"JDC" (space) message & send to 7575

ترکی میں دو روز …(3)

استنبول میں میرا دوسرا دن جمعتہ المبارک تھا اور میرا پکا ارادہ تھا کہ جمعہ کی نماز سلطان احمد مسجد میں ادا کرنی ہے اس تاریخی مسجد کو نیلی مسجد Blue Mosque بھی کہا جاتا ہے۔ ٹرام کی لائن ہوٹل کے سامنے سے گزرتی ہے۔ قریب ترین سٹیشن گالا تا پُل والا تھا۔ مشین میں پانچ لیرے ڈالے اور ٹکٹ نکل آیا۔ یہاں سے چوتھا سٹیشن سلطان احمد کا تھا۔ آیا صوفیہ Hagia Sophia کا مشہور گرجا جو بعد میں مسجد بنا اور آج کل میوزیم ہے وہ بھی پاس ہی ہے اور معروف تاریخی مقام توپ کاپی محل بھی زیادہ دور نہیں۔ میں نے سوچا کہ نماز سے پہلے محل دیکھ لیا جائے۔ چالیس لیرے یعنی تقریباً بارہ ڈالر ٹکٹ ہے اور روزانہ سینکڑوں لوگ اس تاریخی مقام کو دیکھنے آتے ہیں۔
قصرتوپ کاپی عثمانی سلاطین کی رہائش گاہ بھی تھا اور سلطنت کے اہم دفاتر بھی یہیں تھے۔ کابینہ کے اجلاس بھی یہیں ہوتے تھے۔ سلطان کابینہ کے اجلاس کو ایک اونچی کھڑکی سے دیکھتا تھا۔ سلطان کے اشارے پر کابینہ کا اجلاس ختم ہو جاتا تھا اور تھوڑی دیر بعد سینئر وزیر اہم فیصلوں کو تحریری شکل میں سلطان کے پاس لے جاتا تھا۔ سلطان کی ترامیم کے بعد فیصلے آخری شکل پاتے تھے اور احکام صادر ہوتے تھے۔ میں توپ کاپی محل اس سے پہلے بھی جا چکا تھا۔ اس مرتبہ دیکھا کہ اسلامی خطاطی کا ایک سیکشن مزید بنایا گیا ہے یہاں سب سے اہم چیز رسول اللہؐ کا حلیہ مبارک ہے جو مختلف خطاطوں نے لکھا ہے ظاہر ہے کہ عبارت ایک ہی ہے۔
توپ کاپی پیلس 1478 عیسوی میں مکمل ہوا تھا پندرہویں صدی سلطنت عثمانیہ کے آغاز کی صدی ہے اس عظیم الشان تاریخی عمارت نے‘ جو وسیع ایریا پر پھیلی ہوئی ہے‘ سلطنت کا عروج دیکھا اس مرتبہ اسلامی خطاطی والے حصّہ میں ایک قاری صاحب تلاوت کر رہے تھے۔ یہ نیک عمل مجھے پہلے کبھی یہاں نظر نہیں آیا۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ کام طیب اردوان کی حکومت میں ہی ممکن تھا۔ اس سے پہلے ٹرکش ایئرلائن کے جہاز میں ٹی وی چینلز پر میں قرآن چینل بھی دیکھ چکا تھا؟ جہاں مکمل قرآن کریم عبداللہ یوسف علی کے انگریزی ترجمہ کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے اور اسے آج کے ترکی کی رواداری کہہ لیں یا کھُلا تضاد‘ ہوائی جہاز میں انواع و اقسام کی شراب بھی متوفر تھی۔
توپ کاپی پیلس کا سب سے دلچسپ حصّہ وہ ہے جہاں انبیاء کرامؑ اور صحابہ کرامؓ سے منسوب نوادرات رکھے گئے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا یہاں موجود ہے۔ حضرت یوسف ؑ کی پگڑی رکھی ہوئی ہے۔ رسول اللہؐ کی تین عدد تلواریں اور ایک کمان ہے۔ حضرت فاطمہ الزھرہؓ کا خرقہ مبارکہ اور امام حسینؓ کا جُبہ بھی نوادرات میںشامل ہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا موئے مبارک ہے۔ حضرت عثمانؓ کے عہد کا قرآنی نسخہ ہے مشہور صحابی حضرت زبیر بن عوامؓ کی تلوار بھی رکھی ہوئی ہے۔ قصر کا ایک حصّہ مختلف سلاطین کی تصویروں سے آراستہ ہے۔ ایک زمانے میں اسی میوزیم میں سلطنت عثمانیہ میں استعمال ہونے والی کراکری اور کٹلری کی ایک ہال میں نمائش ہوتی تھی۔ اس مرتبہ وہ حصّہ مرمت کی وجہ سے بند تھا۔
اس پیلس اور میوزیم کو دیکھنے میں دو گھنٹے سے زائد وقت لگا۔ نماز جمعہ کا وقت ہو رہا تھا۔ میں پیدل نیلی مسجد کی جانب گیا۔ مسجد کے مرکزی مدخل کے ساتھ ہی وضو کے لئے وسیع جگہ ہے میں وضو کر رہا تھا جب بائیں جانب دیکھا تو ایک خاتون وضو کر رہی تھیں میں حیران ہوا کہ بڑی ماڈرن مسجد لگتی ہے لیکن جلد ہی یہ عقدہ کھلا کہ وہ غلطی سے مردوں کی جائے وضو میں آ گئی تھیں لیکن اچھی بات یہ لگی کہ کسی نے خاتون کے وہاں وضو کرنے پر اعتراض نہیں کیا۔ اندر گئے تو پتہ چلا کہ مسجد کے مین ہال میں مردوں اور خواتین کے داخل ہونے کے راستے الگ الگ ہیں۔ مرد گرائونڈ فلور کے بڑے ہال میں نماز ادا کرتے ہیں جبکہ خواتین فرسٹ فلور یا یوں کہہ لیں کہ گیلری میں نماز پڑھتی ہیں۔ مولوی صاحب باریش نہیں تھے اور تقریر ترکی زبان میں ہوئی۔ جمعہ کا خطبہ دوسرے مولوی صاحب نے دیا جن کی چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی۔ یہ مسجد 1691ء میں مکمل ہوئی تھی یوں یہ تاریخی عمارت لاہور کی مسجد وزیر خان اور بادشاہی مسجد دونوں سے پرانی ہے۔ لیکن عمارت اب بھی بہت اچھی حالت میں ہے۔ مسجد کا وسیع ہال نمازیوں سے بھرا ہوا تھا جس سے لگا کہ ترک پھر سے اسلام کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ نمازیوں میں سے ایک چوتھائی کے قریب نوجوان تھے۔
باسفورس کے یورپی کنارے پر دولما باچے محل ہے۔ عمارت کی شان و شوکت توپ کاپی پیلس سے کہیں زیادہ ہے۔ عمارت چھ سو میٹر طویل ہے یہ قصر حکومت انیسیویں صدی کے وسط میں تعمیر ہوا اور سلطنت عثمانیہ کے زوال کا شاہد بھی۔ اسی پرتعیش عمارت میں کمال اتاترک نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے اور اسی میں وفات پائی۔ کہا جاتا ہے اس محل پر آج کے حساب سے ڈیڑھ ارب ڈالر خرچ ہوئے تھے‘ یہ محل گیارہ ایکڑ پر قائم ہے اس میں دو سو پچاسی (285) کمرے ہیں جن میں سے چھیالیس ہال کمرے ہیں۔ اس محل کی چھتوں کو خالص سونے کے پانی سے مزین کیا گیا تھا۔ دیوان خاص میں اور دو رویہ سیڑھیوں میں لگے ہوئے شینڈلیر یعنی جھاڑ فانوس یورپ سے منگوائے گئے تھے۔ ایک فانوس پر سات سو پچاس (750) بلب ہیں اور یہ فانوس لندن سے لایا گیا تھا۔
بقول اقبالؔ قومیں شمشیر و سناں سے شروع ہوتی ہیں اور طائوس و رباب پر ختم ہوتی ہیں۔ یہ پُرتعیش محل اور اس پر ہونے والے بے شمار اخراجات سلطنت کو کنگال کر گئے۔ جب سلطان عبدالحمید اس عظیم الشان محل میں رہائش پذیر تھا تو ترکی کو یورپ کے مرد بیمار کا لقب مل چکا تھا۔ قوموں کی قوت ان کے کردار میں ہوتی ہے شاندار عمارتوں میں نہیں‘ قوموں کی طاقت ان کے اداروں میں ہوتی ہیں سنگ مرمر کے بنے ہوئے مزاروں میں نہیں۔ جب ہمارے ہاں تاج محل اور شالامار تعمیر ہو رہے تھے تو یورپ میں اعلیٰ قسم کی یونیورسٹیاں بن رہی تھیں اسی لئے یورپ کی غلامی ہمارا مقدر ٹھہری۔
دولما باچے سے ٹیکسی لی اور واپس ہوٹل آ گیا۔ دن ڈھل رہا تھا۔ آرام کرنے کو دل چاہ رہا تھا پھر سوچا کہ آرام تو رات کو بھی ہو جائے گا باسفورس کے کنارے پیدل سیر کا زیادہ لطف رہے گا؛ چنانچہ میں پاپیادہ باسفورس کے کنارے پہنچ گیا۔ یہاں چھوٹے جہازوں کے کروز چلتے ہیں باسفورس میں مغرب کے بعد سیر کا اور ہی لطف ہے میں چونکہ جہاز کی سیر پہلے کر چکا تھا لہٰذا اس مرتبہ چہل قدمی کو ترجیح دی۔
ترکی کے لوگ سگریٹ بہت پیتے ہیں۔ بعض لڑکیاں بھی سڑکوں پر چلتے ہوئے فضا میں دھوئیں کے مرغولے چھوڑتی نظر آتی ہیں باسفورس کے کنارے درجنوں لوگ مچھلی کے شکار میں مصروف نظر آتے ہیں۔ عشاء کے بعد کئی لوگ لب سڑک مچھلی کا باربی کیو کرتے ہیں ان میں سے کئی سینڈوچ بنا کر فروخت کرتے ہیں۔ میں نے ایک ریسٹورنٹ میں سینڈوچ لیا اور ساتھ مشہور ٹرکش لسی لی جسے یہاں اریان کہا جاتا ہے۔ ہوٹل کے لئے پیدل روانہ ہوا۔ سینکڑوں لوگ باسفورس کے کنارے سیر کر رہے تھے۔ ہوٹل کے قریب پہنچا تو چند افراد سیاحوں کو بتا رہے تھے کہ ان کی شام رنگین کرنے کے تمام لوازمات موجود ہیں۔ میں جلدی سے ہوٹل میں داخل ہوا باتوں باتوں میں منیجر سے کہا کہ آپ کا ہوٹل بہت صاف ستھرا ہے مگر اس کے اردگرد مشکوک لوگ پھر رہے ہیں کہنے لگا اس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں کیونکہ استنبول کا بازار حسن ہوٹل کے عقب میں واقع ہے۔ میں لفٹ کے ذریعے کمرے کو جا رہا ہوں۔ ہر کمرے کے باہر کارڈ آویزاں ہے کہ اگر ابھی آپ کے سونے کا وقت نہیں ہوا تو سب سے آخری فلور پر میخانے یعنی بار میں آ سکتے ہیں۔ استنبول واقعی کھلے تضادات کا شہر ہے۔ اگلے روز صبح میں ایئرپورٹ جا رہا ہوں استنبول کی حسین یادیں سمیٹ کر۔ استنبول جو جغرافیہ اور کلچر کے اعتبار سے مشرق اور مغرب کا سنگم ہے یہ وہ عظیم تاریخی شہر ہے جس نے دو عظیم ایمپائرز دیکھیں جس کے گلی کوچے شاندار تاریخ کے شاہد ہیں۔ یہ شہر روشن تاریخ کا ہی امین نہیں بلکہ آج بھی ترکی کا دھڑکتا دل ہے۔ جہاں لاکھوں ''سیاح‘‘ کھنچے چلے آتے ہیں۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں