"JDC" (space) message & send to 7575

تاریخی لمحات

پچھلے ہفتے دو اہم واقعات ہوئے ہیں جو پوری دنیا میں شہ سرخیاں بنے۔ شمالی اور جنوبی کوریا کے لیڈر بارڈر پر ایک جگہ ملے۔ پچھلے پینسٹھ سال سے دشمن جب گلے ملے تو یہ تاریخی لمحہ تھا۔ اس معانقے کی تصویریں اپنی تعداد کے اعتبار سے ایک ریکارڈ قائم کر گئیں۔ جزیرہ نما کوریا 1953ء میں دو ملکوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔ سیاسی بیانات میں دونوں ممالک کے لیڈر اکثر کہتے رہے کہ ہم دوبارہ وحدت چاہتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ گزشتہ سال نارتھ کوریا نے بیس میزائل ٹیسٹ کر کے پوری دنیا کو نروس کر دیا تھا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا کہ وہ ہائیڈرو جن بم بھی بنا سکتا ہے۔ شمالی کوریا کے لیڈر کِم (Kim) اور صدر ٹرمپ کے درمیان تند و تیز بیانات ایک عالم کو پریشان کرتے رہے۔ شمالی کوریا چین کا حلیف ہے تو جنوبی کوریا امریکا کا۔ شمال کی نوے فیصد تجارت چین کے ساتھ ہے۔ پٹرول چین سے درآمد ہوتا ہے اور کوئلہ چین کو برآمد کیا جاتا ہے لیکن چین اور شمالی کوریا کے تعلقات مثالی قرار نہیں دیئے جا سکتے۔ چین شمالی کوریا کے ایٹمی تجربات سے خوش نہیں۔ چین کا خیال ہے شمالی اور جنوبی کوریا میں کشیدگی کی وجہ سے امریکہ کو جنوبی حصے میں اپنے فوجی اڈے قائم رکھنے کا جواز ملتا ہے۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے لیڈر جلد ہی سنگا پور یا منگولیا میں ملیں گے اور یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ امریکہ نارتھ کوریا سے ایٹمی پروگرام ختم کرنے کا مطالبہ کرے گا اور کہے گا کہ جزا کے طور پر اقتصادی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی لیکن شمالی کوریا ایٹمی پروگرام آسانی سے بند نہیں کرے گا۔
ممنکہ وحدت کی نسبت سے بارڈر کے دونوں جانب عوام کی توقعات بہت زیادہ ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ توقعات جلد پوری نہیں ہو سکتیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ چین نہیں چاہے گا کہ اس کا ہمسایہ ملک طاقتور ہو۔ جنوبی کوریا اس وقت بھی اقتصادی قوت ہے اور اگر شمالی کوریا کی عسکری قوت بھی ساتھ شامل ہو جائے تو اسّی ملین آبادی کا یہ ملک اہم تر ہو جائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اقتصادی لحاظ سے جنوبی کوریا شمالی حصے سے بہت آگے ہے۔ اگر دونوں ممالک پھر سے اکٹھے ہوتے ہیں تو جنوبی کوریا کو شمالی حصے کی ترقی کیلئے اپنے وسائل استعمال کرنا ہوں گے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب مشرقی اور مغربی جرمنی دوبارہ ایک ملک بنے تھے تو مغربی جرمنی نے بطور ترقی یافتہ پارٹنر کے کافی بوجھ اٹھایا تھا مگر کوریا میں یہ بوجھ بہت زیادہ ہے کیونکہ اشتراکی نظام اور اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے نارتھ کوریا کی معاشی حالت پتلی ہے۔ 
ایک انگریزی اخبار کے انڈین نامہ نگار نے امید ظاہر کی ہے کہ اگر کوریا میں امن پروان چڑھ سکتا ہے تو برصغیر میں کیوں نہیں۔ جی ہاں یہ عین ممکن ہے لیکن امن کی فاختائیں برصغیر کا رخ تب کریں گی جب نریندر مودی بھارتی برتری کا خواب ترک کر دے گا‘ جب پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی خواہش انڈین پالیسی کا حصہ نہیں رہے گی‘ جب بطور ہمسایہ پاکستان کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جائے گا۔ مگر کورین سمٹ کے بارے میں لکھتے ہوئے اس انڈین مراسلہ نگار نے ایک ایسی بات بھی لکھی ہے جو تاریخی اعتبار سے غلط ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ برصغیر کی تقسیم استعمار کی وجہ سے ہوئی مگر یہ سراسر غلط ہے اور اس پر تفصیل سے بات آئندہ کبھی ہو گی۔
اور اب موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ نارتھ کوریا نے عندیہ دیا ہے کہ وہ ایٹمی ٹیسٹ بند کر دے گا اور یہ بذات خود امن کی طرف بڑی پیش رفت ہے۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ خوش ہیں کہ ان کی بڑھکیں رنگ لائیں۔ اب ان کا بیان آیا ہے کہ اگر نارتھ کوریا نے اپنا ایٹمی پروگرام ختم نہ کیا تو وہ ہونے والی سربراہ ملاقات سے واک آئوٹ کر جائیں گے لیکن شمالی کوریا مستقبل قریب میں ایٹمی ہتھیاروں کو آسانی سے ترک نہیں کرے گا۔
دوسرا نہایت اہم واقعہ چین کے صدر شی جن پنگ اور انڈیا کے وزیر اعظم مودی کی ملاقات ہے۔ 2017ء ان دونوں ملکوں کے درمیان تنائو کا سال تھا۔ دونوں افواج دوکلم کے سرحدی مقام پر ڈھائی ماہ تک آمنے سامنے رہیں۔ دوکلم بھوٹان ، انڈیا اور چین کے سرحدی سنگم پر واقع پہاڑی علاقہ ہے جسے بیشتر گڈریئے ہی استعمال کرتے ہیں۔ اس علاقے پر بھوٹان کا کلیم ہے اور بھوٹان انڈیا کا بغل بچہ ہے۔ پچھلے سال مئی میں چین نے اس سٹریٹیجک علاقے میں عسکری سڑک بنانا شروع کی تو بھوٹان نے اپنے گاڈ فادر کو بلایا۔ حالات کشیدہ رہے سڑک تو بننا بند ہو گئی لیکن چین اور انڈیا دونوں اپنی اپنی جانب عسکری استعمال کی عمارتیں اور بنکر بنا رہے ہیں۔
انڈیا یہ نہیں چاہتا کہ اس کے تعلقات چین کے ساتھ زیادہ تنائو کا شکار ہوں۔ تبت کے بدھ لوگوں کے روحانی لیڈر دلائی لامہ 1959ء سے انڈیا میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ دلائی لامہ اور ان کے پیروکار ہر سال اپنے لیڈر کی انڈیا آنے کی تقریب کرتے ہیں۔ اس فنکشن میں انڈیا کے سرکاری اور غیر سرکاری لوگ بھی شرکت کرتے ہیں۔ اس سال کے آغاز میں اس تقریب کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ دعوت نامے تقسیم ہو چکے تھے کہ وزارت خارجہ نے تمام سرکاری افسروں کو تقریب میں جانے سے منع کر دیا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ انڈیا کے چین کے ساتھ تعلقات بہت حساس مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ انڈیا کو موجودہ فارن سیکرٹری وجے گوکھلے چین میں سفیر رہ چکے ہیں۔ وہ چینی زبان جانتے ہیں اور چین کے ساتھ اچھے تعلقات کے پرجوش حامی ہیں۔
اب سوال یہ ہے انڈیا چین کے ساتھ اچھے تعلقات کیوں چاہتا ہے۔ دونوں ملکوں کی دو طرفہ تجارت اسی ارب ڈالر کراس کر چکی ہے۔ انڈیا کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بڑی گرم جوشی آئی ہے لیکن پھر بھی انڈیا نہیں چاہتا کہ اپنے سارے کے سارے انڈے امریکہ کی ٹوکری میں ڈال دے۔ پچھلے دنوں انڈیا کے آرمی چیف جنرل بپن راوت کا بیان تھا کہ چین ہمارے تخیل سے زیادہ ترقی کر چکا ہے۔ جنرل راوت خاصے بڑبولے ہیں اور پاکستان کے بارے میں الٹے سیدھے بیان دینے کے لئے مشہور ہیں لیکن چین کے بارے میں خاصے محتاط ہیں۔
دوسری طرف چین بھی نہیں چاہتا کہ انڈیا مکمل طور پر امریکہ کی طرف چلا جائے۔ اپنے ہمسایوں سے اچھے تعلقات چین کی خارجہ پالیسی کا اولین اصول ہے۔ نریندر مودی 27 اپریل کو چین کے شہر ووہان پہنچے تو صدر شی نے خود ان کا استقبال کیا اور پھر ملاقات کے دوران بتایا کہ آپ دنیا کے وہ اکلوتے لیڈر ہیں جن کے استقبال کے لئے دو مرتبہ بیجنگ سے کسی اور جگہ گیا ہوں۔ یاد رہے کہ 2015ء میں شی نے مودی کا شیان میں استقبال خود جا کر کیا تھا۔ انڈیا اور چین مل کر دنیا کی چالیس فیصد آبادی رکھتے ہیں۔ وہ دونوں مل کر اکیسویں صدی کو ایشیا کی صدی بنانا چاہتے ہیں۔ چین کو پتا ہے کہ انڈیا ، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر سائوتھ چائنا سی میں اس کی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔ نریندر مودی نے صدر شی کو 2019ء میں انڈیا آنے کی دعوت دی ہے جو کہ قبول کر لی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آیا انڈیا چین دوستی بہت گہری ہو سکتی ہے اور پاکستان پر اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ ون بیلٹ ون روڈ، سائوتھ چائنا سی اور سی پیک کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات آئیڈیل نہیں ہو سکتے۔ پاکستان اور سی پیک دونوں چین کے لئے بے حد اہم ہیں اور وہ سی پیک کی تکمیل اور پاکستان سے آل سیزن فرینڈ شپ کے بارے میں پرعزم ہے۔ دوکلم کے بارے میں طے ہوا ہے کہ اس مسئلہ کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے گا اور یہ امن کی جانب اچھا قدم ہے۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں