"JDC" (space) message & send to 7575

امارت کے بدلتے رنگ

1937ء میں نظام آف حیدرآباد دکن کی تصویر ٹائم میگزین کے کور پر شائع ہوئی تھی۔ وہ اُس وقت دنیا کے امیر ترین شخص تھے۔ اُن کے حیدر آباد دکن اور دہلی میں محلات تھے۔ دس کروڑ پائونڈ کا سونا چاندی ان کی ملکیت تھا مگر ہیرے جواہرات کی مالیت قیمتی دھاتوں سے چار گنا تھی یعنی چالیس کروڑ پائونڈ۔ ان کے دفتر میں ایک پیپر ویٹ پانچ کروڑ پائونڈ کا تھا۔ یہ دراصل بڑے سائز کا ہیرا تھا۔ نظام الملک عثمان علی خان کے محل میں اڑتیس لوگ روزانہ فانونس صاف کرنے پر مامور تھے۔ ان کی کپڑوں کی الماری آدھا میل لمبی تھی‘ جہاں ان کے اپنے اور بیگمات کے ریشم و اطلس کے کپڑے رکھے ہوئے تھے۔ حیدرآباد کی ریاست کا رقبہ انگلینڈ سے زیادہ تھا۔ 1948ء میں انڈیا کی فوجیں ریاست حیدر آباد دکن پر چڑھ دوڑیں۔ بہت سارے ہیرے جواہرات لوگوں نے لوٹ لیے۔ ریاستیں ختم ہو گئیں۔ نظام کی باقی ماندہ جائیداد آج کل ان کے سینکڑوں ورثا میں تنازعات کا باعث ہے کہ موصوف تعددالازواج میں پکا یقین رکھتے تھے‘ جس کا قدرتی نتیجہ کثرتِ اولاد کی صورت میں نکلا۔ حیرت کی بات ہے کہ موصوف کی کنجوسی کے قصے بھی مشہور تھے۔ ایک دفعہ کمبل پرانا ہو گیا تو خادم کو حکم دیا کہ بازار سے اچھا سا کمبل خرید لائو مگر قیمت پچیس روپے سے زیادہ نہ ہو۔ خادم بازار سے واپس آیا اور نظام الملک کو بتایا کہ اچھے والا کمبل پینتیس روپے کا مل رہا ہے۔ نظام بولے‘ چلیں پرانے والے کمبل سے ہی گزارہ کر لیں گے۔ نظام دکن کے کسی وارث کا آج دنیا کے امیر لوگوں کی لسٹ میں نام نہیں۔ دولت آنی جانی چیز ہے‘ یہ کہاوت پرانی ہے اور بہت حد تک سچی ہے۔ 
تھرڈ ورلڈ میں اقتدار اور دولت میں بڑی قربت نظر آتی ہے۔ تیونس کے سابق صدر زین العابدین بن علی کرپشن کے لیے مشہور تھے۔ یوگوسلاویہ کے صدر سلابدن ملاسوویچ (Slobodan Milosevic) نے ناجائز دولت کے انبار لگائے مگر ان کی کہانی کا انجام ذلت اور رسوائی کی حالت میں ہوا۔ نائیجیریا کے لیڈر ثانی اباچہ (Sani Abacha) فلپائن کے سابق صدر مارکوس اور انڈونیشیا کے لیڈر سوہارتو بھی ناجائز مال و دولت کے حصول کی وجہ سے بے حد بدنام ہوئے۔ فلپائن کے صدر مارکوس نے اکیس سال حکومت کی اور ان کے ٹوٹل اثاثے پانچ ارب ڈالر سے زائد تھے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کرپشن کے الزامات کا سب سے زیادہ سامنا اٹلی کے سابق وزیر اعظم برلسکونی کو رہا۔ 2009ء میں موصوف کو کرپشن کے ایک سو نو مقدموں کا سامنا تھا۔ مگر دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اٹلی کے عوام نے 2009ء میں برلسکونی کو پھر سے ووٹ دے کر منتخب کیا۔ لہٰذا ہم صرف پاکستانی عوام کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے کہ وہ کرپٹ لیڈروں کو ووٹ دیتے ہیں۔
مگر مغرب کے اکثر جمہوری اور ترقی یافتہ ممالک میں احتساب کے ادارے اتنے فعال اور طاقتور ہیں کہ لیڈروں کو کرپشن کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ برطانیہ میں کوئی جان میجر یا ٹونی بلیئر امیر ترین اشخاص کی لسٹ میں نہیں پہنچ پایا۔ مگر آپ گوگل کر کے دیکھیں‘ ہمارے ہاں صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف پاکستان کے دس امیر ترین لوگوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ ویسے پاکستان کا امیر ترین شخص شاہد خان ہے جو امریکہ میں بزنس مین ہے۔ شاہد خان کے اثاثے ہمارے سیاسی لیڈروں سے کہیں زیادہ ہیں لیکن اس پر کبھی کسی نے انگلی نہیں اٹھائی کیونکہ یہ ساری اس کی محنت اور ذہانت کی کمائی ہے۔ امریکی کلچر ایسے لوگوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ دنیاکے امیر ترین لوگوں میں کئی ایسے اشخاص شامل ہیں جن کے پاس بے تحاشا کالا دھن ہے۔ سنا ہے کہ ایسے لوگ روس میں بہت ہیں۔ ویسے انڈیا اور پاکستان کے امیر لوگوں کا بہت سا کالا دھن باہر کے بینکوں میں پڑا ہوا ہے۔
فاربیس (Forbes) وہ مشہور اقتصاد اور فنانس کا میگزین ہے جو گزشتہ ایک سو سال سے شائع ہو رہا ہے۔ فاربیس ہر سال دنیا کے امیر ترین سو لوگوں کی لسٹ چھاپتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس فہرست میں امسال ٹاپ پر کون سے لوگ ہیں۔ بل گیٹس (Bill Gates) گزشتہ چار سال سے اس لسٹ میں سرفہرست ہے۔ بل گیٹس کے کل اثاثے چھیاسی ارب ڈالر ہیں‘ یعنی وہ پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضے سے زائد دولت کا مالک ہے۔ بل گیٹس کی دولت کا آغاز مائیکروسوفٹ کمپنی کی ملکیت سے ہوا تھا۔ بل نے کئی سال پہلے اس کمپنی کا آغاز کیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ دنیا کی سب سے بڑی سوفٹ ویئر کمپنی بن گئی۔ مجھے 2014ء میں بل گیٹس کی تقریر سننے کا موقع ملا‘ جب وہ اور ان کی بیوی ملنڈا (Melinda) سٹین فورڈ یونیورسٹی کی گریجوایشن تقریب میں مہمانان خصوصی تھے۔ یہ دنیا کا امیر ترین جوڑا ہے لیکن غرور ان کے پاس سے نہیں گزرا۔ یہ دونوں خیراتی کاموں میں آگے آگے نظر آتے ہیں۔ براعظم افریقہ میں ایڈز کے خاتمے میں بل گیٹس فائونڈیشن کا اہم رول رہا ہے۔ دوسرے نمبر پر امریکہ کے ہی وارن بفے (Warren Buffett) ہیں اور وہ بھی خیراتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ بل گیٹس فائونڈیشن کو خطیر عطیات دیتے رہے ہیں۔ دنیا کی عام روایت کے مطابق تو دونوں میں مسابقت اور حسد ہونا چاہیے تھا‘ لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ وارن بفے عام سے گھر میں رہتے ہیں اور اپنی کار خود ڈرائیور کرتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر سپین کے امانسیو اورٹیگا (Amancio Ortega) ہیں جو گارمنٹس کی مشہور کمپنی زارا 
(Zara) کے مالک ہیں۔ فیس بک کے موسس مارک ذکر برگ (Mark Zuckerberg) بھی پہلے پانچ امیر ترین لوگوں میں شامل ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مشہور کمپنی امازون کے موسس جیزبیزو (Jeff Bezos) کے کل اثاثے بھی اسی ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں۔ چند سال پہلے میکسیکو کے کارلوس سلیم ہیلو (Carlos Slim Helú) کا نام پہلے پانچ میں آتا تھا۔ اب وہ چھٹے نمبر پر ہیں۔ ایک سال انڈیا کے مکیش امبانی بھی مختصر سے عرصے کے لیے ٹاپ فائیو میں آئے تھے۔ پچھلے اسی سال میں دولت مند ہونے کے انداز بہت بدلے ہیں۔ پہلے دولت بڑی حد تک موروثی ہوتی تھی‘ آج کے پانچ چھ امیر ترین لوگ اپنی محنت سے ٹاپ پر پہنچے ہیں۔ ان میں سے دو اصحاب ایسے ہیں‘ جن کی عمر اسی سال کو تجاوز کر گئی ہے‘ مگر وہ آج بھی کام کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کی زندگی کو غور سے دیکھیں تو یہ بڑے منظم اور قرینے کے لوگ ہیں۔ روزانہ مطالعہ اور ورزش اکثر کی روٹین میں شامل ہے۔ ہر فنکشن اور میٹنگ کے لیے یہ پوری تیاری کرکے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر خود ساختہ یعنی سیلف میڈ لوگوں کو نودولتیے کا خطاب ملتا ہے مگر مغرب میں ایسے لوگوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ صرف ایک شرط ہے کہ دھن سفید ہونا چاہیے یعنی پیسہ سمگلنگ‘ منی لانڈرنگ یا منشیات فروشی سے نہ آیا ہو اور تمام اثاثوں پر ٹیکس ایمانداری سے دیا گیا ہو۔ اگر ہمارے ہاں بھی یہ ریت پڑ جائے تو پاکستان بہت جلد ترقی کر سکتا ہے۔

مغرب کے اکثر جمہوری اور ترقی یافتہ ممالک میں احتساب کے ادارے اتنے فعال اور طاقتور ہیں کہ لیڈروں کو کرپشن کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ برطانیہ میں کوئی جان میجر یا ٹونی بلیئر امیر ترین اشخاص کی لسٹ میں نہیں پہنچ پایا۔ مگر آپ گوگل کر کے دیکھیں‘ ہمارے ہاں صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف پاکستان کے دس امیر ترین لوگوں کی فہرست میں شامل ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں