"JDC" (space) message & send to 7575

کرسچین بھائیوں کا تحفظ اور ہماری ترقی

ہماری کرسچین آبادی محنتی ہے‘ امن پسند ہے۔ آج تک کسی پاکستانی کرسچین نوجوان کو خودکش جیکٹ کے ساتھ نہیں دیکھا گیا۔ کوئی کرسچین لیڈر کسی میگا کرپشن میں ملوث نہیں پایا گیا۔ ہماری آبادی کے اس سیکشن نے پاکستان کو جسٹس کارنیلیس جیسا قابل اور ایماندار جج دیا‘ جس نے اپنی پوری زندگی لاہور کے ایک ہوٹل کے کمرے میں گزار دی۔ انہوں نے ہمیں گروپ کیپٹن سیسل چوہدری جیسا بہادر پائلٹ دیا جو انڈیا کے خلاف بے جگری سے لڑا۔ ہماری اسی کمیونٹی نے بشپ الیگزینڈر جان ملک جیسا پادری پیدا کیا جس کا اسلام کے بارے میں علم کئی مسلمانوں سے بہتر ہے۔ بشپ ملک نے کینیڈا کی ایک مشہور یونیورسٹی سے خاتم النبیینؐ کی زندگی پر پی ایچ ڈی کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔
جب پاکستان کی تحریک زوروں پر تھی تو چند مسلم دینی اور سیاسی قوتوں نے مسلمانوں کے لئے علیحدہ ملک کی مخالفت کی۔ مولانا ابوالکلام آزاد پاکستان مخالف مسلم لیڈروں کے سرخیل تھے۔ اسی طرح مجلسِ احرار نے تشکیلِ پاکستان کی مخالفت کی‘ لیکن کرسچین کمیونٹی‘ جو مستقبل کے پاکستان کی سرزمین پر رہ رہی تھی‘ نے دل و جان سے علیحدہ ملک کی حمایت کی‘ بلکہ جسٹس کارنیلیس تو یوپی سے ہجرت کر کے دیدہ دانستہ پاکستان آئے تھے۔ یقینی طور پر وہ اس اُمید پر پاکستان آئے ہوں گے کہ ہمارے ہاں اقلیتوں سے انصاف ہو گا اور ان کے حقوق پاکستان میں محفوظ ہوں گے۔
مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اپنے کرسچین بھائیوں کے لئے وہ کچھ نہیں کرسکے جس کے وہ حقدار تھے اور ہیں۔ اس کمیونٹی نے صحت اور تعلیم کے شعبوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعدآغاز میں اس برادری کے لوگ ریلوے ٹریفک پولیس‘ نرسنگ اور مشنری سکولز کے روح رواں تھے۔ اس کمیونٹی کی پڑھی لکھی بچیاں اکثر پرائیویٹ فرموں میں سیکرٹری کا کام کرتی تھیں۔ بہت سی سفارت خانوں میں جاب کرتی تھیں۔ انہیں انگریزی زبان پر خوب عبور حاصل تھا۔ ٹیلی فون پر بڑے سلیقے سے بات کرتی تھیں۔
1960ء کی دہائی میں جب پاکستان سے مغربی ممالک کو امیگریشن کا آغاز ہوا تو کرسچین کمیونٹی کے پڑھے لکھے لوگ بھی برطانیہ‘ امریکہ اور کینیڈا جانے لگے۔ اس عمل سے پاکستان کو نقصان ہوا کیونکہ ان میں بیشتر لوگ انگریز سے تربیت یافتہ تھے اور اپنے کام میں بہت مستعد اور منظم تھے۔ پاکستان کے پہلے ڈی جی پاسپورٹ مسٹر برگنزا Berganzaتھے اور وہ بھی ریٹائرڈ ہو کر کینیڈا چلے گئے تھے۔ 1979ء کی بات ہے میں اُن دنوں اوٹاوہ میں سیکنڈ سیکرٹری تھا۔ ایک روز مسٹر برگنزا میرے دفتر نیا پاکستانی پاسپورٹ بنوانے آئے۔ یہ میری اُن سے پہلی ملاقات تھی لیکن میں انہیں غائبانہ طور پر بخوبی جانتا تھا کہ قائداعظم کو پاکستانی پاسپورٹ ایشو کرنے کا شرف رکھتے تھے۔ میں نے انہیں چائے پیش کی۔ گفتگو جاری تھی کہ اتنے میں ان کا پاسپورٹ بن کر آ گیا۔ بے حد خوش ہوئے کہ پاکستانی سفارت خانہ میں پاسپورٹ کا کام مستعدی اور تیزرفتاری سے ہو رہا تھا۔
پچھلے چند سالوں میں پاکستان میں مسیحی کمیونٹی پر دہشت گردوں نے کئی حملے کئے ہیں۔ ان میں سے آخری واردات کوئٹہ میں چرچ پر حملہ تھا۔ میں نظریہ سازش سے شعوری طور پر دور رہتا ہوں۔ لیکن مجھے اس بات پر سو فیصد یقین ہے کہ پاکستان میں کرسچین کمیونٹی پر حملے کئے نہیں جاتے بلکہ کروائے جاتے ہیں۔ مقصد پاکستان کا امیج خراب کرنا ہوتا ہے خاص طور پر مغربی دنیا میں ہمارا دشمن بخوبی واقف ہے کہ پاکستان کے برطانیہ‘ کینیڈا‘ امریکہ اور یورپی یونین سے تجارتی اور اقتصادی تعلقات ہیں۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ مغربی میڈیا دنیا بھر میں پاور فل ہے اور جتنا کچھ مغربی میڈیا میں پاکستان کے خلاف بولا جائے گا‘ اتنا ہی نہیں بلکہ اُس سے کئی گنا زیادہ پاکستان کا امیج خراب ہو گا۔ لہٰذا چرچ پر اٹیک پاکستان کو پوری دنیا میں بدنام کرنے کا آسان ترین طریقہ ہے۔ اسی لیے ہمیں صرف کرسمس کے موقع پر نہیں پورا سال چوکس رہنے کی ضرورت ہے ہمارا ذرا سا تساہل دشمن کو کاری ضرب لگانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
آئیے اب اُس خط کا متن دیکھتے ہیں جو اللہ کے محبوب ترین رسولؐ نے جبلِ سینا کے کرسچین راہبوں کو 628 عیسوی میں لکھا تھا ''یہ محمد ابن عبداللہ کا پیغام ہے تمام دور اور نزدیک کے لوگوں کے لئے جو عیسائیت پر ایمان لائے۔ میں اور میرے پیروکار ان کا دفاع کریں گے کیونکہ وہ ہمارے شہری ہیں۔ خدا کی قسم جو چیز انہیں ناخوش کرتی ہے وہ مجھے بھی پسند نہیں۔ اُن پر کوئی زور زبردستی نہیں کی جائے گی۔ ان کے جج اور راہب اپنے عہدوں سے ہٹائے نہیں جائیں گے۔ کوئی ان کی عبادت گاہوں کو نہ تو تباہ کرے گا اور نہ ہی وہاں سے کوئی چیز اپنے گھر لے کر جائے گا اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ اللہ کا نافرمان ہو گا اور میری حکم عدولی کرے گا۔ وہ (عیسائی) میرے حلیف ہیں لیکن کوئی ان کو جنگ میں لڑنے پر مجبور نہیں کرے گا۔ مسلمان اُن کے لئے لڑیں گے‘ اگر کوئی کرسچین عورت مسلمان مرد سے شادی کرے گی تو اس میں اُس عورت کی رضامندی ضروری ہے‘ اُس عورت کو چرچ جانے سے منع نہیں کیا جائے گا۔ بطور عبادت گاہ چرچ کا احترام کیا جائے گا اور ان کی مرمت کے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی‘ ہر مسلمان پر تاقیامت اس عہد کا احترام ضروری ہے‘‘ ہمارے ہاں لاء اینڈ آرڈر صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ رسول خداؐ کا مائونٹ سینائی کے عیسائیوں سے یہ عہد چاروں وزرائے اعلیٰ کے دفاتر میں آویزاں ہونا چاہیے کہ کرسچین کمیونٹی کی حفاظت اسلام کے زریں اصولوں کے عین مطابق ہے اور پاکستان کا دستور بھی اقلیتوں کے حقوق کا ضامن ہے۔
لوک سانجھ فائونڈیشن ایک این جی او ہے جو محروم طبقات کی ویلفیئر کے لئے کام کرتی ہے۔ یہ فائونڈیشن مذہب اور عقائد سے بالاتر ہو کر انسانیت کے لئے کام کر رہی ہے۔ دیہات میں یہ لوگ زراعت اور پانی کے صحیح استعمال کے بارے میں کام کرتے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ محروم طبقات کی ترقی سے انتہا پسندی کم ہوتی ہے اور امن کو فروغ ملتا ہے۔
دسمبر کے تیسرے ہفتے میں لوک سانجھ فائونڈیشن نے اسلام آباد ہوٹل میں کرسمس لنچ کا بندوبست کیا۔ مسلمان اور کرسچین ایک چھت کے نیچے بیٹھ کر غریبوں کی محرومیوں کا ذکر کر رہے تھے۔ فائونڈیشن کے صدر ڈاکٹر شاہد ضیاء نے مجھے شرکت کی دعوت دی اور میں تمام مصروفیات کو چھوڑ چھاڑ کر وہاں گیا۔ لنچ سے پہلے فکری نشست شاندار تھی۔ ڈاکٹر شاہد ضیاء کے ساتھ محفل کے صدر عظیم صاحب تھے جو پادری بھی ہیں اور کے پی کے دیہی علاقے میں ویلفیئر کا کام بھی کرتے ہیں۔ ہر مقرر سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک نکتہ ایسا تجویز کرے جس پر عمل کر کے محروم طبقات کو سُکھ دیا جا سکے۔ میری باری آئی تو میں نے تجویز کیا کہ اسلام آباد کی کرسچین آبادیوں کی زمین کسی پرائیویٹ بلڈر کو دے کر وہاں فلیٹ بنوائے جائیں جو کہ وہاں مقیم کرسچین بھائیوں کو دے دئیے جائیں۔ گرائونڈ فلور پر دکانوں کی ملکیت بلڈر کے پاس رہے اور اس طرح سے یہ سارا کام مفت میں ہو جائے گا‘ پورا علاقہ صاف ہو جائے گا اور کرسچین بھائی بھی خوش ہوں گے۔

پچھلے چند سالوں میں پاکستان میں مسیحی کمیونٹی پر دہشت گردوں نے کئی حملے کئے ہیں۔ ان میں سے آخری واردات کوئٹہ میں چرچ پر حملہ تھا۔ میں نظریہ سازش سے شعوری طور پر دور رہتا ہوں۔ لیکن مجھے اس بات پر سو فیصد یقین ہے کہ پاکستان میں کرسچین کمیونٹی پر حملے کئے نہیں جاتے بلکہ کروائے جاتے ہیں۔ مقصد پاکستان کا امیج خراب کرنا ہوتا ہے خاص طور پر مغربی دنیا میں ہمارا دشمن بخوبی واقف ہے کہ پاکستان کے برطانیہ‘ کینیڈا‘ امریکہ اور یورپی یونین سے تجارتی اور اقتصادی تعلقات ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں