"JDC" (space) message & send to 7575

اسلام آباد کا شہر آشوب…(3)

تازہ اطلاعات کے مطابق اسلام آباد میں فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے، ہوا کی کوالٹی خراب ہو رہی ہے اور اس سلسلے میں شہر کے آئی ایٹ، آئی نائن، آئی ٹین اور آئی الیون سیکٹر نمایاں ہیں۔ ان سیکٹرز میں ماحولیاتی تنزلی (Degradation) کی تین وجوہات ہیں۔ نمبر ون: سڑکوں کی توسیع کا جاری کام، نمبر ٹو: کاروں‘ بسوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد میں اضافہ اور نمبری تھری: آئی سیکٹرز میں لگائی گئی لوہے کی فائونڈریاں۔ میں اس بات کا شاہد ہوں کہ پچھلے ایک سال سے جاری میٹرو منصوبے سے جی الیون، جی تھرٹین اور جی فورٹین کی فضا خاکی ذرات سے بھری ہوئی ہے۔ دمہ اور سانس کی دیگر بیماریاں پھیل رہی ہیں مگر سب سے خطرناک وہ گیسیں ہیں جو جی نائن اور جی ٹین کی لوہے کی بھٹیوں سے شبانہ روز خارج ہو رہی ہیں۔ لوہے اور فولاد کی فیکٹریوں میں سکریپ‘ خام مال کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ سکریپ میں خوردنی تیل، انجن آئل اور پینٹ کے خالی ڈبے کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ ان ڈبوں کو جب بہت زیادہ درجہ حرارت پر پگھلایا جاتا ہے‘ تو دو بہت خطرناک قسم کے ذرات خارج ہوتے ہیں۔ ایک کا نام ہے بی ایم ٹین اور دوسرے کا پی ایم دو اعشیاریہ پانچ۔ یاد رہے کہ یہاں پی ایم سے مراد پرائم منسٹر نہیں ہے۔ حال ہی میں ایک موقر انگریزی اخبار نے اس موضوع پر سٹوری شائع کی ہے۔ اس اخبار نے جب ماحولیات اور موسمی تبدیلی کی فیڈرل وزارت کے سیکرٹری سے استفسار کیا تو جواب تھا کہ مجھے اس بارے میں علم نہیں۔ یہ بات کبھی میرے نوٹس میں نہیں لائی گئی۔ اس سے آپ پاکستان کی سینٹر بیورو کریسی کی حالت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ماحول کے دفاع کی ایجنسی (Environment Protection Authority) بھی کئی سال سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ 
اب میں آپ کو اسلام آباد سے متعلق دو قصے سناتا ہوں جن کا نہ صرف میں عینی شاہد ہوں بلکہ ان کہانیوں کا ایک کردار میں خود بھی ہوں۔ دو ہفتے پہلے میرے گھریلو ملازم آصف کا موٹر سائیکل پہ ایکسیڈنٹ ہوا۔ یہ لوگ ہیلمٹ پہن کر موٹر سائیکل چلانا گناہ سمجھتے ہیں۔ آصف کی موٹر سائیکل کی ایک کار سے ٹکر ہوئی اور یہ سڑک پر منہ کے بل گرا۔ سر اور منہ پر کافی زخم آئے۔ میں جب جائے وقوعہ پر پہنچا تو آصف ایک اتائی ڈاکٹر کے کلینک میں اکلوتے بسر پر لیٹا ہوا تھا۔ اس کے کپڑے خون سے بھرے ہوئے تھے، ایک آنکھ چوٹ کی وجہ سے مکمل بند تھی اور سر میں شدید درد تھا۔ وہ بڑی مشکل سے بات کر رہا تھا۔ یہ واقعہ تقریباً عشاء کے وقت پیش آیا۔ میں آصف کو کار میں بٹھا کر اسلام آباد کے بڑے سرکاری ہسپتال پمز کی ایمرجنسی میں لے گیا۔ ایمرجنسی وارڈ مریضوں سے بھرا ہوا تھا، ڈاکٹروں نے کہا کہ سب سے پہلے سی ٹی سکین ضروری ہے تاکہ سر کی چوٹ کی نوعیت سمجھی جا سکے۔ سی ٹی سکین خاصا مہنگا ٹیسٹ ہے لیکن پمز میں بالکل مفت ہوا۔ ڈاکٹر نے بڑے غور سے سلائیڈ دیکھی اور بتایا کہ ماتھے پر ہلکا سا فریکچر ہے‘ جان تو اللہ نے بچا لی ہے لیکن ناک اور ماتھے کے درمیان چھوٹے فریکچر میں بھی خطرہ ہوتا ہے کہ سانس لیتے ہوئے ہوا دماغ میں نہ چلی جائے۔ ایسی صورت میں دماغ میں انفیکشن ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر کا اختصاص نیورولوجی کی فیلڈ تھی۔ تشخیص بالکل صحیح تھی۔ ایمرجنسی وارڈ میں نوے فیصد مریض موٹر سائیکل ایکسیڈنٹ والے تھے اور ان میں بہت سارے ہیڈ انجری والے تھے۔ اسی لئے غالباً ایمرجنسی میں نیورولوجسٹ کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔
ایمرجنسی وارڈ خود ایک مقام عبرت تھا، کئی مریض درد کی شدت کی وجہ سے چیخیں مار رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب بولے کہ دماغ کی انفیکیشن کے امکان کو ختم کرنے کیلئے آصف کو آکسیجن کا ماسک پہنائیں گے تاکہ باہر کی ہوا اس کے بدن کے اندر نہ جائے خون چونکہ کافی بہہ چکا تھا‘ لہٰذا کمزوری کا مداوا کرنے کیلئے گلوکوز ڈرپ بھی لگا دی گئی۔ وارڈ مریضوں سے بھرا پڑا تھا لہٰذا آصف کیلئے عارضی بیڈ کا انتظام کرنا پڑا۔ رات کے گیارہ بج رہے تھے، ہم دو گھنٹے سے ایمرجنسی وارڈ میں موجود تھے۔ اس دوران میری ڈاکٹر صاحبان سے بات ہوتی رہی۔ ایک ڈاکٹر کہنے لگے کہ ہسپتال میں کام کا پریشر بہت ہے۔ مریضوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ پھر مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ کو معلوم ہے کہ پمز ہسپتال کب بنا تھا؟ میں نے جواب دیا: 1980کی دہائی میں۔ کہنے لگے: جواب درست ہے، یہ ہسپتال 1983ء میں بنا تھا۔ اس وقت اسلام آباد کی ٹوٹل آبادی نصف ملین سے کم تھی اور آج دو ملین سے زائد ہے مگر اس ہسپتال کے بعد دارالحکومت میں کوئی بڑا سرکاری ہسپتال نہیں بنا۔ آصف رات بھر ہسپتال میںرہا۔ اگلے روز ساڑھے گیارہ بجے اسے ڈسچارج کیا گیا۔ سب ڈاکٹر خوش اخلاق، مستعد اور اپنے کام کو خوب جاننے والے۔ میں نے نرسوں کو بھی بہت ہمدرد اور تجربہ کار پایا۔ وہ رات بھر مریضوں کی پوری تندہی سے طبی مدد کرتی رہیں۔ ڈسچارج سلپ بن گئی تو میں نے ڈاکٹر صاحب سے واجبات کا پوچھا۔ جواب ملا: آپ نے کچھ ادائیگی نہیں کرنی۔ یہاں علاج مفت ہے۔ میرے لئے یہ بے حد خوشگوار تجربہ تھا کہ وطن عزیز میں اب بھی اتنے اچھے ادارے ہیں۔ بااخلاق اور مستعد ڈاکٹر، ہم روزانہ اپنے اداروں میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں‘ ہمیں پتا ہی نہیں کہ کیسی کیسی شاندار چنگاریاں ہماری خاکستر میں ہیں، کیسے کیسے لعل ہماری مٹی میں چھپے ہوئے ہیں۔
مگر مجھے افسوس اس بات کا بھی ہے کہ پمز وہ ہسپتال نہیں بن سکا جو اسے ہونا چاہیے تھا۔ دنیا بھر میں ادارے وقت گزرنے کے ساتھ گرو کرتے ہیں‘ ترقی پاتے ہیں، پمز کو آج پاکستان کا فلیگ شپ سرکاری ہسپتال ہونا چاہیے تھا مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا‘ مثلاً پیپلز پارٹی کے دور حکومت یعنی 2010ء میں کڈنی اور لیور ٹرانسپلانٹ سنٹر کی بات شروع ہوئی مگر یہ سنٹر آج تک پمز میں نہیں بن سکا۔ اب بون میرو ٹرانسپلانٹ یونٹ کو جاری و ساری رکھنے کے احکامات چیف جسٹس آف پاکستان نے جاری کئے ہیں ورنہ پمز کا یہ یونٹ بھی ختم ہو جاتا۔ پمز میں جگر ٹرانسپلانٹ کا یونٹ نہ لگنے کا فائدہ پرائیویٹ سیکٹر نے اٹھایا۔ ملک کا اکلوتا جگر ٹرانسپلانٹ یونٹ شفا انٹرنیشنل ہسپتال میں پچھلے سال سے کام کر رہا ہے‘ جہاں ایک مریض پر پیوند کاری کی فیس پچاس لاکھ روپے ہے۔ اب بتائیے کہ غریب آدمی کہاں جائے۔ غریب آدمی تو دور کی بات گریڈ بائیس کا ایماندار افسر بھی لیور ٹرانسپلانٹ سرجری کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
دوسرا واقعہ ذرا ٹریجک ہے۔ میں کبھی کبھار دوستوں کے ساتھ واک کرنے کیلئے ایف الیون چلا جاتا ہوں۔ ایک ماہ پہلے میں اپنے دوست ڈاکٹر اعجاز حسین کے ساتھ ایف الیون اور مارگلہ روڈ کے درمیان والی گرین بیلٹ میں شام کے وقت سیر کر رہا تھا کہ ایک آوارہ کتے نے اچانک کاٹ لیا۔ کتے کی عمر دو تین ماہ سے زیادہ نہیں تھی لہٰذا زخم گہرا نہیں تھا لیکن کتا چونکہ آوارہ تھا لہٰذا مشورہ ملا کہ فوراً ٹیکے شروع کئے جائیں۔ مارچ کا مہینہ ٹیکے لگواتے گزرا۔ وقت کے ضیاع کے علاوہ ذہنی کوفت علیحدہ۔ معروف ہسپتال سے دیا گیا ٹیکوں کا بل اسلام آباد کے مئیر کو بھیج رہا ہوں شاید موصوف کو احساس ہو جائے کہ اسلام آباد سے آوارہ کتوں کو دیس نکالا دینا بھی ان کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔
ایران کے سابق صدر احمدی نژاد ایک زمانے میں تہران کے مئیر تھے۔ ترکی کے صدر طیب اردوان کے کیریئر کا آغاز بھی استنبول کے مئیر سے ہوا تھا لیکن اسلام آباد کے میئر نواز شریف کے پیچھے پیچھے احتساب عدالت جاتے ہیں یا جگہ جگہ اپنے قائد کے بینر لگواتے ہیں ان کے دور میں اسلام آباد بے حد گندا شہر بن گیا ہے۔ میں نے ای الیون کے پوش سیکٹر میں گرین بیلٹ میں کچرے کے ڈھیر دیکھے ہیں۔ ڈوکسیاڈس کا خواب بہت حسین گارڈن سٹی بن سکتا تھا لیکن ہم خود اس شہر کو مسائل کا گھر بنا رہے ہیں، وجہ کرپشن ہے۔ حکومت کی کمزور رٹ نے اس شہر کے حسن کو گہنا دیا ہے۔ (جاری) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں