"JDC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم سعد الحریری کا استعفیٰ

لبنان شام اور اسرائیل کے درمیان ایک چھوٹا مگر بے حد خوبصورت ملک ہے۔ اس کے دارالحکومت بیروت کو ایک زمانے میں مشرق کا پیرس کہا جاتا تھا۔ جب میں نے 1972ء میں فارن سروس جوائن کی تو افسر بڑی بڑی سفارشیں لا کر بیروت کی پوسٹنگ کراتے تھے۔ 1975ء میں سول وار شروع ہوئی تو سب سے زیادہ زخم اسی عروس البلاد کو برداشت کرنا پڑے۔ پھر اس شہر کا بھی وہی حشر ہوا جو ہمارے کراچی کا ہوا ہے۔ یہ عظیم شہر نان سٹیٹ ایکٹرز کی آماجگاہ بنا اور آج بھی ہے۔ ہم نے کراچی کو نان سٹیٹ ایکٹرز سے آزاد کرا لیا مگر لبنان کی حکومت ایسا نہیں کر سکی اور وجہ یہ ہے کہ لبنان کی حکومت اور فوج دونوں کمزور ہیں۔
جب کوئی اہم ملک کمزور ہو تو دوسرے ممالک کے منہ میں پانی آنے لگتا ہے۔ ہم یہ صورتحال کویت عراق اور لیبیا میں دیکھ چکے ہیں۔ اس دنیا میں ضعیفی بہت بڑا جرم ہے۔ لبنان میں شامی افواج 1976ء میں داخل ہوئیں اور تیس سال بعد یعنی 2005ء میں بڑی مشکل سے نکلیں۔ سول وار کے دوران اسرائیل نے دریائے لیتانی تک جنوبی پٹی پر قبضہ کر لیا۔ کچھ عشرے پہلے پی ایل او لبنان میں سب سے بڑی نان سٹیٹ ایکٹر تھی آج حزب اللہ بہت بڑی طاقت ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے لبنان میں مسلسل سیاسی عدم استحکام دیکھنے میں آ رہا ہے۔ آپ یقین مانیں کہ 2014ء اور 2016 ء کے درمیان ملک کا کوئی منتخب صدر نہیں تھا۔ آئین کے مطابق لبنان کا صدر مارونی کرسچین ہوتا ہے۔ آخری مردم شماری 1932ء میں ہوئی تھی اُس وقت کرسچین اکثریت میں تھے۔ لہٰذا فیصلہ ہوا کہ صدر مارونی عیسائی ہو گا۔ وزیراعظم کا عہدہ سنی مسلمانوں کو دیا گیا جبکہ پارلیمنٹ کا سپیکرشیعہ مسلمان ہوتا ہے۔ اس فیصلے نے مغربی ممالک پر اس حقیقت کو عیاں کر دیا کہ اگر مسلمانوں کو دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا جائے تو بڑے سیاسی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔صدر کے عہدے کو حاصل کرنے کے لیے کرسچین امیدوار کو پارلیمان کے ممبران سے دو تہائی ووٹ لینا لازمی ہیں۔ صدارت کے امیدوار جنرل میشل عون ڈھائی سال تک دو تہائی اکثریت کے حصول میں سرگرداں رہے۔ پارلیمنٹ کے چالیس سے زیادہ اجلاس ہوئے مگر مطلوبہ ہدف حاصل نہ ہو سکا۔ بالآخر میشل عون کو مستقبل پارٹی کے لیڈر سعدالدین رفیق الحریری سے مدد طلب کرنا پڑی کہ موصوف سنی مسلمانوں میں بڑا اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے لبنان میں شیعہ سنی کشمکش سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی وار کا نقشہ پیش کر رہی ہے ۔جس وقت سعد الحریری نے استعفیٰ دیا تو وہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں سعودی موجود تھے۔ حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ کا کہنا تھا ، ہم کبھی نہیں چاہتے تھے کہ سعد الحریری کی حکومت ختم ہو مگر سعودی لیڈرشپ نے انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔ جس دن استعفیٰ کا اعلان ہوا اُسی روز یمن کی جانب سے ریاض پر میزائل داغا گیا۔ سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ میزائل ایک پڑوسی ملک نے حوثی باغیوں کو دیئے ہیں۔ بحرین نے اپنے شہریوں کو لبنان جانے سے منع کر دیا ہے۔ ایرانی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ کوئی ایرانی شہری عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب نہیں جائے گا۔ مشرق وسطی میں یہ تنازع اپنے عروج پر ہے۔ سعد الحریری نے اپنی تقریر میں کہا کہ جو بیرونی ہاتھ عرب ممالک میں مداخلت کے لیے آئے گا وہ کاٹ دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ سعد الحریری اور صدر میشل عون دونوں ایک ساتھ پچھلے سال اقتدار میں آئے تھے اور حزب اللہ حریری حکومت کا حصہ تھی ۔تیس ممبر کابینہ میں دو وزیر حزب اللہ کے تھے۔ سعد الحریری کا استعفیٰ لبنان اور شام میں حزب اللہ کے بڑھتے ہوئے رول کو محدود کرنے کی کوشش ہے ۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس صورتحال پر بہت خوش نظر آ رہے ہیں۔
صدر میشل عون نے وزیراعظم کا استعفیٰ ابھی قبول نہیں کیا ۔ان کا کہنا ہے کہ وہ سعد الحریری کے وطن واپس آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ صدر عون کو بھی حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔ سعد الحریری کے والد رفیق الحریری بھی لبنان کے وزیراعظم رہے ۔انہیں 2005ء کے اوائل میں ایک خودکش حملے میں قتل کر دیا گیاتھا۔ جب یہ واقعہ ہوا تو میں ایڈیشنل سیکرٹری برائے مڈل ایسٹ تھا ،وزارت خارجہ میں ۔مجھے فون آیا کہ صدر جنرل مشرف تعزیت کے لیے لبنانی سفارت خانہ جا رہے ہیں ۔میں فوراً وہاں پہنچا۔ صدر نے تعزیتی کتاب سائن کی اور کچھ دیر لبنانی سفیر کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے کے بعد رخصت ہوئے ۔آپ کو یاد ہو گا کہ نوازشریف کو سعودی عرب پہنچانے میں رفیق الحریری کا رول تھا۔ 
وزیراعظم رفیق الحریری نے اپنی عمر کا ایک حصہ سعودی عرب میں گزارا‘ وہ وہاں بڑے کنٹریکٹر تھے۔ سعودی شاہی خاندان کے ساتھ ان کے قریبی روابط تھے۔ سعد الحریری کی پیدائش بھی سعودی عرب میں ہوئی۔ وہ لبنان کے امیر ترین اشخاص میں شمار ہوتے ہیں ۔سعد الحریری اور حزب اللہ کے مابین باہمی اعتماد کا فقدان ہے۔ انہیں شک ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ ان کے والد کے قتل میں شامی ایجنسیاں اور حزب اللہ دونوں ملوث تھے۔ سعد الحریری اس سے پہلے بھی لبنان کے وزیراعظم رہے ہیں۔ 2011ء میں ان کی حکومت تب ٹوٹی تھی جب وہ امریکہ کے دورے پر تھے اُس وقت حزب اللہ کے وزراء نے استعفیٰ دے دیا تھا۔
حزب اللہ 1980ء کی دہائی کے وسط میں معرض وجود میں آئی۔ 1982ء میں اسرائیلی دبائو کی وجہ سے پی ایل او کو لبنان سے نکالا گیا تو ایک خلاپیدا ہو گیا۔ حزب اللہ جنوبی لبنان سے اسرائیل کے انخلاء کی داعی تھی اور پھر 2000ء میں اسرائیل کو جنوبی لبنان سے فوجیں نکالنا پڑیں۔ حزب اللہ کی واہ واہ ہو گئی۔ جو کام کوئی عرب حکومت نہیں کر سکی تھی وہ ایک نان اسٹیٹ ایکٹر نے کر دکھایا۔ 2006ء میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر میزائل برسائے تو حزب اللہ نے پھر منہ توڑ جواب دیا۔ آج کل حزب اللہ شام میں صدر بشارالاسد کی دست راست بنی ہوئی ہے۔ ایک عرصے تک لبنان میں مغربی اثرورسوخ بہت تھا ‘امریکہ اور فرانس کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات تھے۔ لبنانی اشرافیہ اکثر فرانسیسی زبان استعمال کرتی تھی۔ 
لبنان کی موجودہ صورتحال میں پاکستان کے لیے چند سبق ہیں۔ لبنان کی طرح پاکستان کا محل وقوع اہم ہے۔ وہاں اسرائیل اور شام کی مداخلت تھی تو ہمارے ہاں انڈیا دخل اندازی کرتا ہے۔ ہمارے لئے پہلا سبق تو یہ ہے کہ نان سٹیٹ ایکٹرز کو کسی صورت بھی برداشت نہ کریں ۔دوسرا سبق یہ ہے کہ جس بھی سیاسی جماعت کا عسکری ونگ ہوا‘اُسے الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ہو اور تیسرا یہ کہ شیعہ سنی مفاہمت اور رواداری کو پختہ کیا جائے۔

لبنان کی موجودہ صورتحال میں پاکستان کے لیے چند سبق ہیں۔ لبنان کی طرح پاکستان کا محل وقوع اہم ہے۔ وہاں اسرائیل اور شام کی مداخلت تھی تو ہمارے ہاں انڈیا دخل اندازی کرتا ہے۔ ہمارے لئے پہلا سبق تو یہ ہے کہ نان سٹیٹ ایکٹرز کو کسی صورت بھی برداشت نہ کریں ۔دوسرا سبق یہ ہے کہ جس بھی سیاسی جماعت کا عسکری ونگ ہوا‘اُسے الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ہو اور تیسرا یہ کہ شیعہ سنی مفاہمت اور رواداری کو پختہ کیا جائے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں