"JDC" (space) message & send to 7575

مسیحا اور جلّاد

جب اقوام گمبھیر مسائل کا شکار ہوں تو وہ مثالی بلکہ خیالی حل کی تلاش میں گم ہو جاتی ہیں۔ کبھی وہ سوچتی ہیں کہ سفید براق گھوڑے پر سوار کوئی مردِ مومن کہیں سے نمودار ہو گا۔ یہ مردِ مومن ہر قسم کے ذاتی لالچ یا منفعت کے شوق سے آزاد ہو گا۔ اس کے سر میں صرف اور صرف ملک و قوم کے فائدے کا سودا سمایا ہوا ہو گا۔ اسے بیرون ملک کیا پاکستان میں بھی پراپرٹی بنانے کا شوق نہیں ہو گا۔ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ براق گھوڑے پر بیٹھے مسیحا کے ہاتھ میں تلوار یا کلاشنکوف بھی ہو گی۔ وہ آتے ہی بے رحم احتساب کرے گا۔ ایک ہزار کرپٹ لوگوں کو چند روز میں ملیامیٹ کر دے گا۔ قوم اس تطہیر کے عمل کے بعد نئے سفر کا آغاز کرے گی۔ اب کسی کو کرپشن کرنے کی ہمت نہیں ہو گی۔ استدلال یہ ہے کہ جب زہر جسم میں پھیل جائے تو اس کا حل خون کے اخراج سے ہی ممکن ہوتا ہے۔
جب افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی تو میرے ایک پڑھے لکھے دوست کہا کرتے کہ ہمارا مسیحا مغرب سے نمودار ہو گا۔ میں اُن سے وضاحت مانگتا تو وہ کہتے کہ تقریباً ملا عمر کے اطوار و شخصیت والا انسان ہو گا‘ یعنی ذاتی منفعت یا لالچ سے بالکل بے نیاز۔ ویسے یہ بات صحیح ہے کہ ملا عمر بے حد دیانتدار شخص تھے یا نہیں‘ اس کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بقول احمد رشید‘ کرپشن طالبان کی لیڈرشپ میں بھی سرایت کر رہی تھی۔ 
ملا عمر کی مسلمہ دیانت کے بارے میں مجھے سابق سفیر افتخار مرشد نے خود بتایا کہ وہ اسی وجہ سے افغان سوسائٹی میں محترم تھے۔ افتخار مرشد طالبان کے دور میں ہمارے فارن آفس میں افغانستان ڈیسک کے ڈی جی تھے۔ وہ سرکاری کاموں کے لیے وہاں جاتے رہتے تھے۔ ملا عمر سے ان کی کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ مرشد صاحب مزے کے آدمی ہیں۔ ایک دفعہ وہ ملا عمر سے ملاقات کے بعد قندھار کے بازار میں گھوم پھر رہے تھے۔ ایک ریڑھی والے سے فروٹ خریدنے کے لیے رکے۔ وہاں ایک اچھی وضح قطع والا افغان بھی فروٹ خرید رہا تھا۔ مرشد صاحب نے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ جواب ملا کہ میں انجینئر ہوں۔ اگلا سوال تھا کہ آپ کی ماہانہ تنخواہ کتنی ہے؟ جواب: ایک سو ڈالر۔ مرشد صاحب نے استفسار کیا کہ تمہاری تنخواہ اتنی کم ہے تم حکومت کے خلاف بغاوت کیوں نہیں کرتے؟ انجینئر کا جواب تھا: ہمیں بغاوت کی ضرورت نہیں‘ میرا لیڈر ملا عمر مجھ سے غریب تر ہے۔ مرشد صاحب کہتے ہیں کہ مجھے فوراً یاد آ گیا کہ دوران ملاقات ملا عمر نے جو کوٹ زیب تن کیا ہوا تھا وہ کئی جگہ سے پھٹا ہوا تھا۔
پاکستان میں مسیحا اور جلاد تلاش کرنے والوں کا سب سے بڑا استدلال یہی ہے کہ اسلام آباد کے اور صوبائی لیڈروں کا لائف سٹائل عام آدمی سے بہت مختلف ہے لہٰذا اس ملک کو ملا عمر جیسے لیڈر کی ضرورت ہے جو ہر قسم کے لالچ اور ڈر و خوف سے آزاد ہو۔ لیکن میرا جواب ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں بڑا فرق ہے۔ ملا عمر افغانستان کو قرونِ وسطیٰ میں واپس لے گئے تھے۔ پاکستانی اس قسم کے معکوس سفر کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے لوگ عصر حاضر میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ پچھلے تیس سال میں پاکستانی خواتین بڑی تعداد میں زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہوئی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ خواتین کے پاس دو طرح کی جابز ہی ہوتی تھیں‘ یعنی ڈاکٹر یا ٹیچر۔ آج پاکستانی عورت پارلیمنٹ کھیل کے میدان‘ بینک‘ ٹیلی کمیونی کیشن‘ سفارت کاری ہر میدان میں نظر آتی ہے۔ میڈیا میں خواتین فعال ہیں۔ ہوائی جہاز اڑا رہی ہیں۔ کوہ پیمائی کر رہی ہیں۔ انہیں اب کوئی گھر کی چار دیواری کے اندر قید نہیں کر سکتا۔ اسی طرح سے بے شمار پاکستانی مرد باہر کی یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے ہیں۔ سفر کے جتنے مواقع آج پاکستانیوں کو میسر ہیں پہلے
کبھی نہ تھے۔ دنیا جہاں سے تازہ ترین خبریں گھر گھر ہر لمحہ پہنچ رہی ہیں۔ سمارٹ فون ہمیں پل پل کی خبریں دیتا ہے۔ اب سوچ پر اور آزادیء اظہار پر پہرے بٹھانا ممکن ہی نہیں رہا۔ دنیا گلوبل ویلیج بن گئی ہے۔ ایک زمانے میں موسم گرما میں نیکر صرف مغربی ممالک کے مرد پہن کر پبلک مقامات پر آتے تھے۔ آج آپ کراچی‘ اسلام آباد یا لاہور میں شام کو واک کے لیے کسی پبلک پارک میں جائیں تو آپ کو کئی مرد شارٹس میں سیر کرتے نظر آئیں گے۔ پاکستان کے پڑھے لکھے خواتین و حضرات آج بالکل اس موڈ میں نہیں کہ کوئی ان کو لباس کے بارے میں لیکچر دے یا ان کی ذاتی زندگی میں دخل دے۔ لیکن ایک ماڈرن شخص بھی تو کسی قوم کا مسیحا ہو سکتا ہے اور اس کی بڑی مثالیں قائد اعظم اور مصطفی کمال اتاترک ہیں۔ مختصر ادوار کے لئے ہم صدر ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کو بھی مسیحا سمجھ بیٹھے تھے اور چیف جسٹس افتخار چوہدری بھی کچھ عرصہ ہمارے ہیرو رہے مگر پھر ہمیں پتہ چلا کہ ہمارے یہ سارے مختصر دورانیے کے ہیرو بھی ہماری طرح بندہ بشر تھے۔ لہٰذا میرا تو یقین ہے کہ ہمیں اپنی حالت خود بدلنا ہو گی۔ کوئی مسیحا ہماری حالت بدلنے نہیں آئے گا۔ آپ آج کی ترقی یافتہ اقوام کو دیکھ لیں۔ وہاں ترقی اور خوشحالی تعلیم سے آئی ہے۔ سائینٹفک سوچ سے آئی ہے۔ اُن قوموں نے اپنے ادارے مضبوط کئے ہیں۔ وہ سوچ سمجھ کر ووٹ دیتے ہیں۔ لیڈروں کے احتساب کا عمل بروقت جاری رہتا ہے۔
میرے ایک دوست کا خیال ہے کہ پاکستان میں اگر ایک ہزار کرپٹ لوگوں کی گردنیں اڑا دی جائیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ مجھے ان کی رائے سے اختلاف ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہزار کرپٹ لوگوں کی لسٹ کون بنائے گا۔ ایوب خان نے بے شمار سیاست دانوں کو ایبڈو کر دیا تھا۔ کیا سیاسی قیادت میں کوئی بہتری آئی؟ میرا جواب نفی میں ہے۔ یحییٰ خان نے 303 اور ذوالفقار علی بھٹو نے 1300 بیوروکریٹ گھر بھیج دیئے۔ کیا سول سروس میں کوئی بہتری آئی؟ جب احتساب کی بنیاد انتقام ہو تو وہ احتساب نہیں رہتا۔ وہ کچھ اور بن جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے ہماری مسلح افواج میں بلا وجہ اپنے لوگوں کے خلاف ایکشن لینے کی روایت نہیں ہے۔ یہ روایت مڈل ایسٹ کے چند ممالک میں دیکھی گئی ہے۔ پاکستان ایک بڑا اور متنوع ملک ہے۔ لوگوں کے پاس قانونی اور غیر قانونی دونوں طرح کا اسلحہ ہے‘ لہٰذا بے رحم احتساب کا عمل سول وار کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔
روس میں بیسویں صدی کے آغاز میں لینن کی قیادت میں بہت بڑا انقلاب آیا۔ سوویت یونین سُرخ انقلاب کی علمبردار بہت بڑی ریاست تھی۔ سیکنڈ ورلڈ وار کے بعد اُسے سپر پاور کا درجہ حاصل ہوا۔ وہاں کمیونسٹ پارٹی سیاہ و سفید کی مالک تھی اور کمیونسٹ پارٹی کے ممبر بھی انسان تھے۔ کرپشن شروع ہو گئی۔ بدنظمی دیکھنے میں آئی اور 1990ء کے قریب ایک سپر پاور دھڑام سے نیچے آ گری۔ اس لیے کہ کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو کے لوگ اپنے آپ کو احتساب سے بالاتر سمجھتے تھے۔ تو جناب ہمیں مسیحا کی تلاش ترک کر دینی چاہیے۔ اس ملک کے مسیحا آپ ہیں اور میں بھی ہوں۔ اگر ہم ووٹ کو امانت سمجھیں‘ ٹیکس پورا ادا کریں‘ ٹریفک کی سُرخ بتی پر رُک جائیں‘ عدالت میں گواہی سچی دیں‘ اپنے بچوں کو قانون کی پابندی سکھائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان ترقی نہ کرے۔ آپ تعلیمی نظام کو یکساں بنائیں‘ میرٹ پر ملازمتیں دیں‘ چوروں کو ووٹ نہ دیں اور ہاں جلاد کی تلاش بھی سعیء لا حاصل ہو گی۔ جلاد کا احتساب کون کرے گا؟ وہ غلط گردنیں بھی اڑا سکتا ہے لہٰذا ہمیں موجودہ احتساب کے عمل کو ہی موثر بنانا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں