"JDC" (space) message & send to 7575

تحریک طالبان پاکستان: ایک جائزہ

تحریک طالبان پاکستان ایک بغاوت پر مبنی موومنٹ تھی جو پاکستان کی فارن پالیسی میں افغانستان کے حوالے سے یوٹرن کے ردعمل کے طور پرابھری۔ شروع میں یہ تحریک قبائلی علاقوں میں خاصی پاپولر تھی۔ اس تحریک کے بانی لیڈر افغانستان میں لڑ چکے تھے۔ اس وقت ہم انہیں مجاہد کہتے تھے۔ 9/11 کے بعد ہم پر یہ راز افشاء ہوا کہ دراصل یہ دہشت گرد ہیں اور ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ بعد میں یہ واقعی دہشت گرد بن گئے کیونکہ آخری سالوں میں اس تحریک کا صرف برانڈ نیم رہ گیا تھا اور ہر طرح کے عناصر اس نام کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ ٹی ٹی پی کی ٹوٹل فعال تاریخ ایک عشرے سے کم ہے۔ ہمارے ملٹری تعلیمی اداروں کو طالبان کے عروج و زوال کو معروضی طور پر غور سے دیکھنا چاہئے اور مجھے یقین ہے کہ اس سلسلہ میں ریسرچ ہو رہی ہوگی۔
کبھی کبھی یوں لگتا تھا کہ ٹی ٹی پی افغان طالبان ہی کی کاربن کاپی ہے، لیکن اصل میں ایسا نہیں تھا۔ افغان طالبان کی عموماً یہ پالیسی رہی ہے کہ ان کی طرف سے پاکستان کی ریاست یا عوام کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ گو کہ پاکستانی طالبان ملا عمر کو اپنا روحانی اور سیاسی لیڈر مانتے تھے لیکن ان کے حقیقی افعال ملاعمر سے خاصے مختلف تھے۔ اسی وجہ سے مشرف حکومت کی پالیسی افغان اور پاکستانی طالبان کی جانب الگ الگ تھی۔ اس پالیسی کا بنیادی عنصر یہ تھا کہ القاعدہ کے لوگوں سے کوئی رعایت نہ برتی جائے کیونکہ یہ اکثر فارنر تھے اور ان میں سے کئی اپنی حکومتوں کو مطلوب تھے مثلاً ایمن الظواہری۔ البتہ طالبان کے بارے جنرل مشرف کی حکومت سوات آپریشن تک خاصی محتاط رہی۔ خیبر پختون خوا میں ایم ایم اے کی حکومت کے ساتھ بھی فیڈرل حکومت کا رویہ مخاصمانہ نہیں تھا۔ طالبان کے ساتھ حکومت نے سوات اور وزیرستان میں صلح کے معاہدے بھی کئے جو جلد ہی کافور ہوگئے۔
ٹی ٹی پی کی باقاعدہ تشکیل سے پہلے قبائلی علاقوں میں حکومت کی رِٹ کو نیک محمد نے چیلنج کیا تھا۔ پھر شکئی کے مقام پر صلح نامہ ہوا جو جلد ہی ختم ہوگیا۔ نیک محمد اپنے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دوستوں کو حکومتِ پاکستان کے حوالے کرنے کو تیار نہیں تھا۔ القاعدہ کے فائٹرز میں عرب چیچن اور ازبک وغیرہ شامل تھے۔ نیک محمد کی ان لوگوں سے دوستی افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ کے زمانے سے تھی۔ جب آپ کسی فریق کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں تو مدمقابل گروہ کی نفسیات اور ثقافتی اقدار کا ادراک ضروری ہوتا ہے اور ہمارے لئے یہ چنداں مشکل بھی نہ تھا اس لئے کہ طالبان ہماری ہی سوسائٹی کا حصہ تھے۔ مشرقی معاشروں میں عشروں پر محیط دوستیوں کو یکایک ختم نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا حکومت کی خام خیالی تھی کہ نیک محمد اپنے پرانے تعلقات کو ایک دن میں ختم کر دے گا۔
شکئی معاہدہ ختم ہونے کے بعد نیک محمد نے حکومت کو علی الاعلان للکارا۔ چند روز بعد وہ ایک ہوائی حملے میں مارا گیا۔ یہ امرآج تک مبہم ہے کہ یہ حملہ امریکہ کی جانب سے ہوا تھا یا پاکستانی افواج نے کیا تھا۔ 2004ء میں جب نیک محمد کی ڈیتھ ہوئی تو میں اپنے ایک بزرگ اور محترم پختون کو لیگ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ وہ حکومتِ پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدوں پر کام کر کے ریٹائر ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا: سر! نیک محمد کی وفات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ ان کا جواب تھا کہ پختون معاشرہ بہادر لوگوں کی قدر کرتا ہے۔ نیک محمد عزت کی موت مرا ہے۔ یہ پختون ثقافت کی نہایت مختصر مگر جامع تشریح تھی۔
2004ء میں جنرل پرویز مشرف پر دو قاتلانہ حملے ہوئے تو طالبان کے بارے میں ان کے افکار بدلنے لگے۔ حقیقت یہ تھی کہ القاعدہ، اوریجنل طالبان اور پنجابی طالبان سب گڈمڈ ہو چکے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2004ء کی سارک سمٹ جب اسلام آباد میں منعقدہوئی تو انڈیا اور پاکستان کا ایک مشترکہ بیان ایشو ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔ چنانچہ کشمیر میں سرگرم عمل مزاحمتی گروپ اپنی تحریک کو ختم کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان میں سے چند عناصر طالبان کا حصہ بن گئے۔
تحریک طالبان کی باقاعدہ تشکیل 2007ء میں ہوئی اور بیت اللہ محسود کو پہلا لیڈر بنایا گیا۔ اگر القاعدہ اور ٹی ٹی پی کا موازنہ کیا جائے تو پاکستانی طالبان تعلیم کے لحاظ سے خاصے پس ماندہ نظر آتے ہیں۔ لہٰذا ٹی ٹی پی میں اچھی پالیسی بنانے والے لوگ کم کم نظر آئے حکومت کی امریکہ نواز پالیسی کی مزاحمت اور شریعت کا نفاذ ان کے ڈیکلیئرڈ مقاصد تھے مگر حساس دفاعی تنصیبات کے علاوہ یہ لوگ مساجد اور خانقاہوں پر بھی حملے کرنے لگے۔ اس طرح انہوں نے حکومت کے علاوہ پاکستانی عوام کے خلاف بھی محاذ کھول دیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ شروع میں حکومت کے کئی وزراء اور اپوزیشن کے چند عناصر طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے، بلکہ عمران خان کو تو طالبان خان کا طعنہ ملتا تھا۔ جماعتِ اسلامی کے امیر سید منور حسن نے طالبان کے حق میں بیان دیا تو اپنی لیڈر شپ کھو بیٹھے۔ اب عوامی رائے طالبان کے خلاف ہو چکی تھی۔
جنگ کا مسلمہ اصول ہے کہ بیک وقت کئی محاذ نہ کھولیں۔ ٹی ٹی پی نے کئی محاذ کھول لئے۔ جب کامرہ پر حملہ ہوا اور پھر مہران کے نیول بیس پر ہمارے قومی اثاثے تباہ کرنے کی کوشش ہوئی تو صاف معلوم ہو رہا تھا کہ طالبان کی شکل میں دشمن ہمارے اندر گھس آیا ہے۔ مگر تمام طالبان ایسے نہ تھے۔ ان میں سے چند ایک کو دشمن ایجنسیوں نے خرید لیا تھا۔ مگر وہ یہ بھول گئے کہ ان کا مقابلہ دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک سے ہے۔ اور جب طالبان نے آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں کو شہید کیا تو ان کے حق میں رہی سہی ہمدردی بھی کافور ہوگئی۔ اب سیاست دان اور افواج ایک ہی صفحے پر تھے، لیکن افسوس کہ یہ یکسوئی پیدا ہونے میں خاصی تاخیر ہوئی ورنہ شاید پشاور میں ہمارے ننھے پھول اس درندگی کا شکار نہ ہوتے۔
نفاذِ شریعت کی حد تک طالبان کا بیانیہ عوام میں خاصہ مقبول تھا لیکن جب اس کی تشریح کی گئی تو خاصے مسائل پیدا ہوئے۔ مولانا صوفی محمد نے جب سوات میں کہا کہ ہم کسی جمہوریت کسی ریاست اور کسی دستور کو نہیں مانتے تو عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ یہ کون لوگ ہیں جو ہمیں قرونِ وسطیٰ سے بھی پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں۔ جب طالبان نے تعلیم نسواں کی مخالفت کی تو وہ اپنی قبائلی سوچ کا اظہار تو ضرور کر رہے تھے لیکن یہ سوچ اسلامی نظریات سے دور جا چکی تھی کہ اسلام تعلیم نسواں کا ہرگز مخالف نہیں۔ طالبان نے نہ اسلام کے اصولوں کا صحیح ادراک کیا اور نہ ہی پاکستانی معاشرے کے معروضی حالات کا پاس رکھا۔
تحریک طالبان کی اساس (Base) بہت تنگ تھی۔ وزیرستان میں دو بڑے قبیلے ہیں مگر صرف ایک قبیلہ طالبان کی قیادت مہیا کر رہا تھا۔ مسلکی طور پر یہ لوگ پاکستان کے سوادِاعظم سے کٹے ہوئے تھے۔ جب ضرب عضب کا آغاز ہوا تو پاک فوج کو فاسد عناصر کا صفایا کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ جو باقی بچے انہوں نے یا تو رُشد کی جانب رجوع کیا یا افغانستان چلے گئے۔ ملا فضل اللہ کی امارت کو طالبان کے زوال، تقسیم اور کنفیوژن کا زمانہ کہا جاسکتا ہے اور ان تمام عوامل کی وجہ سے پسپائی کا دور شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے۔ ریاست کی عسکری طاقت بھی مضبوط تھی اور بیانیہ بھی بہتر تھا۔گوریلا وار فئیر کا ایک سنہری اصول ہے کہ سویلین آبادی سے بنا کر رکھو۔ طالبان یہ اصول بھول گئے۔ انہوں نے قبائلی علاقے میں بھی بے گناہ لوگوں کو قتل کیا۔ جب مقامی آبادی ساتھ نہ ہو تو کوئی گوریلا جنگ کامیاب نہیں ہوسکتی۔ گوریلا سولجر کے لئے چھپنے کے محفوظ ٹھکانے ضروری ہوتے ہیں۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ ڈرون حملے کا محرک بھی مقامی مخبر ہوتا ہے اور طالبان پر ایسے بے شمار حملے ہوئے۔
آج کے معروضی حالات بہت مختلف ہیں۔ پاکستان میں پرامن طریقے سے ووٹ کے ذریعہ انتقال اقتدار ایک مرتبہ پھر ہونے جا رہا ہے۔ قبائلی علاقوں کے خیبرپختون خوا میں انضمام کا بل پاس ہو چکا ہے۔ پاکستان نے سوچ سمجھ کر افغانستان کے حوالے سے امریکی پالیسی کا حصہ بننے سے انکار کیا ہے۔ پاکستان کے عوام اسلام سے دلی محبت رکھتے ہیں لیکن انتہا پسندی کے سخت خلاف ہیں۔ وہ اپنی افواج کو سرحدوں کے دفاع کا ضامن سمجھتے ہیں۔ البتہ اس بات کا ادراک بھی ضروری ہے کہ انتہا پسندی کا خطرہ سو فیصد ختم نہیں ہوا۔ اس خطرے کو کم کرنے کے لئے ہمیں معاشی ترقی کی ضرورت ہے۔ تعلیم اور میرٹ کے نظام کی ضرورت ہے۔ انتہا پسندی کسی کے خون میں شامل نہیں ہوتی۔ ہمارا قبائلی نوجوان جو خلیجی ممالک میں کام کر رہا ہے وہ قطعاً انتہا پسند نہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں