"JDC" (space) message & send to 7575

مسائل، ان کا حل اور امکانات

ہم اکثر سنتے آئے ہیں کہ پاکستان نازک صورتحال سے گزر رہا ہے‘ پاکستان دو راہے پر کھڑا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف اقتصادی ترقی اور استحکام کے بلند بانگ دعوے ہیں تو دوسری چھلانگیں لگاتی ہوئی قیمتیں، چوراہوں پر بھکاریوں کے غول اور روپے کی گرتی ہوئی قدر۔ ہمسایوں کے ساتھ کشیدہ تعلقات کسی بھی ملک کی ترقی کو بریک لگا سکتے ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ نئی حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی پڑے گا۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ اور بجٹ خسارہ‘ دونوں ہی قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔ عوام کا سسٹم پر اعتماد بہت کم ہے اور سسٹم میں جمہوریت‘ سیاسی لیڈرشپ‘ بیوروکریسی، عدلیہ اور پولیس سب شامل ہیں۔ ہماری تعلیم کا معیار پستی کی طرف رواں دواں ہے۔ تین یونیورسٹیوں کو چھوڑ کر باقی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ جو ترقی ہم کرتے ہیںاسے آبادی کا جن ہڑپ کر جاتا ہے۔ 
پاکستان کے چار ہمسائے ہیں۔ انڈیا کے ساتھ ہمارے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ افغانستان کے ساتھ بھی باہمی کا فقدان ہے۔ ایران کے ساتھ سلسلہ ففٹی ففٹی ہے‘ کبھی نرم تو کبھی گرم۔ چین ہمارا وہ اکلوتا ہمسایہ ہے جس کے ساتھ تعاون میں سرگرمی بھی ہے اور تعلقات میں گرمجوشی بھی۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ یہ گرمجوشی لمبی مدت تک چلے گی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی ہمسایوں کے ساتھ روابط بہتر کرنیکا ہم خیال ہی ترک کر دیں۔ انڈیا اور افغانستان کے ساتھ ہماری سرحدیں ہزاروں میل لمبی ہیں۔ اچھے یا برے ہزاروں سال کے روابط بھی ہیں۔ ان دونوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا لازمی ہے‘ ورنہ پاکستان مؤثر قسم کی اور دیرپا اقتصادی ترقی نہیں کر سکے گا۔ ایران اور افغانستان کے ساتھ ہمارے تاریخی‘ لسانی اور روحانی تعلقات بھی ہیں۔ تجارت‘ دوستی‘ پائپ لائن تعاون ان رشتوں کے احیا میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
انڈیا کا رویہ پاکستان کے بارے میں احمقانہ حد تک سخت ہے۔ انڈیا کا خیال ہے کہ پاکستان ہمارے ساتھ سٹریٹیجک مسابقت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے یعنی پاکستان اپنا عسکری بجٹ انڈیا کو دیکھ کر بڑھاتا رہتا ہے۔ لیکن دونوں ممالک میں اقتصادی فرق بڑھ رہا ہے۔ مثلاً انڈیا کی برآمدات تین سو ارب ڈالر ہیں تو پاکستان کی محض بائیس ارب ڈالر۔ انڈیا کی شرح نمو سات فیصد سے اوپر ہے اور یہ سلسلہ 1992ء سے جاری ہے۔ دیگر ممالک سے انڈین ورکرز کی ترسیلات 69 ارب ڈالر ہیں تو پھر انڈیا کا دفاعی بجٹ اگر پینتالیس ارب ڈالر ہے تو یہ اخراجات اس کے لیے چنداں مشکل نہیں لیکن پاکستان کے لیے ساڑھے نو ارب کا دفاعی بجٹ برداشت کرنا ذرا مشکل ہے۔ ہمارا کرنٹ اکائونٹ خسارہ پندرہ ارب ڈالر ہے اور اگر اس میں بیرونی قرضوں کا سود بھی شامل کر لیں‘ جو پاکستان نے اس سال ادا کرنا ہے‘ تو ہمارا اس سال کا خسارہ پچیس ارب ڈالر ہے جس کا تصور کچھ زیادہ روح افزا نہیں۔ 
اب سوال یہ ہے کہ آیا انڈیا سے یکطرفہ دوستی ممکن ہے یا کیا ہمیں ہندوستان کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا چاہئیں۔ ایسا ہرگز ممکن نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انڈیا اور افغانستان کے ساتھ باہمی احترام کے رشتے کیسے قائم کیے جائیں۔ میرے خیال میں یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ ہم انڈیا اور افغانستان کو براستہ پاکستان تجارت کی اجازت دے دیں۔ اس سے پاکستان کو دو طرح کے فائدے ہونگے۔ اول: ہمیں بھاری محصولات ٹرانزٹ فیس کے ذریعے حاصل ہونگے۔ دوئم: انڈیا اور افغانستان کے مفادات پاکستان کے ساتھ امن سے منسلک ہو جائیں گے۔ لیکن اس کے باوجود دفاعی بجٹ یکدم کم نہیں کرنا چاہئے؛ البتہ کچھ عرصہ کے لیے فریز کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح جو وسائل بچیں وہ تعلیم اور صحت پر خرچ کیے جائیں اور بڑھتی آبادی کے بے لگام گھوڑے کو قابو کیا جائے۔
معاشی ترقی اور عوام کے لیے بہتر معیار زندگی ہماری ہر پالیسی کا محور ہونا چاہیے۔ پچھلے بجٹ میں یہ فیصلہ شامل تھا کہ میزانیے میں سالانہ خسارہ چار اعشاریہ ایک فیصد سے زائد نہیں ہو گا۔ وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کے مطابق پہلے گیارہ ماہ میں یعنی مئی 2018ء تک بجٹ خسارہ چھ اعشاریہ ایک فیصد تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ فیڈرل اور صوبائی حکومتیں 31 مئی تک چمکیلے اور بھڑکیلے منصوبوں پر دھڑادھڑ خرچ کرتی رہیں کہ ووٹرز کو خوش کرنا مقصود تھا۔ بلاشبہ کرپشن نے ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے‘ لیکن عمران خان کا یہ دعویٰ کہ اقتدار میں آ کر ایک دن میں کرپشن کو ختم کر دوں گا‘ حقیقت پسندی پر مبنی نہیں۔ اور یہ دعویٰ بھی کہ پی ٹی آئی کے پاور میں آنے کے بعد بیرون ملک پاکستانی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرینگے۔ باہر سے سرمایہ کاری تب آتی ہے جب سرمائے کو مکمل تحفظ حاصل ہو‘ جدہ یا میڈرڈ میں بیٹھے پاکستانی کو یہ خوف نہ ہو کہ اس کے خریدے ہوئے پلاٹ پر کوئی قبضہ کر لے گا اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہے گی۔ بڑا سرمایہ کار تحفظ کے علاوہ منافع چاہتا ہے اور منافع کا دارومدار اس بات پر ہے کہ معیشت مضبوط ہو۔ یہ طویل مدتی صائب پالیسی پر منحصر ہے جو چلتے چلتے تبدیل نہ ہو۔ اگلی حکومت کو چاہئے کہ پلاننگ کمیشن کو سیاسی مداخلت سے آزاد کر دے۔
ہمارے عوام کا نظام پر اعتماد بہت کم ہے۔ اس اعتماد کو بڑھانے کے لیے جوڈیشل ریفارمز اور پولیس ریفارمز‘ دونوں ضروری ہیں۔ اگلے روز انگلینڈ سے آئے ہوئے ایک بیرسٹر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے کہ مغربی ممالک میں اب کئی مقدمے آن لائن لڑے جاتے ہیں‘ کیا ہمارے ہاں یہ نہیں ہو سکتا‘ یہ جو ہزاروں لوگ روزانہ کچہریوں کے چکر کاٹ کر اپنا وقت ضائع کرتے ہیں یہ تو ختم ہو جائے۔ اگر لوگوں کو معلوم ہو کہ ہر تقرری اور ہر کیس کا فیصلہ میرٹ پر ہو گا تو ہماری سفارش کروانے والی عادت کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔ محروم طبقات بھی سسٹم سے توقعات وابستہ کر لیں گے۔ سوسائٹی میں ایک مثبت تبدیلی آئے گی۔ ایک زمانے میں ہماری اعلیٰ عدلیہ کے کئی جج بیوروکریسی سے آتے تھے۔ اس وقت ہماری بیوروکریسی آزاد‘ اور بے حد ذہین لوگوں پر مشتمل تھی۔ جسٹس کارنیلیس اور جسٹس کیانی اس عدلیہ کے تاج میں نگینوں کی طرح چمکتے تھے۔ کیا اب نہیں ہو سکتا کہ اعلیٰ عدلیہ کے کم از کم پچاس فیصد جج لوئر عدلیہ سے لئے جائیں۔ سیشن جج حضرات ایک مقابلے کے امتحان میں بیٹھیں۔ ہر ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحب ایک کمیٹی کے سربراہ کے طور پر انٹرویو کریں‘ پچھلے کیریئر پر نظر ڈالیں اور پھر تقرری ہو۔ افواج پاکستان کے اعلیٰ پروفیشنل معیار کی ایک بڑی وجہ شفاف پروموشن پالیسی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپرسیڈ ہونے والے افسر بھی خوش دلی سے بورڈ کے فیصلے قبول کرتے ہیں۔ 
آج کے دور میں کوئی قوم اچھی تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔ انڈیا اور بنگلہ دیش کو اس بات کا ادراک ہے۔ ہمارے ہاں 2016ء میں سب سے اچھی یونیورسٹی نسٹ قرار پائی تھی مگر عالمی رینکنگ میں اس کا نمبر پانچ سو ایک نمبر تھا۔ تین چار قسم کے نظامِ تعلیم ہمارے ہاں متوازی چل رہے ہیں۔ اس طرح ہم ایک قوم کیسے بن سکتے ہیں۔ انگریزی سکول والے کو درست اردو نہیں آتی‘ اردو میڈیم والا انگلش ٹھیک طرح نہیں بول سکتا اور احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ پھر مدارس کے طلبا ہیں۔ کیا ہی خوب ہو کہ حکومت ہر سال ایک شفاف ٹیسٹ کے ذریعے دینی مدارس کے لائق فائق بچوں کو ووکیشنل سکولوں میں داخلہ مع سکالر شپ دے۔ اگر ایک امام مسجد الیکٹریشن کا کام بھی جانتے ہوں تو یہ انکے لیے اضافی انکم کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔
اگر پاکستان نے واقعی ترقی یافتہ قوم بننا ہے تو ہمیں کم از کم دو عشروں کے لیے سات فیصد یا اس سے زائد شرح نمو چاہئے۔ اس کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری درکار ہے اور سرمایہ تب آئے گا جب سرحدوں پر امن ہو گا‘ اور ملک کے اندر بھی۔ ہمیں اپنے جغرافیے کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ہم چین کو خلیجی ممالک اور افریقہ کے لئے راہداری دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ خلیجی ممالک سے بڑی مقدار میں تیل گوادر اور پھر پائپ لائن کے ذریعے چین جائے گا۔ اسی طرح ایران کی گیس پاکستان کے ذریعے انڈیا جا سکتی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی ممبر شپ کے نتیجے میں انڈیا ہم سے افغانستان اور سنٹرل ایشیا کے لیے راہداری مانگے گا اور ہمیں انڈیا کے اس مطالبے پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے کہ اس میں ہمارا فائدہ ہو سکتا ہے چین پہلے ہی پاک افغان تعلقات میں بہتری کے لیے کوشاں ہے۔ اب بڑے مسائل کے حل کے لیے بڑے فیصلے کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں