"JDC" (space) message & send to 7575

سیاسی جماعتوں کے منشور اورخارجہ پالیسی

جمہوری ممالک میں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور الیکشن سے بہت پہلے ووٹر تک پہنچا دیتی ہیں مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ جولائی کا آغاز ہوا تو بڑی جماعتوں کے منشور آنے لگے۔ ان سب کتابچوں میں فارن پالیسی کا ذکر آخر میں آیا ہے حالانکہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ‘ فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی گرے لسٹ سے پاکستان کو نکالنے کی سٹریٹیجی، مسئلہ کشمیر، انڈیا کے ساتھ پانی کے مسائل اور ان کا حل، دنیا میں پاکستان کے امیج کا مسئلہ، نان سٹیٹ ایکٹرز سے متعلق ہمارا مؤقف سب اہم مسائل ہیں اور فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ میں نے تین بڑی جماعتوں یعنی پی ٹی آئی‘ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے منشور خارجہ پالیسی کے حوالے سے غور سے پڑھے ہیں۔ ان میں سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ فارن پالیسی کے حوالے سے ماضی کے سحر میں قید ہیں۔ پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی خارجہ امور میں کامیابیاں ذوالفقار علی بھٹو کی مرہون منت ہیں اور یہ بات خاصی حد تک درست بھی ہے لیکن پارٹی منشور میں پدرم سلطان بود جیسے افکار کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ آپ سیدھا سیدھا بتائیں کہ اگلے پانچ سال میں آپ کا ایجنڈا کیا ہو گا۔ آپ کی خارجہ پالیسی کے اہداف کیا ہوں گے اور آپ ان اہداف کو کیسے حاصل کریں گے۔ اس ضمن میں پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان کا اقوامِ عالم میں کھویا ہوا وقار بحال کریں گے اور یہ بہت ہی مبہم سی بات ہے۔ آپ نے پاکستان کے وقار کو بحال کرنے کا کوئی روڈ میپ نہیں دیا‘ وہ اقدامات نہیں بتائے جو آپ کریں گے اور پاکستان کی ساکھ بحال ہو جائے گی۔
خارجہ امور کے باب میں مسلم لیگ کا کہنا ہے کہ ملک میں امن بحال کرکے اور معاشی ترقی براستہ سی پیک کرکے ہم نے اقوام عالم میں پاکستان کا قد کاٹھ بڑھایا ہے۔ مجھے یہ دونوں کلیم مشکوک لگتے ہیں۔ ملک میں امن بحال کرنے کا کریڈٹ تو مسلح افواج کو جاتا ہے‘ جو بہرحال حکومت کا حصہ ہیں‘ لیکن سی پیک کی بنیاد مسلم لیگ حکومت آنے سے پہلے رکھی جا چکی تھی۔ 2013ء میں اگر پی ٹی آئی کی حکومت آجاتی تو بھی سی پیک کے منصوبے بننے تھے کیونکہ یہ بڑا پراجیکٹ دو ممالک کے درمیان ہے۔ سیاسی جماعتوں یا شخصیات کے مابین نہیں۔
تینوں جماعتوں میں سے صرف پی ٹی آئی نے فارن سروس اور فارن آفس میں اصلاحات کی بات کی ہے۔ فارن آفس میں ایک نیشنل سکیورٹی آرگنائزیشن ہو گی‘ جو خارجہ سکیورٹی کے حوالے سے پارلیمنٹ اور وزارتِ دفاع سے رابطے میں رہے گی تا کہ گزرتے وقت کے تقاضوں کے مطابق فارن پالیسی میں ردوبدل ہوتا جائے۔ فارن سروس کے حوالے سے پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ موجودہ دور اختصاص کا زمانہ ہے اور فارن سروس کے افسروں کی ٹریننگ میں سپیشلائزیشن کا عنصر لانا نہایت ضروری ہے‘ اور میں اس ضمن میں پی ٹی آئی کی سوچ سے متفق ہوں۔
تمام اہم سیاسی جماعتوں کے منشور کہتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد ہونی چاہئے‘ یعنی ہمیں کسی ملک کے دبائو میں نہیں آنا چاہئے۔ یہ بات اصولی طور پر بہت اچھی ہے لیکن کیا اپنے ہاتھوں میں کنگ سائز کشکول لے کر پھرنے والا ملک آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کر سکتا ہے؟ اس کشکول کو کنگ سائز بنانے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ دونوں کا ہاتھ ہے۔
اگلے روز پی ٹی وی نے اسی موضوع پر گرینڈ دیبیٹ کا اہتمام کیا۔ چار سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ (ن)‘ ایم ایم اے‘ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے نمائندوں نے اپنی اپنی پارٹی کا خارجہ پالیسی کے حوالے سے موقف پیش کیا۔ مسلم لیگ کے سینیٹر جنرل عبدالقیوم نے کہا کہ ہم نے کامیاب خارجہ پالیسی چلائی ہے۔ امریکہ نے پاکستان سے بے رخی اختیار کی تو ہماری حکومت نے روس کے ساتھ تعلقات استوار کئے‘ مسلم لیگی حکومت نے ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھا۔
سیاسی جماعتوں میں سے ایم ایم اے کے نمائندے عبدالغفار عزیز پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے اور وہ گفتگو بھی خوب مدلل کرتے ہیں۔ کہنے لگے کہ اول تو پاکستان کی کوئی خارجہ پالیسی ہے ہی نہیں اور جو ہے وہ خوف‘ یا پھر لالچ پر مبنی ہے۔ پی ٹی آئی کے عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بے شمار قربانیوں کے باوجود انٹرنیشنل لیول پر کوئی ہمارا بیانیہ سننے کو تیار نہیں اور یہی بات پیپلزپارٹی کے بیرسٹر عامر حسن نے بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی کو عوام میں لانے کا کام ذوالفقار علی بھٹو نے کیا۔ عمر چیمہ نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی معذرت خواہانہ ہے‘ ہم اسے آزاد بنائیں گے۔
سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے سوال کرنے کے لئے پی ٹی وی نے سات ماہرین کو بلایا ہوا تھا جو یہ تھے: شوکت پراچہ، عامر رانا، ڈاکٹر ظفر نواز جسپال، ڈاکٹر رفعت حسین‘ ایمبیسڈر شاہد کیانی‘ احمد قریشی اور راقم الحروف۔ سب سے پہلا سوال ڈاکٹر رفعت حسین نے پی ٹی آئی سے کیا کہ آپ اقتدار میں آکر مسئلہ کشمیر کیسے حل کرائیں گے؟ عمر چیمہ کا جواب تھا کہ کشمیر کے مسئلہ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرایا جائے گا۔ شوکت پراچہ کا سوال تھا کہ ہماری فارن پالیسی کی اونرشپ کس کے پاس ہے۔ ساتھ ہی عامر رانا نے پوچھا کہ نان سٹیٹ ایکٹرز ہماری خارجہ پالیسی کو متاثر کرتے ہیں‘ آپ یہ مسئلہ کیسے ہینڈل کریں گے۔ جنرل قیوم کا جواب تھا کہ پاکستان کے حساس محلِ وقوع اور مشرقی اور مغربی سرحدوں پر صورت حال کی وجہ سے فارن پالیسی میں عسکری ادارے کی اِن پُٹ ضروری ہے۔ امریکہ میں بھی فارن پالیسی کی تشکیل میں پینٹاگون یعنی وزارت دفاع کا مشورہ شامل ہوتا ہے؛ البتہ نان سٹیٹ ایکٹرز کے بارے میں ان کا جواب گول مول تھا۔ اس حوالے سے سب سے کلیئر موقف پیپلزپارٹی کا ہے کہ ہماری حکومت غیر ریاستی مسلح گروپ برداشت نہیں کرے گی۔ یہ اور بات کہ اپنے دورِ حکومت میں انہوں نے اس ضمن میں کوئی ٹھوس کام نہیں کیا۔
سینیٹر جنرل قیوم سے پوچھا گیا کہ آپ کی حکومت نے چار سال وزیرِ خارجہ کیوں نہیں لگایا اور مولانا فضل الرحمن کو ہی کشمیر کمیٹی کا ہیڈ کیوں رکھا گیا؟ جنرل صاحب کا جواب تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی پانچ سال خارجہ امور کا قلمدان اپنے پاس رکھا تھا۔ لیکن یہ کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا کیونکہ بھٹو صاحب اور میاں صاحب کی خارجہ امور میں صلاحیت اور قابلیت میں بہت فرق ہے۔ اور ایم ایم اے کے نمائندہ کو اس بات کا اقرار کرنا پڑا کہ کشمیر کمیٹی کی قیادت کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کی مناسبت سے مقبوضہ کشمیر میں بھی سوال اٹھائے گئے ہیں۔
اور اب آتے ہیں اس سوال کی جانب جو میں نے پوچھا اور پی ٹی وی نے اسے ایڈیٹ کرکے مکمل طور پر غائب ہی کر دیا۔ میں نے پروگرام شروع ہونے سے پہلے ہی پوچھا تھا کہ اگر کوئی مشکل اور چبھتے ہوئے سوال پوچھے جائیں تو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا جواب ملا کہ عبوری حکومت ہے لہٰذا پی ٹی وی مکمل آزاد ہے۔ میرا سوال مسلم لیگ نون سے تھا کہ نان کیریئر سفیروں کا کوٹہ بیس فیصد ہے۔ چند سال پہلے آپ نے قطر میں ایک بینکار کو سفیر لگایا۔ چند ماہ پہلے واشنگٹن میں ایک ناتجربہ کار نوجوان کو بطور سفیر متعین کیا۔ کئی فوجی جرنیل ریٹائرمنٹ کے بعد سفیر لگا دیئے گئے۔ قیوم صاحب کا جواب تھا کہ فوج سے ریٹائر ہونے والے افسر بھی اچھے سفیر ثابت ہو سکتے ہیں مثلاً صاحبزادہ یعقوب خان‘ اور بزنس مین بھی اچھے نتائج لا سکتے ہیں۔ اگلے روز پروگرام چلا تو میرا سوال ہی غائب تھا۔ پہلے تو مجھے غصہ آیا پھر سوچا کہ ان کا بھی کیا قصور ہے۔ میں نے خواہ مخواہ انہیں مشکل میں ڈالا لیکن کیا کہا جائے کہ بقول اقبال
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
ایک زمانے میں ہماری فارن سروس ایسی شاندار تھی کہ انڈیا والے بھی رشک کرتے تھے۔ اب بدقسمتی سے وہ بات نہیں رہی۔ ہمیں پھر سے ایک قابل اور مستعد فارن سروس کی ضرورت ہے۔ صرف تین کام کر لیں‘ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔ فارن الائونس پر باقاعدگی سے نظرثانی ہونی چاہئے اور یہ کسی صورت بھی انڈیا سے کم نہیں ہونا چاہئے۔ فارن آفس اپنے کم از کم پندرہ افسروں کو انٹرنیشنل لائ، واٹر ایشوز، ماحولیات، اکنامک ڈپلومیسی اور انٹرنیشنل تجارت جیسے موضوعات میں پی ایچ ڈی کے لئے اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں باہر بھیجے اور بیس فیصد نان کیریئر سفیروں کا کوٹہ ختم کر دیا جائے کہ یہ گویا اکثر ممالک بشمول انڈیا ختم کر چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں