"JDC" (space) message & send to 7575

’’تمام تر مشکلات کے باوجود‘‘

''تمام تر مشکلات کے باوجود‘‘ (Against All Odds)‘ پروفیسر خالد آفتاب سابق وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی کی تصنیف ہے جو اس عظیم ادارے کی ماڈرن تاریخ بھی ہے۔ خالد آفتاب ایک پڑھے لکھے خانوادے کے چشم و چراغ ہیں اور مجھ سے کالج میں دو سال سینئر تھے۔ ان کی جی سی سے وابستگی بطور سٹوڈنٹ‘ بطور پروفیسر اور بطور پرنسپل کئی عشروں پر محیط ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے آخری پرنسپل اور جی سی یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر ہونے کا منفرد اعزاز بھی انہیں حاصل ہوا۔ خالد آفتاب نے ایک زبوں حال ادارے کی نہ صرف احیائے ثانی کی بلکہ اُسے اپنی ڈگریاں جاری کرنے کے قابل بنایا‘ پرانی مگر جاندار راوین روایات کو پھر سے زندہ کیا‘ تعلیم کا ماڈرن جاب مارکیٹ سے رشتہ جوڑا‘ کئی نئے شعبے اور مضامین رائج کئے۔ کالج سے مفرور ڈسپلن کو خالد آفتاب واپس لے کر آئے۔ سیاسی جماعتوں کی مداخلت بند ہوئی۔ زوال پذیر ادارے میں نئی روح پھونکی‘ آئینِ نو سے متعارف کرایا۔ یہ ادارہ ملک کو پھر باعلم‘ باکردار اور کشادہ ذہن کے لوگ فراہم کرنے لگا۔ راوینز اور اولڈ راوینز پھر سے سر اٹھا کر چلنے لگے۔ علامہ اقبال‘ پروفیسر سوندھی‘ پطرس بخاری‘ فیض احمد فیض‘ ڈاکٹر عبدالسلام‘ ڈاکٹر سید نذیر احمد اور ڈاکٹر محمد اجمل کا کالج پھر سے عظیم ادارہ بنا۔
میں نے 1960ء کی دہائی میں چھ سال گورنمنٹ کالج میں گزارے۔ کالج میں داخلہ میرٹ پر ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ 1961ء کے میٹرک کے امتحان میں پہلی دس پوزیشن لینے والوں میں سے بیشتر جی سی میں داخل ہوئے تھے۔ اچھے سے اچھے پروفیسر جی سی میں پڑھاتے تھے مگر اس سے زیادہ کالج کو ممتاز کرنے والی غیر نصابی سرگرمیاں تھیں۔ کرکٹ‘ ہاکی اور فٹ بال کی پریکٹس باقاعدگی سے ہوتی تھی۔ ٹینس کورٹ روزانہ آباد ہوتے تھے۔ کالج کے لڑکے اور لڑکیاں بین الکلیاتی مباحثوں میں دوردراز سے ٹرافیاں لاتے تھے۔ پروفیسر قیوم نظر اور مرزا منور صاحب مجلسِ اقبالؔ کے روحِ رواں تھے۔ فلم سوسائٹی والے ہر ہفتے ایک اچھی انگریزی فلم سکرین کرتے تھے۔ شوٹنگ کلب والے طالب علموں کو نشانہ بازی کی تربیت دیتے تھے۔ کالج کے اندر مباحثے باقاعدگی سے ہوتے تھے۔ ایک مباحثے کا موضوع تھا: Old is Gold یعنی بزرگ نسل‘ ان کا زمانہ اور ان کی روایات‘ سب نئی نسل سے بہتر تھے۔ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر مظہر علی خان قرارداد کے حق میں بولے جبکہ ان کے صاحبزادے طارق علی نے قرارداد کی مخالفت کی۔ جس لڑکے یا لڑکی کا آرٹیکل کالج کے میگزین 'راوی‘ میں چھپ جاتا تھا‘ وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا تھا۔ اُس زمانے میں سی ایس پی بننے کا سودا ہر ہونہار طالب علم کے سر پر سوار تھا اور یہ بات مشہور تھی کہ گورنمنٹ کالج یونین کا صدر ضرور سی ایس پی بن جاتا ہے۔ کالج کا ماحول لبرل تھا۔ لڑکے اوول میں کرکٹ کا دوستانہ میچ کھیلتے تو بعض لڑکیاں بھی شامل ہو جاتیں اور کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ کالج کے ہر دلعزیز پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد بھی میچ میں شرکت کرتے دیکھے گئے۔ وہ طالب علموں کے دلوں پر حکومت کرتے تھے۔ ان کی بے پناہ نرمی کے باوجود ڈسپلن کا کبھی کوئی مسئلہ نہ ہوا تھا۔ کالج میں اکلوتی سٹرائیک اُن کا تبادلہ رکوانے کے لیے ہوئی تھی اور نواب کالا باغ جیسے طاقتور گورنر کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔ اس عظیم ادارے میں گزارے ہوئے سال میری زندگی کا بہترین وقت تھا۔
میں یہ بات فخر سے نہیں کہہ سکتا کہ میاں نوازشریف بھی میرے کالج کے پڑھے ہوئے ہیں۔ لیکن حقیقت کچھ ایسے ہی ہے۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائیاں کالج کے زوال کا وقت تھا۔ اشرافیہ کے بگڑے ہوئے بچے کالج میں من مانی کرتے تھے اور انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا تھا۔ پھر چشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ پروفیسر اشفاق علی خان جو 1967ء سے 1970ء تک کالج کے پرنسپل رہے‘ طلباء کی بدتمیزی کا سرعام اپنے آفس کے باہر شکار ہوئے۔ معاشرے میں اخلاقیات کا زوال کالج میں بھی سرایت کر چکا تھا۔ پھر ایک روز کالج میں فائرنگ ہوئی جو ایک طالب علم کے قتل پر منتج ہوئی۔ سب جانتے تھے کہ قتل کرنے والا غنڈہ بھی کالج ہی کا سٹوڈنٹ ہے مگر اُسے ایک مضبوط سیاسی جماعت کی سپورٹ حاصل تھی۔ ہر کوئی سہما ہوا تھا۔ پولیس کالج میں آئی۔ تھانیدار نے پرنسپل سے قاتل کا نام پوچھا۔ جواب ملا: مجھے کچھ علم نہیں۔ ظاہر ہے کہ پرنسپل صاحب بھی خوفزدہ تھے۔ 
پروفیسر خالد آفتاب کی کتاب چشم کشا حقائق سے لبریز ہے۔ وہ حق بات ہر قسم کے خوف سے بے نیاز ہو کر کرتے ہیں۔ لگتا ہے اللہ نے انہیں کالج کا نجات دہندہ بنا کر بھیجا تھا۔ وہ گمبھیر واقعات کی تشریح و تفصیل میں ذمہ داروں کے ناموں کا ذکر علی الاعلان کرتے ہیں۔ خود انہیں کئی دھمکیاں ملیں مگر اُن کا کالج سے لگائو جنوں کی حدوں کو چھو رہا تھا۔ وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے ہدف کی تکمیل میں لگے رہے۔
1993ء کا آغاز تھا۔ مسلم لیگ کی حکومت تھی۔ گورنمنٹ کالج میں ایک سٹوڈنٹ گروپ کو حکمران جماعت کی سپورٹ حاصل تھی۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس منور مرزا اپنے دو بیٹوں کو نیو ہوسٹل میں جگہ دلوانے کے متمنی تھے۔ وہ ہوسٹل آفس گئے تو بتایا گیا کہ ہوسٹل میں کمرہ پنکی نامی ایک آئوٹ سائڈر دلواتا ہے۔ جج صاحب نے یہ قصہ کالج کے پرنسپل کو سنایا تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔ کالج کے سائنس‘ ریاضی اور انگریزی کے پروفیسر ٹیوشن کلچر کو پروموٹ کر رہے تھے۔ ان کی اکیڈمیاں پورے لاہور شہر میں پھیلی ہوئی تھیں۔ کالج کے تعلیمی اوقات میں تندہی سے درس و تدریس قصۂ پارینہ بن چکے تھے۔ علامہ اقبالؔ‘ فیض صاحب اور صوفی تبسم کے گورنمنٹ کالج پر اب تاجرانہ ذہنیت حاوی تھی۔ کالج کے پروفیسر شام کو مختلف مقامات پر تعلیم بیچتے تھے۔ مذکورہ بالا تمام قصے پروفیسر خالد آفتاب کے پرنسپل بننے سے پہلے کے ہیں۔
ایسے دگرگوں حالات میں کسی نے وزیراعظم نوازشریف کو کہا کہ کالج میں ایک پروفیسر ہیں جو اس حد سے بگڑی صورتحال کے آگے بند باندھ سکتے ہیں۔ ایسے صائب مشورے حکمرانوں کو کم ہی ملتے ہیں اور اگر مل بھی جائیں تو انہیں شرف قبولیت کم ہی ملتا ہے۔ مگر پرائم منسٹر اس مرتبہ نہ صرف مشورہ سننے کے موڈ میں تھے بلکہ اس پر عمل کرنے پر راغب بھی تھے۔ 1993ء کا آغاز تھا۔ پروفیسر خالد آفتاب ان دنوں جی سی میں ہیڈ آف اکنامکس ڈیپارٹمنٹ تھے۔ انہیں وزیراعظم کی جانب سے چیف سیکرٹری کے ذریعہ گورنر ہائوس میں ملاقات کی دعوت ملی۔ دربار ہال میں وزیراعظم کے دائیںطرف گورنر میاں اظہر میئر آف لاہور براجمان تھے۔ چیف سیکرٹری پرویز مسعود اور آئی جی پولیس بھی موجود تھے۔ دیوان خاص کی مجلس کا سماں تھا۔ مختصر تعارفی کلمات کے بعد وزیراعظم نے کہا ''ڈاکٹر آفتاب! گورنمنٹ کالج بہت بُری حالت میں ہے‘ کیا آپ ہماری مادرِ علمی کی اس ابتر صورتحال کو بہتر بنا سکتے ہیں؟ خالد آفتاب کا جواب تھا کہ کالج کی صورتحال واقعی خراب ہے اور بڑی وجہ یہ ہے کہ طالب علموں کے کئی دھڑے ہیں اور ایک دھڑے کی قیادت میئر آف لاہور کے صاحبزادے کے پاس ہے۔ پرنسپل کو اکثر ایسے سٹوڈنٹس سے ڈیل کرنا پڑتا ہے جو سیاسی جماعتوں کے پرودہ ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ایسے گروہوں کو ہینڈل کرنا آسان کام نہیں۔ وزیرعظم نے خجالت کے سبب فوراً موضوع بدلا اور چائے کے ساتھ ملنے والے ٹائگر سائز جھینگوں کی بات کرنے لگے (جاری)

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں