"JDC" (space) message & send to 7575

میاں صاحب… ایک جائزہ

میں نے میاں نواز شریف کو پہلی مرتبہ ریاض میں 1989ء میں دیکھا تھا۔ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے سعودی عرب کا دورہ کر رہے تھے۔ یہ آلِ سعود سے قربت کا آغاز تھا۔ ایمبیسیڈر ولی اللہ خان خویشگی اور میں ان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ گئے۔ سعودی پروٹوکول اور پاکستانی کمیونٹی کے چند لوگ ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ میاں صاحب جہاز سے اتر کر وی آئی پی لائونج میں آئے۔ سرخ و سفید چہرہ اور چہرے پر مسکراہٹ۔ قدرے شرمیلے مگر بذلہ سنج اور خوش اخلاق۔ ان کی شخصیت کا پہلا تاثر بہت مثبت تھا۔ ایک پاکستانی صاحب بولے: میاں صاحب آپ لاہور اور پنجاب کی ترقی کے لیے شاندار کام کر رہے ہیں۔ میاں صاحب نے جواب دیا کہ اگر سنٹر میں حکمران پیپلز پارٹی والے میری راہ میں روڑے نہ اٹکائیں تو میں اور بہت کچھ کر سکتا ہوں۔ 
ریاض میں میرے ایک پاکستانی دوست بہت اہم عہدے پر سعودی پلاننگ منسٹری میں کام کرتے تھے۔ تعلق لاہور سے تھا اور بہت پڑھے لکھے تھے۔ میاں صاحب کے آنے سے قبل ان سے بات ہوئی۔ وہ میاں صاحب سے شناسائی رکھتے تھے۔ ان سے میاں صاحب کی آمد کا ذکر ہوا تو کہنے لگے: موصوف سنجیدہ گفتگو سے جلد اکتا جاتے ہیں۔ میں نے کہا: ذرا وضاحت ہو جائے۔ فرمانے لگے: میرے ایک دوست میاں صاحب سے عالمی حالات پر گفتگو کر رہے تھے۔ گھڑی انہوں نے اعلیٰ قسم کی پہن رکھی تھی اور میاں صاحب کی نظریں بار بار گھڑی کی طرف مرکوز ہو رہی تھیں۔ بالآخر میاں صاحب نے پوچھ ہی لیا کہ گھڑی کہاں سے خریدی گئی ہے۔ میاں صاحب چمکیلی چیزوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ 
سفیر صاحب نے ایئرپورٹ پر ہی میری طرف اشارہ کرتے ہوئے میاں صاحب کو کہا کہ ہمارے یہ افسر کل رائل گیسٹ پیلس آپ کے پاس آئیں گے۔ اگر ریاض میں قیام کے دوران آپ کو سفارت خانہ سے کسی قسم کی مدد درکار ہو تو ضرور بتائیں۔ اگلے روز میں گیسٹ پیلس میں تھا۔ میاں صاحب کرائون پرنس عبداللہ بن عبدالعزیز سے ملاقات کے لیے جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ رائل گیسٹ پیلس میں عین درمیان میں بہت بڑا فانوس لگا ہوا تھا۔ میاں صاحب کمرے سے نکل کر لابی کی طرف جانے لگے تو فانوس کے پاس رک گئے اور اپنے سٹاف سے اور مجھے پوچھنے لگے کہ یہ شینڈلیئر کس ملک سے منگوایا گیا ہو گا۔ اکثر کا جواب اٹلی تھا۔ مجھے گھڑی والی بات یاد آ گئی۔ میاں صاحب چمکیلی چیزوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ 
میاں محمد شریف مرحوم اس خاندان کے بانی تھے۔ وہ سیلف میڈ انسان تھے۔ اپنے ہاتھوں سے لوہا کوٹا۔ پھر اتفاق فائونڈری بنائی اور بڑی بزنس امپائر کھڑی کر دی۔ پورے خاندان میں ان کا رعب بھی تھا اور احترام بھی۔ کوئی ان کے حکم کو رد نہیں کر سکتا تھا۔ میاں صاحب دینی شعائر کے پابند تھے اور اس زمانے کی طاقتور بیوروکریسی سے بنا کر رکھتے تھے۔ میاں نواز شریف بعد میں یہ سبق بھول گئے اور نقصان اٹھایا جبکہ شہباز شریف آج بھی اس سے بنا کر رکھتے ہیں۔ نواز شریف کے تحت الشعور میں یہ سوچ ہے کہ وہ اب پورے خاندان اور پورے ملک کے بڑے ہیں لہٰذا پارٹی ممبران اور ہر کوئی ان کے تابع ہے۔ اگر کوئی پارٹی ممبر ان سے ذرا سا بھی اختلاف کرے تو وہ بُرا مان جاتے ہیں۔ 1998ء میں جب امیرالمومنین بننے کا سودا سر میں سمایا تھا تو خورشید محمود قصوری کا اختلاف انہیں بہت برا لگا۔ پچھلے سال چوہدری اسدالرحمن ایم این اے اسی رویے کی وجہ سے نالاں تھے۔ نواز شریف راگ جمہوریت کا الاپتے ہیں لیکن ان کا آمرانہ رویہ اس وقت بھی سامنے آیا جب جنرل جہانگیر کرامت نے نیشنل سکیورٹی کونسل کی معصومانہ تجویز کی سزا پائی۔ اور پھر 1997ء میں جسٹس سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ پر حملے کا قصہ سب جانتے ہیں۔ میاں صاحب طبعاً ضدی ہیں۔ وہ بڑے لیڈر ضرور ہیں لیکن مطلق العنانی کا شوق انہیں جمہوریت سے دور لے جاتا ہے۔ 
نواز شریف گورنمنٹ کالج لاہور میں مجھ سے دو سال جونیئر تھے۔ وہ کالج میں آنے سے پہلے سینٹ انتھونی سکول لاہور میں پڑھتے رہے۔ کالج میں وہ بہت غیر معروف تھے۔ تعلیم کی طرف رجحان کم تھا۔ ان کے کلاس فیلو بتاتے ہیں کہ موصوف کا زیادہ وقت کالج کینٹین میں دوستوں کے ساتھ گزرتا تھا۔ کرکٹ کا شوق تھا لیکن کالج ٹیم میں جگہ نہ بنا سکے۔ اتنے اچھے تعلیمی اداروں اور پھر لاء کالج لاہور کے بعد ان کی شخصیت میں انگریزی زبان کے حوالے سے جو خود اعتمادی نظر آنی چاہیے تھی‘ اس کا کسی حد تک آج بھی فقدان ہے۔ اپنے تیسرے عہد حکومت میں وائٹ ہائوس میں صدر اوباما سے ملے تو جیب سے پرچیاں نکال کر پڑھنے لگ گئے۔
میاں صاحب کو بڑی بڑی اور چمکیلی چیزوں کا شوق ہے‘ خواہ وہ اچھی دستی گھڑی ہو یا نئے ماڈل کی شاندار کار یا موٹر وے یا مغلیہ طرز تعمیر کا شاہکار پرائم منسٹر ہائوس۔ 1997ء میں دوسری مرتبہ ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ وزیر اعظم بنے تو پتہ چلا کہ پیپلز پارٹی والوں نے لاہور اسلام آباد موٹر وے کا ڈیزائن بدل کر چار رویہ کر دیا ہے۔ فوراً متعلقہ افسروں کو بلایا اور کہا کہ مجھے ایک ہی شوق ہے اور وہ ہے اچھی کاریں چلانے کا۔ ایسی تنگ موٹر وے پر کار چلانے کا مزہ نہیں آئے گا‘ لہٰذا موٹروے کا اصلی ڈیزائن بحال کر کے اسے وسیع تر کر دیا گیا۔
1998ء کی بات ہے صدر فاروق لغاری کی پاورز محدود کر کے میاں صاحب نے آئین کو مزید جمہوری بنا دیا۔ صدر لغاری بددل ہوئے اور استعفیٰ دے دیا۔ اب نئے صدر کی تلاش شروع ہوئی۔ پارٹی میں عام خیال تھا کہ سرتاج عزیز صاحب اس عہدے کے لیے موزوں ترین شخصیت ہوں گے چنانچہ سرتاج عزیز صاحب سے وعدہ کر لیا گیا۔ کابینہ کا اجلاس ہو رہا تھا۔ کابینہ کے ممبران سرتاج عزیز صاحب کو مبارک باد دینے لگے۔ گفتگو جاری تھی کہ لاہور سے ابا جی کا فون آ گیا۔ حکم تھا کہ رفیق تارڑ کو صدر بنایا جائے۔ میاں صاحب کو اتنی ہمت نہ ہوئی کہ ابا جی کو کہتے کہ میں سرتاج عزیز صاحب سے وعدہ کر چکا ہوں۔ ہمارے روایتی خاندانوں میں بڑوں کے حکم پر سوالیہ نشان لگانے کا تصور ہی نہیں تھا۔ جب جمہوریت گھروں میں اتنی کمزور تھی تو ملک کیسے توانا ہوتا‘ بہرحال میرے خیال میں سرتاج عزیز صاحب رفیق تارڑ کے مقابلے میں بہت اچھے صدر ہوتے۔ لیکن ابا جی مرحوم کا فیصلہ حتمی تھا۔ مرحوم بہت قدآور شخصیت تھے۔ انہیں ناں کرنے کا نواز شریف سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ لیکن اپنی اس تربیت کی وجہ سے نواز شریف اپنے فیصلوں پر تنقید برداشت نہیں کرتے تھے۔ میاں صاحب سے میری دوسری ملاقات 1998ء میں رنگون میں ہوئی۔ میں وہاں سفیر تھا اور وزیر اعظم ہانگ کانگ سے پاکستان واپس آ رہے تھے۔ رنگون میں جہاز نے تیل لینا تھا۔ میاں صاحب اور بیگم کلثوم نواز کی خواہش تھی کہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے مرقد پر جانا ہے۔ کار میں میاں صاحب تھے‘ برما کے وزیر خارجہ اور میں۔ راستے میں کئی باتیں ہوئیں۔ میں نے انہیں خلیق انسان پایا۔
میاں صاحب کی بچپن کی تربیت میں افسروں کو خوش کرنا شامل تھا۔ کھانے پر مہمان کی انواع و اقسام کے کھانوں سے تواضع کرنا شریف خاندان کی روایت رہی ہے۔ مہمانوں کو ان کی اہمیت کے مطابق تحفے دینا بھی اس روایت کا حصہ ہے۔ چنانچہ 1992ء میں جب میاں صاحب کا پہلا عہدِ حکومت چل رہا تھا تو آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کو پرائم منسٹر نے مری طلب کیا۔ آرمی چیف کے علم میں یہ بات تھی کہ وزیر اعظم نے چند اہم جرنیلوں کو قیمتی تحفے دیئے ہیں اور وہ اس بات سے نالاں تھے۔ میٹنگ کے بعد جنرل صاحب رخصت ہونے لگے تو ان کا ڈرائیور سرکاری گاڑی ٹیوٹا کرائون لے کر پورچ میں آ گیا۔ وزیر اعظم نے آرمی چیف کو کہا یہ کار آپ کے شایان شان نہیں۔ اور انہیں برانڈ نیو بی ایم ڈبلیو کی چابیاں تحفتاً پیش کیں۔ جنرل صاحب نے چابیاں میاں صاحب کو واپس کر دیں۔ ان کے نزدیک یہ رشوت دینے کا بھونڈا طریقہ تھا۔ آرمی چیف نے وزیر اعظم کو سلیوٹ کیا اور اپنی ٹیوٹا میں واپس چلے گئے۔ (جاری)

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں