے زوال کے اسباب میں شامل تھے۔ اتاترک سیکولرازم اور جدیدیت کے حامی تھے۔ لیکن روایتی نقوش مٹانے میں وہ غالباً بہت آگے نکل گئے۔ ان کے ہاں جدیدیت اور مغربیت میں بڑا موہوم سا فرق تھا۔ روایتی نقوش مٹانے کی غرض سے ماڈرن ترکی کے بابائے قوم نے عربی رسم الخط کو چھوڑ کر لاطینی طرز تحریر کو رائج کیا۔ خواتین میں برقعہ پہننے کی حوصلہ شکنی کی لیکن اس پالیسی کی تنفیذ بہت ذہین طریقے سے کی۔ حکومت نے اعلان کیا کہ طوائفوں کے لئے برقعہ پوشی لازمی ہو گی۔ اس کے بعد شریف زادیوں نے خود ہی برقعہ اتار دیا۔ 1993ء میں مجھے ایک سرکاری وفد کے ساتھ ترکی جانے کا موقع ملا۔ کمال اتاترک کے مزار پر حاضری کے لئے گئے تو ٹرکش پروٹوکول والوں نے طریقے سے سمجھا دیا کہ جدید ترکی کے مئوسس کی قبر پر فاتحہ کہنے کے لئے اگر ہاتھ نہ اٹھائے جائیں تو بہتر ہو گا۔ چنانچہ ہم نے ہاتھ نہیں اٹھائے مگر خاموشی سے دل میں فاتحہ پڑھ لی تھی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جنرل پرویز مشرف نے شروع میں کہا تھا کہ کمال اتاترک ان کے رول ماڈل ہیں اور پھر انہیں دائیں بازو کی جماعتوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ آہستہ آہستہ مشرف صاحب نے یہ بات کرنی بند کر دی تھی۔ لیکن یہ بھی عجب ستم ظریفی ہے کہ ترکی نے مغرب کا حصہ بننے کی بہت کوشش کی مگر یورپی یونین کا ممبر آج تک نہیں بن سکا۔ جدید ترکی میں پہلے نجم الدین اربکان اور پھر طیب اردوان کی مقبولیت میں مغرب کے رویے کے خلاف ردعمل کا عنصر بھی شامل تھا۔
ترکی کا جغرافیائی محل وقوع بے حد اہم ہے کہ براعظم ایشیا اور یورپ کا سنگھم ترکی کے سب سے معروف شہر استنبول میں ہوتا ہے۔ آبنائے باسفورس دونوں براعظموں کی حد فاصل ہے شام کی جنگ اور داعش کے ظہور نے ترکی کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے۔ آج سے دس سال قبل ترکی مڈل ایسٹ میں اثرورسوخ کے لحاظ سے اہم ملک تھا مگر آج کا ترکی مڈل ایسٹ کے پیچیدہ تنازعات میں فریق بنتا نظر آ رہا ہے۔
انسانی فطرت کا ایک خاصا یہ بھی ہے کہ بالادست اور بانفوذ طبقات بلکہ اقوام اپنی شناخت تلاش کرتی ہیں۔ میں جب 1970ء کی دہائی میں شام میں تھا تو مجھے یاد ہے کہ متمول شامی گھرانے کسی نہ کسی واسطے سے ترکوں سے رشتہ داری ڈھونڈ نکالتے تھے اور اس تعلق کا ذکر بڑے فخر سے کرتے ہیں اسی طرح بیسویں صدی کے آغاز میں نظام آف حیدرآباد کی فیملی کے چند لوگوں نے ترکی کے شاہی خاندان میں شادیاں کیں۔ یاد رہے کہ نظام حیدرآباد دکن اُس زمانے میں دنیا کے امیر ترین شخص تھے۔
استنبول جس کا پہلا نام قسطنطنیہ تھا دو عظیم سلطنتوں کا دارالحکومت رہا ہے۔ پہلی عظیم سلطنت مشرقی رومن امپائر تھی جس کا دوسرا نام باز نسطینی سلطنت بھی ہے یہ سلطنت ظہور اسلام سے تھوڑا عرصہ پہلے اپنے عروج پر تھی۔ کنگ جسٹن اس سلطنت کی تاریخی سطوت کے نمائندہ کے طور پر ابھرے۔ استنبول یونانی اور آرتھو ڈاکس چرچ کا مرکزی مقام تھا۔ مشرقی رومن امپائر تو کب کی قصہ پارنیہ ہو چکی مگر یونانی کلیسا کے سینئر ترین کارڈینل کا صدر مقام آج بھی استنبول میں ہے۔ اپنا علیحدہ تشخص قائم کرنے کے لئے لاطینی کی جگہ یونانی زبان کو اپنایا۔ مشرقی یورپ آج کا یونان اورشمالی افریقہ اس مسیحی سلطنت میں شامل تھے۔ اصلی رومن امپائر کے زوال کے بعد ایک وقت وہ بھی آیا جب روم اور اٹلی کے متعدد حصّے ایسٹرن رومن امپائر میں آ گئے۔ کنگ تھیوڈورس King Theodorus نے عیسائیت کو سرکاری مذہب قرار دیا۔ ایسٹرن رومن امپائر وہ شاندار سلطنت تھی جو ایک ہزار سال تک قائم رہی۔ یونانی حکومت اور عوام آج بھی اُس زمانے کو اپنا سنہری دور شمار کرتے ہیں۔ لیکن تقدیر کے قاضی کا ازل سے فیصلہ ہے کہ ہر عروج کو زوال ضرور آتا ہے۔ چنانچہ ترکی میں سلطنت عثمانیہ کا ظہور ہوا اور پندرہویں صدی کے وسط میں سلطان محمد الفاتح نے استنبول فتح کر لیا۔ سلطنت عثمانیہ کا عروج بھی صدیوں پر محیط تھا۔ آج کے مڈل ایسٹ کے کئی حصے پورا یونان‘ بلغاریہ‘ رومانیہ پورا بلقان اس سلطنت کا حصہ تھے۔ استنبول میں مقیم سلطان اسلام کی عظمت کی علامت تھا لیکن اس سلطنت کا طرہ امتیاز تھا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کو مکمل آزادی تھی۔ فوج اور سول بیورو کریسی کے لئے انتخاب چھوٹی عمر کے بچوں کا کیا جاتا تھا اور سلیکشن مکمل طور پر میرٹ پر ہوتی تھی۔ پھر ان بچوں کی تعلیم و تربیت کا طویل سلسلہ شروع ہوتا تھا۔ جب یہ سکول کے مرحلے سے گزرتے تھے تب یہ فیصلہ ہوتا کہ کون کس محکمے میں جائے گا۔ انتہائی قوی فوج اور اعلیٰ قسم کی سول بیورو کریسی سلطنت عثمانیہ کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔ یہاں بھی سلیکشن بہت سوچ سمجھ کر کی جاتی وہ محکمے جہاں کرپشن کے مواقع زیادہ تھے وہاں منتخب کردہ نوجوانوں کے لئے دلچسپ شرط ہوتی تھی اور وہ یہ کہ شادی سے اجتناب کریں گے۔ عثمانی سلاطین کا خیال تھا کہ بیوی بچے انسانی لالچ کو دوبالا کرتے ہیں لہٰذا مال پانی والے محکموں میں مجرد افسر لگانا بہتر ہو گا۔
ترکی کی شاندار تاریخی روایت ترکوں کو ترکی زبان اور اس کے مختلف لہجات کو دور دراز تک لے گئی۔ آج پورے وسط ایشیا میں ماسوائے تاجکستان کے ہر جگہ ترکی سمجھی جاتی ہے اور ترکی سے ملتی جلتی زبانیں مثلاً ازبک اور کازاک بولی جاتی ہیں۔ میرا اس سال امریکہ میں مقیم اپنے بیٹے کے پاس جانے کا پروگرام تھا سفر امریکہ کے لئے کئی آپشن تھے۔ ان میں سب سے اچھا مجھے براستہ استنبول جانے کا لگا۔ ٹرکش ایئر لائن کا کرایہ بھی معقول تھا۔ استنبول میں رکنے کا آپشن تھا۔ میں اس سے پہلے تین مرتبہ ترکی جا چکا تھا مگر وہ سب سفر سرکاری تھے۔ اس سحر انگیز شہر کی کشش اتنی ہے کہ چوتھی مرتبہ جانے کو بھی دل چاہ رہا تھا۔ ترکی حکومت نے یہ سہولت بھی دے رکھی ہے کہ امریکہ اور یورپ کے ویزہ ہولڈر گھر بیٹھے آن لائن ویزہ لے سکتے ہیں کمپیوٹر پر فارم پر کریں کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی کریں اور چند منٹوں میں ویزہ کا پرنٹ نکال لیں۔ ان مراحل سے گزر کر میں بالآخر استنبول کی جانب محو پرواز تھا۔ وہ استنبول جس نے صدیوں تک سیاسی اور عسکری عظمت کا مشاہدہ کیا اور جو آج کے ترکی کا دل ہے ۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں