"JDC" (space) message & send to 7575

اسلام آباد کا شہرِ آشوب… (2 )

پانی کی فراوانی کے بغیر کوئی بڑا شہر آباد نہیں ہو سکتا۔ بابائے اسلام آباد ڈوکسیاڈس نے ہر شہر کے جن پانچ عناصر کا ذکر کیا تھا‘ ان میں پانی بہت اہم تھا۔ یہ پانچ عناصر تھے: شہری‘ عمارتیں، سڑکیں، پانی اور درخت۔ پانی اور درخت لازم و ملزوم ہیں۔ درخت نہ صرف آکسیجن اور سایہ فراہم کرتے ہیں بلکہ بارش کا سبب بھی بنتے ہیں۔ درختوں کی ہریاول آنکھوں کو ٹھنڈک دیتی ہے۔ آپ دن بھر کے تھکے ہارے ہوں‘ اسلام آباد کے فاطمہ جناح پارک میں شام کو واک کریں یا مارگلہ کے پہاڑ پر ٹریل نمبر تھری پر چلے جائیں آپ شرطیہ ہشاش بشاش واپس آئیں گے اور میں یہ بات ذاتی تجربہ کی بنیاد پر کر رہا ہوں۔
اسلام آباد کی روزمرہ آبی ضرورت ایک سو پانچ ملین گیلن ہے مگر مشکل سے چوّن (54) ملین گیلن ہی سپلائی ہوتا ہے۔ اسلام آباد کے ہر متمول مکین نے اپنے گھر میں ایک یا دو بور کرائے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد کے لئے پانی سملی ڈیم‘ خانپور ڈیم‘ نور پور، شاہدرہ اور سید پور واٹر ورکس سے حاصل کیا جاتا ہے۔ سملی ڈیم کا پانی دریائے سوان کے ذریعے مری کے پہاڑوں سے آتا ہے۔ راستے میں بے شمار پولٹری فارم میں جو دریائے سوان کے پانی کو آلودہ کر رہے ہیں۔ زیر زمین پانی کے زیادہ استعمال سے پانی کی سطح گر رہی ہے۔ آج سے دس سال پہلے سو فٹ بور کرنے سے پانی مل جاتا تھا۔ اب تین سو فٹ تک بور کرانا پڑتا ہے۔ سنا ہے راولپنڈی میں سات سو فٹ تک ڈرلنگ کریں تو پانی ملتا ہے۔
2016ء میں تحریک انصاف نے اسلام آباد میں پانی کی شدید کمی کے مسئلے پر مظاہرے کئے۔ اگر صورت حال پر قابو نہ پایا گیا تو مستقبل قریب میں ایسے مظاہرے شدید ہو سکتے ہیں۔ ڈوکسیاڈس نے مارگلہ کے پہاڑوں میں سولہ واٹر سورسز ڈھونڈ لئے تھے۔ یہ وہ قدرتی چشمے ہیں جو سارا سال بہتے ہیں۔ سی ڈی اے ان سولہ چشموں میں سے صرف تین یا چار کا پانی استعمال کرتی ہے۔ باقی واٹر سورسز ڈیویلپ نہیں کئے جا سکے۔ پورے شہر میں سو سے زائد ٹیوب ویل لگے ہوئے ہیں۔ ان میں سے آدھے خراب پڑے ہیں ۔ سنا ہے اگلے بجٹ میں ٹیوب ویلوں کے لئے تیس کروڑ روپے مختص کئے جا رہے ہیں لیکن زیر زمین پانی بتدریج کم ہوتا جائے گا۔ جلد یا بدیر اسلام آباد کے لئے دریائے سندھ سے پانی لانا پڑے گا۔
اسلام آباد میں درختوں کا قتل عام بھی بڑا مسئلہ ہے۔ دو تین ماہ پہلے اتا ترک ایوینیو پر سڑک کشادہ کرنے کے بہانے دو سو سے زائد لمبے لمبے درخت کاٹ دیئے گئے تھے۔ میں جب یہ کالم لکھ رہا ہوں تو مارگلہ پر جنگل میں لگی آگ بجھانے کا کام پاک نیوی کر رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فائر بریگیڈ اب یہ کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔ مارگلہ پر ایسی آگ موسم گرما میں متعدد بار لگتی ہے۔ سنا ہے کہ اس قبیح حرکت میں ٹمبر مافیا شامل ہوتا ہے تاکہ کاٹے ہوئے درختوں کا نام و نشان مٹ جائے۔ ہم اپنے ماحول کو خود تباہ کر رہے ہیں۔
جب اسلام آباد‘ آباد ہوا تھا تو چک شہزاد اور ترلائی کلاں کے ایریا میں چھ سو سے زائد زرعی فارم بنائے گئے تھے۔ ایک اوسط زرعی فارم کا رقبہ پانچ ایکڑ تھا۔ شرط یہ لگائی گئی کہ فارم کا 75 فیصد ایریا سبزیاں اور فروٹ اگانے کے لئے استعمال ہو گا اور پھر وہی ہوا جو وطن عزیز میں ہوتا ہے۔ مالکان نے وہاں اپنے گھر بنا لئے حالانکہ شروع کی شرائط میں یہ شامل تھا کہ فارم پر صرف لیبر کے لئے چند کمرے بنانے کی اجازت ہوگی اور وہاں صرف وہ مزدور رہائش پذیر ہوں گے جو فارمز پر کام کرتے ہوں۔ دس پندرہ سال پہلے شور مچا کہ چک شہزاد فارمز میں چار سو پلاٹوں پر بڑے بڑے گھر بن گئے ہیں‘ بلکہ بعض پر شادی ہال بھی تعمیر ہو چکے ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر اشرافیہ کی طرف سے اسلام آباد میں یہ پہلی چائنہ کٹنگ تھی۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے از خود نوٹس بھی لیا لیکن بعد میں معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ یہاں بہت ہی پاور فل لوگ رہتے ہیں‘ مثلاً جنرل پرویز مشرف۔ وہاں ملک کے ٹاپ کے وکیل بھی رہتے ہیں‘ جو ہمیں روزانہ قانون کی حکمرانی کے بھاشن دیتے ہیں۔ کچھ سال پہلے زمینی حقائق کے ''احترام‘‘ میں مالکان کو چار ہزار آٹھ سو مربع فٹ تک کے کورڈ ایریا کے مکانوں کی اجازت دے دی گئی۔ پچھلے سال نووارد میئر اسلام آباد شیخ انصر عزیز نے کورڈ ایریا دس ہزار فٹ تک کرنے کی اپروول دے دی۔ اب چک شہزاد میں سرے محل اور بکنگھم پیلس نما کچھ گھر بن گئے ہیں۔ چند سال پہلے سپریم کورٹ نے سی ڈی اے سے پوچھا تھا کہ چک شہزاد کے فارمز سے کتنی سبزی اور کتنا فروٹ اسلام آباد کی مارکیٹ میں آتا ہے۔ آج تک اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔
بنی گالہ کی ماحول دشمن آبادی بھی سب کی آنکھوں کے سامنے بنی۔ چک شہزاد کے زرعی فارم محلات میں تبدیل ہو گئے۔ ایک ہوٹل کا پلاٹ جو کنونشن سنٹر کے ساتھ ہے‘ وہاں بلڈنگز کے مینار دیکھتے دیکھتے آسمان کو چھونے لگے۔ ایک اور مال نے خلافِ قانون بلڈنگ کو بلند تر کر لیا مگر اسلام آباد انتظامیہ عملاً سوئی رہی۔
2001ء میں سی ڈی اے نے جو نقشہ جی 13 کا پاس کیا‘ اس میں اپارٹمنٹ بلڈنگز بھی تھیں اور چار منزلہ تھیں۔ 2009ء میں اسی سی ڈی اے نے انہی عمارتوں کو یکطرفہ طور پر چودہ منزلہ کر دیا۔ جی 13 کے رہائشی سراپا احتجاج ہیں لیکن یہ پراجیکٹ‘ جو خلاف قانون ہے‘ تیزی سے بن رہا ہے۔ جی تیرہ کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ان فلک بوس عمارتوں میں تین ہزار گھر ہوں گے۔ سیکٹر کا انفراسٹرکچر اتنا اضافی بوجھ برداشت نہیں کر سکے گا۔ کچھ مکین یہ کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں لے گئے ہیں۔ ایف فور ٹین کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہائوسنگ فائونڈیشن نے اپیل کی ہوئی ہے۔ آخری پیشی کے بعد ایک کنٹریکٹر نے شبانہ روز کام شروع کر دیا ہے تاکہ ایف فور ٹین کا فیصلہ آنے تک یہ عمارتیں آسمان کو چھونے لگیں‘ اور پھر عدالت عالیہ بھی زمینی حقائق کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے۔ لالچ بھی بڑا ظالم اور اندھا ہوتا ہے۔
دارالحکومت کے باسیوں میں عدمِ تحفظ کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ بارہ کوہ‘ جی بارہ اور ترنول کی آبادیاں دیکھتے ہی دیکھتے بڑھی ہیں۔ یہاں نہ کوئی گلیوں کے نمبر ہیں نہ مکانوں کے۔ یہاں کون کون رہ رہا ہے اس کا علم نہ کسی ادارے کو ہے نہ اسلام آباد پولیس کو۔ خیر سی ڈی اے کے پاس تو بہانہ ہے کہ ہم صرف اربن اسلام آباد کے ذمہ دار ہیں لیکن چیف کمشنر اسلام آباد اور آئی جی اسلام آباد کس بات کی تنخواہ لے رہے ہیں۔ ای الیون اور ایف الیون میں اس قدر عدم تحفظ کا احساس ہے کہ رات کو گلیوں کے بیریئر بند کر دیئے جاتے ہیں اور پرائیویٹ گارڈ پہرہ دیتے ہیں۔ کشمیر ہائی وے پر جی 12 کے سامنے پچھلے دو سال میں کئی غیر قانونی شادی ہال، ریسٹورنٹ اور کار شو روم بنے ہیں۔ ان لوگوں نے لوہے کے بیریئر کاٹ کر رستے بنا لئے ہیں۔ چیف کمشنر اور آئی جی صاحب کے دفاتر قریب ہی ہیں مگر ان کی آنکھیں بند ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں