"JDC" (space) message & send to 7575

پاک ایران تعلقات میں بہتری

پاک ایران تعلقات ایک زمانے میں مثالی تھے۔ ایران 1947ء میں پاکستان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا۔ شہنشاہ رضا پہلوی پاکستان کا سرکاری دورہ کرنے والے پہلے سربراہِ مملکت تھے۔ دونوں ملک سینٹو کے ممبر تھے۔ برصغیر کے مسلمان بچے اکثر ابتدائی نصاب میں گلستان اور بوستانِ سعدی ضرور پڑھتے تھے۔ گویا کہ ایران کے ساتھ کلچرل لنک بہت مضبوط تھا۔ پھر آر سی ڈی بنی۔ روابط اور مضبوط ہو گئے۔ مجھے یاد ہے کہ 1960ء اور 70ء کی دہائیوں میں پاکستان میں بے شمار نوزائیدہ بچیوں کے نام ملکہ فرح دیبا سے متاثر ہو کر رکھے گئے۔ 1979ء میں ایران کی انقلابی حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک پاکستان تھا مگر باہمی تعلقات میں تنائو آنے لگا۔ وجوہات ہم سب جانتے ہیں۔ پچھلے چند ماہ میں دو طرفہ تعلقات میں نئی گرم جوشی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ آئیے اس نئی جہت کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر مجھے صراحت کی اجازت ہو تو میں یقین سے کہوں گا کہ 2017ء میں پاکستان اور ایران کو قریب تر لانے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بڑا رول ہے۔ موصوف دونوں ممالک کو دبائو میں رکھنا چاہتے ہیں گو کہ وجوہات مختلف ہیں۔ امریکہ کا خیال ہے کہ پاکستان افغان طالبان پر مسلسل دبائو ڈال کر افغانستان میں سپر پاور کی شرمندگی کو ضرور کم کر سکتا ہے۔ سفارت کاری میں عام طور پر اپنا کام نکلوانے کے لیے نرم و شیریں زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مختلف قسم کی ترغیبات دی جاتی ہیں۔ اگر شیریں بیانی سے کام نہ نکلے تب تند و سخت لہچے کی باری آتی ہے‘ اور سفارت کاروں کا سخت لہجہ بھی ادب آداب سے عاری نہیں ہوتا‘ لیکن صدر ٹرمپ کی 21 اگست کی افغانستان کے بارے میں تقریر اور پاکستان کو وارننگ سفارتی آداب سے ہٹ کر تھی۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی صدر نے جس طرح ایران اور ایٹمی معاہدے کا ذکر کیا‘ اس میں ناشائستگی اور معاہدے سے ممکنہ بے وفائی نمایاں عنصر تھے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے میں یو این اور سکیورٹی کے دائمی ممبران بھی شامل تھے۔ یورپی یونین بھی اس معاہدے کی حامی ہے مگر صدر ٹرمپ اپنی طرز کے آدمی ہیں۔
پاکستان میں کافی عرصے سے یہ سوچ ترویج پا رہی تھی کہ بڑھتے ہوئے امریکی دبائو کا مقابلہ کرنے کے لیے خطے کے ممالک سے روابط بڑھانا ضروری ہے۔ بیجنگ اور ماسکو کے علاوہ تہران ہمارے لیے خطے میں بڑی اہمیت کا حامل ہے اور صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد تہران پر بھی امریکی دبائو بڑھ گیا ہے۔ شام‘ یمن‘ لبنان اور بحرین میں ایرانی رول کی تنقید زور پکڑ رہی ہے حالانکہ ایٹمی معاہدہ اور مڈل ایسٹ میں ایرانی پالیسی دو مختلف موضوعات ہیں۔ ایک بڑا کام جو صدر اوباما نے معاہدے کی شکل میں تکمیل کو پہنچایا تھا ان کے جانشین اس کام کو صفر کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
ہمسایہ ہونے کے ناتے پاکستان اور ایران میں باہمی تعاون کے بہت مواقع ہیں‘ مثلاً انرجی کو لے لیں۔ پاکستان میں کئی سالوں سے لوڈ شیڈنگ روزمرہ کا معمول ہے۔ ایران تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔ جب ایران پاکستان گیس پائپ لائن مکمل ہو کر گیس فراہم کرنا شروع کر دے گی تو پاکستان ارزاں قیمت کی بجلی بنانے کے قابل ہو جائے گا۔ ہمارے کارخانے چلیں گے۔ برآمدات بڑھیں گی۔ لوگوں کو جابز ملیں گی۔ گیس پائپ لائن سے نہ صرف دونوں ممالک کو فائدہ ہو گا بلکہ سی پیک کے راستے یہ گیس چین کے صوبے سنکیانگ تک جا سکتی ہے۔ سی پیک کے تحت پاکستان میں مجوزہ صنعتوں میں کام آ سکتی ہے۔ اگلے روز ایران کے سفیر مہدی ہنر دوست کہہ رہے تھے کہ دو طرفہ تجارت میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے۔
بلوچستان دونوں ممالک میں ایک اور کامن فیکٹر ہے۔ تہران اور اسلام آباد‘ دونوں میں یہ سوچ مشترک ہے کہ بلوچستان میں امن اور استحکام بے حد ضروری ہے۔ ایران اور پاکستان کے دشمن چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں شورش جاری رہے۔ بلوچستان میں دونوں جانب امن کے لیے پاک ایران تعاون ضروری ہے‘ اور یہ تعاون دو طرح کا ہو سکتا ہے۔ ایک تو موثر بارڈر کنٹرول اور دوسرے منشیات سمگلنگ کی ممکنہ روک تھام۔ یہ بارڈر ایک عرصے سے انسانی سمگلنگ اور تخریبی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ دونوں حکومتیں مل کر ایسے عناصر کی سرکوبی کر سکتی ہیں جو دونوں جانب بدامنی چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں حساس معلومات کا ریگولر تبادلہ ضروری ہے۔ بارڈر گارڈز کے کمانڈروں کا ریگولر تبادلہ ضروری ہے۔ بارڈر گارڈز کے کمانڈروں میں ہمہ وقت رابطہ بھی درکار ہے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ 1990ء کی دہائی میں افغانستان کے بارے میں متضاد پالیسیوں کی وجہ سے دونوں ممالک میں تنائو تھا۔ جب پاکستان نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تو دو طرفہ تعلقات پر اور بھی برا اثر پڑا۔ اب حالات بڑی حد تک بدل چکے ہیں۔ ایران اب سمجھتا ہے کہ افغانستان میں تب تک امن نہیں آئے گا‘ جب تک افغان طالبان ممکنہ سیاسی حل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ افغانستان کا پینتالیس فیصد علاقہ طالبان کے زیرِ اثر ہے۔ انہیں کسی بھی سیاسی حل کا حصہ نہ بنانا زمینی حقائق سے روگردانی ہو گی۔ طالبان کے بغیر کوئی بھی حل دیریا نہیں ہو گا۔ افغانستان کے مسئلہ کے دیرپا حل کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ خطے کے ممالک کی مکمل سپورٹ حاصل ہو۔ پاکستان اور ایران دونوں اس سلسلے میں بے حد اہم ہیں۔ ایک عرصے سے ایران اور انڈیا کے دو طرفہ تعلقات میں بڑی گرمجوشی دیکھنے میں آ رہی تھی۔ چند سال پہلے انڈیا نے آئی اے ای اے یعنی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی میں ایران کے خلاف ووٹ دیا تو ایرانی بھائی حیران رہ گئے تھے۔ یہ سب امریکی دبائو کا نتیجہ تھا‘ اور پھر انڈیا نے پاک ایران انڈیا گیس پائپ لائن منصوبے سے علیحدگی بھی امریکی دبائو کی وجہ سے اختیار کی تھی۔ انڈیا کو اس نوازش کے بدلے میں امریکہ کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل ملی۔ امریکہ نے انڈیا کی انرجی ضروریات پوری کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن ان دونوں تلخ تجربوں سے ایران پر یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ بھارت ایک قابل اعتبار دوست نہیں۔ رہی سہی کسر وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد پوری ہو گئی۔ میرے ایک دوست پچھلے ماہ تہران سے ہو کر آئے ہیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ ایران میں اب یہ سوچ عام ہے کہ انڈیا کی بی جے پی حکومت مسلم دشمن ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو اسرائیل کے دورہ میں جو پذیرائی ملی اور انہیں جو پروٹوکول دیا گیا اس کے بعد ایرانیوں کی آنکھیں اور کھلی ہیں۔
اسلام آباد اور تہران کے درمیان ہوائی سروس جلد شروع ہو رہی ہے۔ دونوں ملکوں کے پارلیمانی وفد چاہ بہار اور گوادر کا مشترکہ دورہ کرنے والے ہیں۔ برف پگھل رہی ہے۔ باہمی اعتماد بحال ہو رہا ہے‘ لیکن تعلقات میں 1960ء کی دہائی والی گرم جوشی واپس آنے میں دیر لگے گی۔ پاکستان کے لیے امریکہ اور سعودی عرب سے تعلقات اہم ہیں اور رہیں گے۔ بہرحال ہمیں ایرانی بھائیوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ان کی طرف سے کشمیر پر اچھا بیان آیا ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ 1965ء میں ایران نے پاکستان کی مدد کی تھی۔ دونوں ہمسایہ ممالک تاریخی اور قدرتی ساتھی ہیں۔ ان کے باہمی تعاون سے دونوں طرف عوام کا فائدہ ہو گا۔ خطے کے بدلتے ہوئے حالات باہمی تعاون کا تقاضا کرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں