"JDC" (space) message & send to 7575

ترک امریکی تعلقات میں بحران

2016ء سے ترک امریکی تعلقات بحران کا شکار ہیں۔ حال ہی میں دو طرفہ تعلقات میں مزید ابتری دیکھنے میں آئی ہے۔ پچھلے ہفتے ترکی کے صدر طیب رجب اردوان نے نیویارک ٹائمز میں چھپنے والے اپنے کالم میں لکھا ہے ''موجودہ حالات میں ‘جبکہ دنیا پر ہر طرح کے خطرات کے خلاف یک طرفہ اقدامات سے امریکہ کے اپنے مفادات کو ٹھیس پہنچے گی۔ امریکہ عشروں سے ترکی کا حلیف ہے۔ پیشتر اس کے کہ زیادہ دیر ہو جائے امریکہ کو اس خام خیالی سے نکل جانا چاہئے کہ یہ ایک بڑے اور ایک چھوٹے ملک کے تعلقات کا معاملہ ہے۔ اُسے اس بات کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ ترکی کے پاس متبادل موجود ہیں‘‘۔
صدر ٹرمپ نے ترکی کے ساتھ بھی تجارتی جنگ شروع کر دی ہے۔ ترکی امریکہ کو ایلومینیم اور فولاد ایکسپورٹ کرتا ہے۔ امریکہ نے ترکی سے ایلومینیم کی درآمد پر 20فیصد اور فولاد کی درآمد پر 50فیصد ڈیوٹی عائد کر دی ہے۔ اس کا جواب بڑھ کر دیا گیا ہے کہ امریکی کاروں پر 140 فیصد اور امریکی شراب کی درآمد پر 120 فیصد ٹیرف لگا دیا گیا ہے۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ اس تجارتی جنگ میں زیادہ نقصان ترکی کا ہو رہا ہے‘ کیونکہ ترکش لیرا کی دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں قدر گری ہے۔ صدر اردوان نے ترکی شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے ڈالر لیرا میں تبدیل کروائیں ‘تا کہ قومی کرنسی کو سہارا ملے۔
جولائی 2016ء میں ترکی میں ناکام فوجی بغاوت ہوئی اور یہ ناکام اس لئے ہوئی کہ عوام نے سویلین حکمرانوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ وہ صدر اردوان سے ان کی پرفارمنس کی وجہ سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے عہد حکومت میں ترک عوام کا معیار زندگی بلند ہوا ہے۔ اکتوبر 2016ء میں ترک حکومت نے ازمیر میں مقیم ایک امریکی پادری کو گرفتار کر لیا۔ اس کا نام انڈریو برون سن Andrew Brunson ہے۔ اس پادری پر الزام ہے کہ اُس کے فتح اللہ گولن کی تنظیم کے ساتھ روابط تھے۔
ہو سکتا ہے کہ فتح اللہ گولن اور اس کی تنظیم کے بارے میں آپ مجھ سے بہتر جانتے ہوں۔ فتح اللہ گولن نے آغاز تو مذہبی رہنما کے طور پر کیا تھا‘ لیکن آج کل ان کے خیالات خاصے لبرل ہیں۔ شروع میں ان کی طیب اردوان سے خاصی گاڑھی چھنتی تھی‘ لیکن بعد میں اختلافات ہو گئے۔ فتح اللہ گولن نے تعلیم کے میدان میں خاصا کام کیا ہے۔ ہمارے ہاں پاک ترک سکول نظام بھی گولن سے ذہنی طور پر وابستہ تھا۔ 2016ء کی ناکام بغاوت کے بعد اکثر ترکی ٹیچر پاکستان سے جا چکے ہیں۔ صدر اردوان کو یقین ہے کہ ناکام انقلاب گولن کے حامیوں نے برپا کیا تھا۔ فتح اللہ گولن 1999ء سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ ترکی حکومت امریکہ سے ان کی واپسی کا مسلسل مطالبہ کرتی رہی ہے ‘لیکن امریکہ نے ایک نہیں سنی۔ اس طرح سے گولن کا معاملہ دو طرفہ تعلقات میں مسلسل بدمزگی کا سبب بنا ہوا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والے کالم میں کچھ عرصہ پہلے گولن نے کہا تھا کہ ترکی میں شخصی آزادیوں کو خطرہ ہے۔ ترکی جمہوریت کے راستے سے ہٹ رہا ہے۔ ترکی کو نئے جمہوری آئین کی ضرورت ہے۔ یادرہے کہ صدر اردوان نے الیکشن میں کامیابی کے بعد اپنے اختیارات میں اضافہ کر لیا تھا۔ گولن کے خیال میں اردوان ڈکٹیٹر شپ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ فتح اللہ گولن نے اپنے کالم میں یہ بھی لکھا کہ ترکی کے نصاب تعلیم کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ طالب علموں کو آزادیٔ فکر اور سوال پوچھنے کی تربیت دینی چاہئے۔ جمہوریت میں فرد کو اپنے حقوق کا بخوبی ادراک ہونا چاہئے۔ گولن کی رائے ہے کہ ترکی میں چیک اینڈ بیلنس ختم ہو رہے ہیں اور اقلیتوں کے حقوق خطرے میں ہیں۔ اگر امریکہ فتح اللہ گولن کو ترکی روانہ کرنے سے انکاری ہے‘ تو ترکی نے بھی امریکی پادری کو رہائی دینے سے معذرت کر لی ہے۔ گویا دونوں ممالک ایک دوسرے کو ترکی بہ ترکی جواب دے رہے ہیں۔ صدر اردوان نے الزام لگایا ہے کہ امریکہ اپنے پرانے اتحادی کی پشت میں چھرا گھونپ رہا ہے۔
ذرا غور سے دیکھیں‘ تو ترک امریکہ ٹینشن کی بیک گرائونڈ بھی ہے۔ 2003ء میں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا‘ تو ترکی سے کہا تھا کہ وہ عراقی سرحد کے پاس ایک ہوائی اڈہ امریکی ایئر فورس کو استعمال کرنے کی اجازت دے دے‘ لیکن ترکی نے انکار کر دیا تھا۔ اسی طرح جب شام اور عراق کے بڑے علاقے پر داعش نے قبضہ کر لیا‘ تو امریکہ نے شامی کردوں کی سپورٹ حاصل کرلی ‘تا کہ مل کر داعش کا صفایا کا جا سکے۔ سپر پاور سے تعلقات استوار ہو جانے سے کردوں کے حوصلے بلند ہوئے اور وہ اپنی علاقائی خود مختاری کے لیے کام کرنے لگے۔ ترکی نے ایک عرصے سے کرد تنظیم پی کے کے PKK کو دہشت گردوں کی لسٹ میں رکھا ہوا ہے۔ ترکی کا کافی عرصے سے خیال ہے کہ پی کے کے کو شامی کردوں سے مدد ملتی ہے۔ دوسری جانب شامی کرد امریکہ کے حلیف بن گئے۔
امریکی پالیسی کی وجہ سے ترکی اور روس کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ روس نے اعلان کیا ہے کہ ترکی کے ساتھ تجارت میں لیرا اور روبل ادائیگیوں کے لئے ڈالر کی متبادل کرنسیاں ہو سکتی ہیں۔ قطر نے اعلان کیا ہے کہ وہ ترکی میں پندرہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ تجارت بڑھانے کے لیے ترکی نے فرانس ‘ جرمنی اور کویت سے بھی رجوع کیا ہے۔ یورپ کے ساتھ تجارت میں ڈالر کی بجائے یورو کو بطور کرنسی استعمال کیا جائے گا۔ یہ تمام اقدامات ترکش لیرہ کی قدر کو سہارا دینے کے لیے ہو رہے ہیں۔ 
آپ کو یاد ہو گا کہ چند سال پہلے ترکی اور روس شام کی سول وار میں ایک دوسرے کے حریف تھے۔ ترکی نے بارڈر پر پرواز کرنے والا ایک روسی فوجی طیارہ مار گرایا تھا۔ یہ واقعہ شمالی شام میں پیش آیا تھا‘ جہاں ترکی نسل کے ترکمان آباد ہیں۔ ترکی اور روس میں تلخی بہت بڑھ گئی تھی‘ مگر اب یہ پھر ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں ۔ لگتا ہے کہ ترکی نے بھی ذہنی طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ اب بشار الاسد کو ہی شام کا لیڈر رہنا چاہئے۔ ادھر امریکہ نے بھی شام کا میدان عملاً روس کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہے۔ لہٰذا شام میں ترک امریکی اختلاف صرف کردوں تک محدود ہے۔ اور کرد علاقے میں بھی امریکہ اور ترکی نے اپنے اپنے اثر و رسوخ کے حصے بانٹ لئے ہیں۔
عمران خان نے 14 اگست کو امریکہ سے چپقلش کے معاملے میں ترکی سے مکمل یک جہتی کا اعلان کیا۔ ٹویٹر کے ذریعہ بھیجے گئے پیغام میں خان صاحب نے کہا کہ پاکستان کے عوام اور میں خود ترکی کے عوام اور صدر اردوان کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اقتصادی چیلنج کی اس مشکل گھڑی میں ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ اپنی مشکلات پر قابو پا لیں گے۔ جیسا کہ آپ اپنی شاندار تاریخ میں پہلے کر چکے ہیں۔
ترکی واحد مسلمان اور ایشیائی (97 فیصد‘ایریا ایشیا میں) ملک ہے‘ جو نیٹو کا ممبر ہے ۔ترکی ایشیا اور یورپ کے درمیان پُل ہے۔ امریکہ کا ترکی کے خلاف اقتصادی ہتھیار کا استعمال خطرناک پیش رفت ہے ۔ ترکی نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اس بات کا ایک تازہ ترین ثبوت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس کے دوران ترکی کا سٹینڈ تھا۔ ترکی اور پاکستان دونوں کو امریکہ کے سخت رویے کا سامنا ہے۔ دونوں کو بڑے اقتصادی چیلنج پیش ہیں۔ ان مشکل حالات میں باہمی مشورے اور بھی ضروری ہو گئے ہیں۔

ترکی واحد مسلمان اور ایشیائی ملک ہے‘ جو نیٹو کا ممبر ہے ۔ترکی ایشیا اور یورپ کے درمیان پُل ہے۔ امریکہ کا ترکی کے خلاف اقتصادی ہتھیار کا استعمال خطرناک پیش رفت ہے ۔ ترکی نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اس بات کا ایک تازہ ترین ثبوت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس کے دوران ترکی کا سٹینڈ تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں