"JDC" (space) message & send to 7575

ڈونلڈ ٹرمپ اور میاں صاحب

آپ موضوع کو دیکھ کر شاید حیران ہوئے ہوں کہ صدر ٹرمپ اور سابق پاکستانی وزیراعظم کا موازنہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ایک سپر پاور کا لیڈر دوسرا تھرڈ ورلڈ کا سیاست دان۔ دونوں کے درمیان سات سمندر حائل ہیں۔ امریکہ اور پاکستان کے معروضی حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ لیکن ٹھہریں مجھے اس موضوع پر لکھنے کا خیال امریکہ میں آیا‘ جب میں نے وہاں کئی امریکی شہریوں کو کہتے سنا کہ ٹرمپ مافیا کا آدمی ہے اور آپ کو یاد ہو گا کہ بیس اپریل کے فیصلے میں ایسے ہی خیالات کا اظہار سپریم کورٹ کے دو فاضل جج صاحبان نے کیا تھا۔ ٹرمپ اور نواز شریف‘ دونوں بزنس مین ہیں اور بزنس مین کو اپنا منافع بہت مقدم ہوتا ہے۔ دونوں پر شک اور الزام ہے کہ وہ سیاست کے پردے میں اپنا بزنس ایجنڈا پروموٹ کر رہے ہیں۔ امریکہ میں یہ تاثر عام ہے کہ صدر ٹرمپ متکبر ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی لوگ کہتے ہیں کہ اتفاق کا کافی سارا سریا میاں صاحب کی گردن میں ہے۔ دونوں کا کنسٹرکشن سے ڈائریکٹ یا بالواسطہ تعلق ہے۔ دونوں بے حد امیر ہیں۔ ٹرمپ تو کھل کر مودی کا یار ہے‘ میاں صاحب پر یہ الزام اپوزیشن کے لوگ اکثر لگاتے رہتے ہیں۔ دونوں کو پڑھنے لکھنے کا زیادہ شوق نہیں۔ دونوں پر آمرانہ رویے کا الزام لگتا رہا ہے۔ چند ماہ ہوئے ٹرمپ نے میاں صاحب کو فون پر کہا: You are a terrific guy یعنی آپ بڑے زبردست آدمی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور میاں صاحب‘ دونوں میڈیا کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکہ کے میڈیا کے بارے میں نفرت الیکشن مہم کے دوران شروع ہوئی۔ موصوف کا کہنا ہے کہ میڈیا نے میری الیکشن میں فتح کو روکنے کی بہت کوشش کی‘ آج میں صدر ہوں میڈیا صدر نہیں ہے۔ صدر بننے کے بعد ایک سے زائد پریس کانفرنسز میں ڈونلڈ ٹرمپ صحافیوں پر برسے۔ وہ سی این این کو فیک نیوز Fake News کہتے ہیں۔ موصوف خاصے منہ پھٹ ہیں اور لگی لپٹی نہیں رکھتے۔ کوئی دو ہفتہ پہلے ورجینیا کے شہر شارلٹ ول میں نسلی فساد ہوا۔ شہر کی کونسل نے فیصلہ کیا تھا کہ ایک پارک میں نصب جنرل لی کا مجسمہ ہٹا دیا جائے۔ موصوف امریکن سول وار میں جنوبی فوج کے کمانڈر تھے۔ نسل پرست گوروں نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔ فساد میں تین لوگ جان سے گئے۔ امریکی میڈیا کی ڈیمانڈ تھی کہ صدر ٹرمپ کھل کر واقعے کے ذمہ دار لوگوں کا ذکر کریں‘ مگر صدر نے ایسا نہیں کیا‘ کیونکہ یہ متعصب قسم کے گورے ان کے پکے ووٹر تھے۔ ان لوگوں کی مذمت کرنے کے بجائے صدر ٹرمپ الٹا امریکن میڈیا پر پھر سے برسے۔
سابق وزیر اعظم پاکستان کو بھی میڈیا پسند نہیں تھا لیکن موصوف صدر ٹرمپ کی طرح منہ پھٹ نہیں۔ ان کی پالیسی یہ تھی کہ سرکاری میڈیا کے علاوہ ایک دو بڑے میڈیا ہائوس جیب میں رکھے جائیں۔ جب دھرنوں کے دوران میڈیا زیادہ ایکٹو ہو گیا تو میاں صاحب نے اشتہاروں کا سہارا لیا اور پھر سپیشل میڈیا سیل تشکیل دیا گیا‘ جس کی ہیڈ مریم صفدر کو لگایا گیا۔ اس سیل کا کام تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر نظر رکھنا تھا۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے حکومت کے کاموں کی مثبت پبلسٹی بھی سیل کے فرائض میں شامل تھی۔ البتہ اُس وقت کے وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید کا کہنا تھا کہ یہ سیل اعلیٰ تعلیمی اداروں اور حکومتی پالیسی ساز اداروں کے درمیان پل کا کردار ادا کرے گا۔ مگر یہ نوعمر ادارہ ایسے نیک کام کرنے کے بجائے کچھ خفیہ اہداف حاصل کرنے میں مصروف ہو گیا۔ پرائیویٹ اور آزاد میڈیا کا جو جن جنرل پرویز مشرف نے بوتل سے نکال دیا تھا اُسے دوبارہ قید کرنا ناممکن تھا۔ آ جا کے سپیشل سیل کا زور سرکاری ٹی وی کے چند اینکرز پر ہی چل سکا اور پھر ڈان لیکس سکینڈل کے دوران سیپشل سیل خود بھی مشکوک ہو گیا۔
میاں نواز شریف کے چار بالغ بچے ہیں اور صدر ٹرمپ کے بھی چار ہی بالغ بچے ہیں‘ البتہ امریکی صدر کا ایک گیارہ سالہ بیٹا بھی ہے جو کہ تیسری اور حالیہ بیوی میلانیا میں سے ہے۔ صدر ٹرمپ کی بزنس ایمپائر کو ان کے تین بالغ بچوں نے سنبھالا ہوا ہے۔ تینوں دی ٹرمپ آرگنائزیشن کے ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ ہیں۔ میاں صاحب کے ہاں بھی حسن حسین اور مریم ہی بزنس میں ایکٹو نظر آتے ہیں۔ اسی طرح سے ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر وائٹ ہائوس میں بہت فعال نظر آتے ہیں۔ وہ صدر ٹرمپ کے ایڈوائزر ہیں۔ امریکی میڈیا انہیں بالکل پسند نہیں کرتا لیکن وائٹ ہائوس میں موصوف کا اثرورسوخ اچھا خاصا ہے۔ غیر ملکی سفیر‘ سیکرٹری آف سٹیٹ ریکس ٹلرسن کو ملنے کی بجائے کشنر کو ملتے ہیں۔ امریکی میڈیا دامادِ اول کو Trump,s Secretary for everything یعنی ''تمام محکموں کا وزیر‘‘ سے ملقب کر رہا ہے۔ جیرڈ کشنر کی پوزیشن واشنگٹن ڈی سی میں ویسی ہی ہے جیسی حمزہ شہباز کی لاہور میں ہے لیکن امریکہ میں تعلیم عام ہے سیاسی شعور پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ امریکی میڈیا اور امریکی قوم زیادہ دیر تک کشنر کو برداشت نہیں کریں گے۔
کاڈر ایک آن لائن رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ کمپنی ہے۔ جیرڈ کشنر کے اس کمپنی میں شیئر تھے۔ کشنر کا کہنا ہے کہ اُس نے یہ شیئر بیچ دیئے ہیں مگر ایک امریکن این جی او نے الزام لگایا ہے کہ شیئرز کی مالیت ایمانداری سے ڈیکلیئر نہیں کی گئی اور امریکہ میں یہ بہت بڑا الزام ہے۔ کوئی بھی سرکاری عہدہ قبول کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ سیاست اور بزنس گڈمڈ نہیں ہوں گے اور ادھر ہمارے ہاں سابق وزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر خاصے خوشحال لگتے ہیں۔ آپ ہری پور ہزارہ کے کسی شخص سے پوچھ لیں‘ موصوف کا فیملی بیک گرائونڈ خاصا ماٹھا ہے۔ پچھلے دنوں جب جے آئی ٹی کا سلسلہء تفتیش جاری تھی تو الیکشن کمشن سے ان اثاثوں کی تفصیل منگوائی گئی جو کیپٹن صفدر نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے سے پہلے ظاہر کئے تھے۔ یقین مانیں کہ ان کے اثاثوں میں اسلام آباد کا ایک پلاٹ ہے‘ جس کی مالیت ڈھائی لاکھ روپے بتائی گئی ہے۔ ان کا دوسرا پلاٹ مانسہرہ میں ہے جس کی ویلیو آٹھ لاکھ روپے سے کچھ کم ہے۔ ڈی جی خان کی زرعی زمین اس کے علاوہ ہے۔ یہ تمام معلومات انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ اب اسلام آباد کا ڈھائی لاکھ کا پلاٹ یا تو آدھے مرلے کا ہے یا اس کی قیمت غلط بتائی گئی ہے اور حیرت کی بات ہے کہ الیکشن کمشن نے اس ڈیکلیریشن کو من و عن تسلیم کر لیا اور تادم تحریر کیپٹن صفدر صادق اور امین ہیں۔ 
امریکی میڈیا نے صدر ٹرمپ کو فاشسٹ اور نازی کے خطابات دیئے ہیں۔ اس لیے کہ ان کا ووٹ بینک چند ریاستوں کے متعصب گوروں کے گرد گھومتا ہے۔ میاں صاحب کا نوے فیصد ووٹ فیصل آباد اور لاہور سے شروع ہو کر موٹروے کے ذریعے ہری پور ہزارہ تک جاتا ہے اور اسی پٹی تک محدود ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں پنجابی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اسی ایریا میں میاں صاحب کی اپنی برادری خاصی تعداد میں مقیم ہے۔ اپنے ایک حالیہ کالم میں میرے سابق کولیگ اور ریٹائرڈ ایمبسیڈر اشرف جہانگیر قاضی نے لکھا ہے کہ پاکستان کو پنجابستان نہیں بننا چاہیے۔ صاف ظاہر ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور میاں صاحب تنوع (Diversity) اور شمولیت یعنی Pluralism کے خلاف ہیں۔ گلو بٹ ہر صورت میں میاں صاحب کو ووٹ دے گا جبکہ متعصب گورے جنہیں امریکہ میں ریڈنیک Redneck اور Pony Tailers (پونی ٹیلرز) کے القابات سے نوازا جاتا ہے‘ ٹرمپ صاحب کے پکے ووٹر ہیں۔
میاں صاحب پر نریندر مودی سے دوستی کا الزام ہے جبکہ صدر ٹرمپ ولادی میر پوٹن کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ میاں صاحب کا مواخذہ بڑی حد تک ہو چکا جبکہ امریکہ میں صدر ٹرمپ کے مواخذے کی بات شدومد سے ہو رہی ہے۔ میاں صاحب کی پارٹی پارلیمنٹ میں اکثریت رکھتی ہے اور یہ ان کا آخری سہارا ہے جبکہ ری پبلکن پارٹی کانگرس میں اکثریت میں ہے اور یہ امر صدر ٹرمپ کے لیے باعث اطمینان ہے۔ میاں صاحب کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ بار بار کہہ رہے ہیں کہ ان کے دور میں امریکہ کی سٹاک مارکیٹ میں خوب تیزی آئی ہے۔ نواز شریف اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں دائیں بازو کے سیاستدان ہیں۔ دونوں شراب کو ہاتھ نہیں لگاتے البتہ امریکی عوام کے نزدیک یہ کوئی بڑا پلس پوائنٹ نہیں۔ پچھلے چند ماہ میں دونوں لیڈروں کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے آیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں