"JDC" (space) message & send to 7575

مسلم دنیا اور پاکستان

عالم اسلام کے ساتھ انس پاکستان کے خمیر میں شامل ہے۔ حرم کی پاسبانی کے لیے شاعر مشرق بھی چاہتے تھے کہ مسلمان ایک ہو جائیں لیکن اسلامی اتحاد کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ 1969ء میں مسجد اقصیٰ کو نذرِ آتش کرنے کی ناپاک کوشش ہوئی تو ہم نے او آئی سی بنا لی‘ جو آج تک کوئی قابلِ ذکر کارنامہ نہیں کر سکی۔ ایران عراق میں جنگ ہوئی۔ دونوں اس تنظیم کے ممبر تھے‘ لیکن او آئی سی باوجود تمام تر کوشش کے‘ دونوں ممالک میں صلح تو دور کی بات جنگ بندی بھی نہ کرا سکی اور آج عالم یہ ہے کہ بہت سے ممبر ممالک اس تنظیم کا سالانہ چندہ بھی باقاعدگی سے نہیں دیتے۔
عالم اسلام کو اللہ تعالی نے بہت وسائل دیئے ہیں لیکن ہم ان سے پوری طرح استفادہ نہیں کر سکے۔ عالم اسلام کے تیل اور گیس کے وسائل پر عرصے تک مغربی آئل کمپنیاں چھائی رہیں۔ جب یہ وسائل ان کے کنٹرول سے بڑی حد تک آزاد ہو گئے اور عالمی منڈی میں 1970ء کی دہائی میں تیل کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئیں تو اس نئی نئی دولت کا اسراف بھی شروع ہوا۔ حکمرانوں کے عالی شان محلات تعمیر ہونے لگے، بے تحاشا اسلحہ مغربی ممالک سے خریدا جانے لگا۔ پاکستان کے لیے اچھا یہ ہوا کہ ہمارے ڈاکٹر‘ انجینئر‘ اکائونٹنٹ‘ مزدور اور تاجر بڑی تعداد میں مڈل ایسٹ میں جاب کرنے لگے اور وطن عزیز کو ہارڈ کرنسی بھیجنے لگے جس کی ہمیں اشد ضرورت تھی۔ ہمارے لوگوں نے مڈل ایسٹ کی تعمیر و ترقی میں بھی خوب حصہ لیا۔ حج اور عمرے بھی کئے‘ دنیا بھی سنواری اور روحانی فیض بھی حاصل کیا۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ آج کے مڈل ایسٹ کے کئی ممالک ہماری آنکھوں کے سامنے تباہی کا شکار ہوئے ہیں اور پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہے۔
موضوع چونکہ عالم اسلام ہے لہٰذا اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے کہ عالم اسلام متحد کیوں نہ ہو سکا۔ اسلامی دنیا کے انحطاط کے کیا اسباب ہیں؟ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ مسلمان ممالک نسل اور عقائد پر مبنی تفریق کا شکار ہیں۔ عرب اور عجم دونوں کو اپنے کلچر‘ اپنی زبان اور اپنے ماضی پر فخر ہے اور اس میں چنداں برائی بھی نہیں لیکن جب فخر تکبر میں تبدیل ہو جائے تو مسائل کا آغاز ہوتا ہے۔ ایران آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے ایک بڑی سلطنت تھا۔ سنٹرل ایشیا کے اکثر علاقے اس کے زیرتسلط تھے۔ ایرانی کہتے ہیں کہ اس زمانے میں عرب صحرا نشین اور انتہائی پسماندہ تھے۔ ایک ہزار سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے صحرا نشینوں کی کایا پلٹی‘ وہاں اسلام کا ابدی پیغام آیا۔ دمشق اور بغداد میں علوم و فنون اوجِ ثریا تک پہنچے۔
لسانی اور مسلکی تفاوت کے باوجود‘ 1970ء کی دہائی تک ایران اور خلیجی ممالک کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ دونوں کی مغربی ممالک سے دوستی تھی۔ اس وقت ایران کوخلیج کے خطے میں عسکری لحاظ سے اہم ملک تصور کیا جاتا تھا اور خلیجی ممالک کو اس امر پہ کوئی اعتراض نہ تھا۔ 1979ء کے بعد کے اختلافات‘ کچھ خطے کے ممالک نے پیدا کئے اور پھر اغیار نے جلتی آگ پر خوب تیل چھڑکا۔
مسلمانوں کا فکری انحطاط صدیوں سے جاری ہے۔ امام غزالیؒ کے بعد عالم اسلام میں کوئی بڑا مفکر دور دور تک نظر نہیں آتا۔ پچھلی صدی کے آغاز میں نوبیل پرائز کا آغاز ہوا‘ اب تک 850 سے زائد اشخاص یہ انعام حاصل کر چکے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ ان میں اسلامی ممالک سے کتنی شخصیات شامل تھیں۔ فقط بارہ 12 اور ان بارہ شخصیات میں سے صرف تین سائنس دان تھے: ایک ترکی‘ ایک مصری اور ایک پاکستانی۔ گویا پوری اسلامی دنیا نے ایک صدی میں عالمی معیار کے صرف تین سائنٹسٹ پیدا کئے۔ چہ عجب کہ دنیا میں ہمارا تاثر پسماندہ اقوام کا ہے۔
اور اب آتے ہیں اپنے موجودہ تعلیمی اداروں اور ان کے معیار کی طرف۔ پوری دنیا کی یونیورسٹیوں کی تعلیمی معیار کے لحاظ سے ہر سال ریٹنگ ہوتی ہے۔ اس ریٹنگ کے حساب سے 2016ء میں نسٹ (NUST) پاکستان کی سب سے اچھی یونیورسٹی قرار پائی۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ پوری دنیا میں نسٹ کا کیا درجہ تھا؟ جی ہاں یہ درجہ تھا 501 یعنی دنیا میں پانچ سو یونیورسٹیاں‘ ہماری اعلیٰ ترین یونیورسٹی سے اچھی تھیں۔ پاکستان کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ پاکستان سے باہر دوسرے اسلامی ممالک کی دانش گاہیں دیکھیں تو ترکی میں صورتحال قدرے بہتر ہے لیکن وہاں کی درس گاہیں بھی امریکہ اور برطانیہ سے بہت پیچھے ہیں۔ علمی لحاظ سے اسلامی دنیا آج بنجر نظر آتی ہے۔ پاکستان میں تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ ہماری پنجاب یونیورسٹی اور قائداعظم یونیورسٹی میں آئے روز ہنگامے ہوتے ہیں‘ مردان کی یونیورسٹی میں مشال خان دن دہاڑے قتل کر دیا جاتا ہے اور وہاں موجود طالب علم تالیاں بجاتے ہیں۔ لگتا ہے ہم علمی سطح پر اجتماعی خودکشی کرنے پر تلے ہوئے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہمارا مستقبل کچھ زیادہ تابناک نہیں کہ تعلیم ترقی کا زینہ ہے۔
اب آتے ہیں اسلامی دنیا میں موجود مختلف حکومتی نظاموں کی طرف۔ ہمارے ہاں تین طرح کے حکومتی ماڈل ہیں یعنی بادشاہت‘ ڈکٹیٹر شپ اور جمہوریت۔ بعض عرب ممالک میں ایسے ایسے ڈکٹیٹر آئے جو جانے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ 2010ء میں شروع ہونے والی عرب بغاوتیں جنہیں عرب سپرنگ بھی کہا گیا‘ انہی آمروں کے خلاف ردعمل تھیں۔ پڑھی لکھی نوجوان نسل ان آمروں کے خلاف تھی مگر ان بغاوتوں کو سختی سے کچل دیا گیا۔
مغربی دنیا اسلامو فوبیا کا شکار ہے‘ انہیں ہر مسلمان دہشت گرد لگتا ہے۔ دوسری طرف عالم اسلام میں کئی پڑھے لکھے لوگ آج بھی کہتے رہتے ہیں کہ مغربی ممالک ہمارے خلاف سازشیں تیار کرتے رہتے ہیں۔ امریکہ کے تین ناپسند ملکوں میں سے دو اسلامی ممالک ہیں‘ اور نائن الیون کی ٹریجڈی میں ان دونوں کے شہری شامل نہیں تھے۔ جو چیز غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ ان حالات میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے ۔اب ہمیں مسلم دنیا پر تکیہ کرنے کا خیال دل سے نکال دینا چاہیے۔ مسلم ممالک کا باہمی اتحاد اور کوئی مشترکہ ایکشن پلان مجھے دور دور تک نظر نہیں آتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ عرب عجم اختلاف مستقبل قریب میں مدھم نہیں ہو گا۔ پاکستان کو خودانحصاری کا سوچنا ہو گا ۔خودانحصاری جس کا سبق ہمیں علامہ اقبال نے فلسفۂ خودی کی شکل میں دیا تھا۔
ہمیں مڈل ایسٹ کی لڑائیوں سے دور رہ کر اپنی اقتصادی صورتحال کو بہتر کرنا ہو گا۔ آج کی دنیا میں اقتصادی پاور ہی سیاسی اہمیت کا سبب ہے۔ انڈیا کی حکومت اپنی اقتصادی پاور کے ذریعے اسلامی دنیا میں سفارتی کامیابیاں حاصل کر رہی ہے۔ لوپر وفائل (Low Profile) خارجہ پالیسی پر چلیں اور اقتصادی ترقی پر پورا فوکس رکھیں، سی پیک اور گوادر ہمارے حریفوں کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں، ہمیں ان دونوں کا مکمل اور مؤثر دفاع کرنا ہو گا۔
ہمارے حکومتی تعلیمی ادارے خستہ حالت میں ہیں۔ اشرافیہ تو بچے ملک سے باہر پڑھانے لگی‘ عام پاکستانی کیا کرے گا۔ ہمارے موجودہ تعلیمی نظام میں طلبہ ایف اے‘ بی اے اور ایم اے تھوک کے حساب سے پاس کر رہے ہیں لیکن اگر بی اے پاس کو انگریزی یا اردو کا مضمون لکھنے کو کہا جائے تو بہت غلطیاں نکلتی ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام کھوکھلا ہو چکا ہے۔ ہمیں ووکیشنل ادارے زیادہ سے زیادہ بنانے چاہئیں۔ سائنس کی اچھی تعلیم ضروری ہے۔ دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔
فارن پالیسی میں ہمیں پوری توجہ ایران اور افغانستان پر دینی چاہیے۔ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کی تکمیل ضروری ہے۔ ہمیں افغانستان کو اجازت دے دینی چاہیے کہ وہ اپنا مال بری راستے سے واہگہ بھیج سکے البتہ انڈیا سے اُسے مال پاکستان کے راستہ امپورٹ کرنے کی اجازت فی الحال نہیں دینی چاہیے۔ افغانستان اور ایران دونوں ہمارے لیے بے حد اہم ہیں‘ دونوں ممالک کے ساتھ اقتصادی اور کلچرل انٹرایکشن بڑھانا چاہیے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں