"JDC" (space) message & send to 7575

آبادی کا آتش فشاں

اس سال کی مردم شماری کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی دوسو سات اعشاریہ ستتر (207.77) ملین ہے یا یوں کہہ لیں کہ تقریباً پونے اکیس کروڑ ہے۔ اس میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی آبادی شامل نہیں۔ اگر ان دو اکائیوں کی آبادی بھی شامل کر لی جائے تو ہماری مجموعی تعداد اکیس کروڑ کو تجاوز کر جائے گی۔ یاد رہے کہ 1971ء میں مغربی پاکستان کی کل آبادی 55 ملین تھی گویا 1971ء سے موازنہ کرتے ہوئے ہماری آبادی تقریباً چار گنا بڑھی ہے۔ 1947ء کی آبادی کو دیکھا جائے تو اضافہ چھ گنا ہے ۔یہ پوری دنیا میں سالانہ شرح کے لحاظ سے بلند ترین اضافوں میں سے ہے اور جس طرح سے ہماری آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے ، تیس چالیس سال کے بعد یہاں تل رکھنے کی جگہ نہیں رہے گی۔ 
ایک زمانہ تھا کہ آبادی کے سائز کو اثاثہ سمجھا جاتا تھا اب وہ صورت حال نہیں رہی۔ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ ترکی اور ایران سبھی آبادی کے سائز میں پاکستان سے کم تر ہیں لیکن بین الاقوامی سیاست میں ان کا قد کاٹھ ہم سے زیادہ ہے۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی آج ہماری آبادی بنگلہ دیش سے بہت زیادہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کا فیملی پلاننگ پروگرام کامیاب رہا ہے۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش کے کئی اقتصادی اشاریے مثلاً مجموعی برآمدات ہم سے بہتر ہیں اور آج کی دنیا میں کسی بھی قوم کا قد کاٹھ اس کی اقتصادی حالت سے ناپا جاتا ہے آبادی کے حجم سے نہیں۔
جو سوچ قوموں کی رہی ہے وہی روایتی معاشرے میں فیملی اور قبیلے کی تھی۔ افراد اور قبائل میں جھگڑے زر‘ زن اور زمین کی وجہ سے ہوتے تھے۔ طاقتور قبیلہ وہ ہوتا تھا جس کے پاس لڑنے والے زیادہ ہوں۔ بااثر فیملی وہ ہوتی تھیں جس کے پاس مؤثر بات کرنے والوں کی اکثریت ہو۔ غریب والدین کا خیال ہوتا تھا کہ بچے ذرا بڑے ہونگے تو اضافی آمدن کا سبب بنیں گے۔ کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹائیں گے۔ اب دیہات میں بھی وہ صورتحال نہیں رہی۔ زرعی رقبے اور ملکیتی زمینیں چھوٹی ہو گئیں کھیتوں میں ٹریکٹر چلنے لگے لہٰذا بااثر باپ وہ ہے جس کا بیٹا پٹواری یا پولیس میں سب انسپکٹر ہو۔ اب دو تین پڑھے لکھے بیٹے سات ان پڑھ بیٹوں پر بھاری ہیں۔ لہٰذا وہ روایتی دعا جو بزرگ خواتین نوبیاہتا لڑکیوں کو دیتی تھیں کہ اللہ کرے تم سات بیٹوں کی ماں بنو‘ اب بڑی حد تک متروک ہو چکی ہے۔
تھامس مالتھس انگلستان کا معروف ماہر اقتصادیات ہے جو اٹھارہویں صدی میں پیدا ہوا اور اپنے نظریۂ آبادی کی وجہ سے مشہور ہوا ۔مالتھس کی پاپولیشن تھیوری سے معاشیات کا ہر طالب علم واقف ہے۔ مالتھس کا کہنا تھا کہ انسانی آبادی اور غذائی پیداوار، دونوں میں اضافہ ہوتا ہے مگر آبادی زیادہ تیزی سے بڑھتی ہے اور اس عمل سے غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ قدرت توازن کو برقرار رکھنے کے لیے آفات بھیجتی ہے، وبائی امراض سیلاب، زلزلے، طوفان اور جنگیں انسانی آبادی کے جن کو قابو کرنے کے ذرائع ہیں لیکن ساتھ ہی مالتھس نے کہا کہ انسان کو خود بھی آبادی کنٹرول کرنے کے طریقے سیکھنا بلکہ پریکٹس کرنا چاہئیں۔ میں نے کالج میں اقتصادیات کا مضمون پڑھایا ہے۔ اقتصادیات کی کتابوں میں مالتھس کے نظریۂ آبادی کے حق میں اور اس کے خلاف دونوں طرح کے دلائل شامل تھے اور اب بھی ہونگے۔ ان میں سے ایک دلیل یہ تھی کہ ہر بچہ ایک منہ اور دو ہاتھ لے کر پیدا ہوتا ہے یعنی وہ خوراک کا صارف تو ہے مگر خوراک پیدا بھی کر سکتا ہے معاشرے کا مفید فرد بھی بن سکتا ہے۔یہ دلیل خاصی بودی ہے کیونکہ نومولود کو غذا پہلے دن سے درکار ہوتی ہے جبکہ اُسے کمائو بننے میں بیس سے پچیس سال لگتے ہیں۔
مسلمان ممالک میں سے بنگلہ دیش اور ایران پاپولیشن کنٹرول کی روشن مثالیں ہیں اور ایران میں تو کامیاب فیملی پلاننگ اسلامی انقلاب کے بعد شروع ہوئی۔ آیت اللہ خمینی کا کہنا تھا کہ ایران کو جنگ کے خسائر پورے کرنے کے لیے مزید آبادی کی ضرورت ہے لہٰذا کسی قسم کی پاپولیشن پلاننگ ایرانی نفری کو کم کرے گی چنانچہ 1980ء کی دہائی میں ایران میں فیملی پلاننگ کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔ جب جنگ ختم ہو چکی تو صدر ہاشمی رفسنجانی کے عہد میں پاپولیشن کنٹرول کا پروگرام بہت کامیابی سے چلا۔ شادی سے پہلے منگیتروں کے لیے فیملی پلاننگ کی کلاسیں ہونے لگیں حکومت نے فیملی پلاننگ کے لیے ادویات اور دیگر اشیاء خود تقسیم کیں اور لوگوں نے حکومت کا پورا ساتھ دیا ۔یہ باب اس لئے بھی حیران کن ہے کہ 1980ء کی دہائی میں شاہ کے زمانے کے فیملی پلاننگ کلینک بند کر دیئے گئے تھے۔ لڑکوں کے لیے شادی کی عمر چودہ سال جبکہ لڑکیوں کے لیے نو سال مقرر کر دی گئی تھی اور کثرتِ ازواج یعنی مرد کے لیے ایک سے زائد شادی کرنا جائز قرار پایا تھا۔ صدر ہاشمی رفسنجانی کی پالیسی گویا مکمل یوٹرن تھا۔ آج ایران میں آبادی کی شرح افزائش یا گروتھ ریٹ ایک اعشاریہ سات یعنی 7 ء 1 ہے۔ 
بنگلہ دیش نے آبادی کے پرابلم کو دوسرے زاویے سے اپروچ کیا۔ آپ نے ڈاکٹر یونس کے گرامین بینک کا نام سنا ہو گا۔ اس بینک نے غریب لوگوں کو چھوٹے چھوٹے قرضے دینا شروع کئے اکثر و بیشتر یہ قرضے دیہی خواتین کو دیئے جاتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ خواتین قرض کی واپسی میں مردوں سے زیادہ فرض شناسی سے کام لیں گی اور یہ بات درست ثابت ہوئی۔ اس عمل سے دیہی خواتین کی معاشی پوزیشن بہتر ہوئی۔ اُن میں خوداعتمادی آئی۔ زیادہ بچے ہوں تو ماں کے لیے گھر سے باہر کوئی بھی کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔حکومت نے بھی یہی بات لوگوں کو سمجھائی۔ علماء نے حکومت کا ساتھ دیا۔ خواتین اپنے خاوندوں سے فیملی پلاننگ کے بارے میں پورے اعتماد سے بات کرنے لگیں۔ آج بنگلہ دیش کی آبادی تقریباً سولہ کروڑ ہے اور پاکستان سے پانچ کروڑ کم۔
حال ہی میں سینیٹ کو حکومت کی طرف سے بتایا گیا کہ پاکستان میں اس وقت ساڑھے پانچ کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہے ہیں ۔جس خاندان کے افراد کی روزانہ آمدن سوا ڈالر فی کس سے کم ہے وہ غربت کی لکیر سے نیچے ہے ۔چھ لوگوں کی فیملی کے لیے یہ تقریباً چوبیس ہزار روپے ماہوار آمدنی بنتی ہے۔ ہمارے ہاں بیروزگاری کی شرح چھ فیصد سے زائد ہے ۔44 فیصدبچے غذا کی کمی کی وجہ سے پستہ قد ہیں۔ چودہ فیصد پاکستانی شادی شدہ خواتین بیحد دبلی پتلی بلکہ لاغر ہیں ان کا بی ایم آئی اٹھارہ سے کم ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ پاکستان میں غریب لوگوں کی بدحالی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے ہے گو کہ یہ بات کسی حد تک درست ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان آج بھی غذا کے ضمن میں سو فیصد خودکفیل نہیں۔
عام تاثر یہی ہے کہ پاکستان کے پاس قدرت کی دی ہوئی تمام نعمتیں ہیں۔ زرخیز زمین ہے پانی وافر ہے۔ چاروں موسم ہیں دنیا کا سب سے وسیع نہری نظام ہے۔ اس وجہ سے پاکستان کئی غذائی آئٹم مثلاً چاول پیاز کینو آم اور کھجور برآمد کرتا ہے۔ ہماری غذائی برآمدات کی کل ویلیو 2015ء میں دو اعشاریہ اڑتیس (2.38) ارب ڈالر تھی۔ مگر اُس سال ہماری غذائی درآمدات کی ویلیو پونے چار ارب ڈالر تھی یعنی غذائی اشیاء کی تجارت میں بھی ہمیں خسارے کا سامنا ہے۔
ہم اپنی ضروریات کا پچھتر (75) فیصد خوردنی تیل درآمد کرتے ہیں۔ یہ تیل ملائیشیا اور انڈونیشیا سے درآمد ہوتا ہے۔ ہم ہر سال ایک لاکھ پچاس ہزار ملین ٹن چائے درآمد کرتے ہیں۔ اگر اس چائے کو ایک جگہ ڈھیر لگایا جائے تو کے ٹو کی چوٹی سے بلند تر پہاڑ ہو گا۔ چین اور انڈیا کے بعد خوردنی تیل درآمد کرنے والا پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ اس سال ہم اپنی ٹوٹل پروڈکشن میں سے دو فیصد گندم برآمد کر سکیں گے۔ لیکن آبادی کی شرح جیسے بڑھ رہی ہے وہ دن دور نہیں جب ہم گندم امپورٹ کرنے پر مجبور ہونگے۔ تو کیا مالتھس کی پاپولیشن تھیوری پاکستان پر منطبق ہوتی ہے ؟میرے خیال میں تو سو فیصد ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں 1960ء کی دہائی میں سبز انقلاب کی وجہ سے گندم کی پیداوار میں بہت اضافہ ہوا تھا اور یہ میکسیکو میں دریافت کئے گئے بیج کی وجہ سے تھا۔ اب یہ عمل سست پڑ چکا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پاپولیشن ایمرجنسی کا اعلان کرے ورنہ یہ آتش فشاں ہمیں راکھ کر سکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں