"JDC" (space) message & send to 7575

حق مغفرت کرے

سابق سفیر نذر عباس چند روز قبل راہیٔ ملک عدم ہوئے۔ لمبے عرصے سے بیمار تھے۔ کئی قسم کے عارضے لاحق تھے۔ گزشتہ چند سال ہسپتالوں اور گھر کے درمیان چکر لگانے میں بسر ہوئے۔ گھر آتے تو فون ضرور کرتے۔ میں ملنے جاتا تو ڈاکٹر کے مشورے کے برعکس لمبی باتیں کرتے۔ وہ بے شمار دوستوں کو سوگوار چھوڑ گئے ہیں۔ نذر عباس فرزند پوٹھوہار تھے، اور سو فیصد میڈ ان پاکستان تھے۔ بہت ہی محبِ وطن۔ مخلص دوست اور عمدہ سفارت کار تھے۔ نذر عباس کا تعلق ضلع چکوال کے ایک دور افتادہ گائوں کڑاہی سے تھا۔ میری طرح ایک مڈل کلاس فیملی میں پیدا ہوئے۔ گائوں میں نہ بجلی تھی اور نہ ہی وہاں پکی سڑک جاتی تھی۔ اخبار تک وہاں نہیں پہنچتا تھا۔ نذر عباس کے والد سکول ٹیچر تھے اور تعلیم کی اہمیت سے واقف تھے۔ انہوں نے راولپنڈی کے ایک سکول میں جاب کر لی اور بچوں کو شہر لے آئے، لیکن گائوں سے رشتہ قائم رکھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں پوری فیملی گائوں چلی جاتی۔ چھٹیوں میں مویشی چرانا اور ساتھ ساتھ درسی کتب کا مطالعہ نذر عباس کے فرائض میں شامل تھا۔ فطرت سے یہ رابطہ تمام عمر انکی شخصیت کا جزو رہا۔
ان کے پاس دیہاتی زندگی کے حُسن، دیہی باسیوں کی سادگی کے بے شمار قصے تھے۔ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ ہمارے ہاں دیہاتی مسجد کے قریب سے گزرتے وقت احتراماً مسجد کی دیوار کو ضرور چھوتے ہیں۔ ان کے گائوں سے کوئی شخص راولپنڈی ایک دو روز کے لیے گیا۔ گائوں میں عموماً ایک مسجد ہوتی ہے جبکہ شہروں میں متعدد مساجد ہوتی ہیں۔ دو روز کے بعد جب یہ شخص واپس گائوں آیا تو یار لوگوں نے پوچھا کہ راولپنڈی کیا کرتے رہے۔ دیہاتی نے جواب دیا :کرنا کیا تھا، مسجدیں اتنی تھیں کہ میں صبح سے شام تک انہیں ہاتھ لگاتا رہا۔
ریٹائر ہونے کے بعد اپنے بچپن اور دیہاتی زندگی کے بارے میں نذر عباس نے فرائیڈے ٹائمز میں کالم لکھے جو بہت پسند کئے گئے۔ اب اخبار والوں کی فرمائش تھی کہ اپنی سفارتی زندگی کے بارے میں بھی مضامین لکھیں چنانچہ یہ فرمائش بھی پوری کر دی گئی۔ جب اچھے خاصے مضامین جمع ہو گئے تو انہیں کتاب کی شکل دے دی گئی۔ یہ کتاب تین چار سال پہلے Memoirs of an Ambassador of pakistan یعنی ایک پاکستانی سفیر کی یادداشتیں کے ٹائٹل سے نشر اور خاصی مقبول ہوئی۔ نذر عباس کا اسلوب ہلکا پھلکا اور آسان ہے، کئی مقامات پر ان کی حسِ مزاح جھلکتی ہے۔
جہلم اور چکوال کی سر زمین کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ علاقہ صرف کڑیل جوان اور بہادر فوجی ہی پیدا کرتا ہے لیکن اسی ایریا نے عبدالخالق کو بھی جنم دیا، جو اپنے عہد کا ایشیا کا تیز ترین ایتھلیٹ تھا۔ بھارت کے دو وزیراعظم اے کے گجرال اور ڈاکٹر منموہن سنگھ بھی اسی خطّے سے تھے۔ نذر عباس کا تعلیمی کیریئر شاندار تھا۔ گورڈن کالج راولپنڈی سے بی ایس سی کی اور پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ریاضی میں ایم ایس سی کی۔ پنڈی کے وقار النساء کالج میں لڑکیوں کو فزکس اور ریاضی پڑھائی اور پھر سی ایس ایس کا امتحان دے کر فیڈرل گورنمنٹ کے افسر بنے۔ میں نے ایک دفعہ پوچھا کہ حضرت آپ لڑکیوں کے کالج میں کیسے پہنچ گئے۔ ہنس کر کہنے لگے :میرے بارے میں مشہور تھا کہ نہایت شریف آدمی ہوں لہٰذا اس امر کی تصدیق کے بعد مجھے بے ضرر سمجھ کر لڑکیوں کے کالج میں تدریس کا کام دیا گیا۔
موصوف مستند شریف ضرور تھے لیکن بد ذوق نہ تھے۔ ہوا یوں کہ جب وہ کالج کی تدریس چھوڑ کر اسلام آباد میں افسری کرنے لگے تو ان کے ایک دوست ان کے پاس ایک نہیں دو بہنوں کا رشتہ لے کر آئے۔ اتفاق سے دونوں وقار النساء کالج میں ان کی شاگرد رہی تھیں۔ نذر عباس نے نگار بھابھی کا انتخاب کیا۔ نگار نذر پاکستان بلکہ عالمِ اسلام کی پہلی خاتون کارٹونسٹ ہیں۔ گوگی کے نام سے انکا مشہور کارٹون برسوں پاکستان کے اخباروں میں چھپتا رہا۔ دہشت گردی کے خلاف انہوں نے سکول کے بچوں کے لیے بہت دلچسپ کتابچے ترتیب دیئے۔ وہ عالمی شہرت رکھتی ہیں۔ 2002ء میں انہیں امریکہ میں فل برائٹ پروفیسر کے طور پر آرٹ کے بارے اوریگان یونیورسٹی University of Oregon میں لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا گیا۔ چند سال پہلے بی بی سی نے انہیں عالمی سطح پر موثر یک صد خواتین کی فہرست کے لیے نامزد کیا۔
لیکن میرے لیے نگار نذر کی پہچان ایک اعلیٰ کارٹورنسٹ سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ اپنے کام کے ذریعے معاشرے کو برداشت کا پیغام مسلسل دیتی نظر آتی ہیں۔ وہ حقوق نسواں کی بھرپور داعی ہیں۔ اپنے مرحوم شوہرِ نامدار کی طرح انہیں پاکستان سے بے پناہ محبت ہے۔ ان کے ہاتھ کا بنا ہوا قائداعظم کا پورٹریٹ آج بھی پاکستانی قونصلیٹ بریڈ فورڈ کی زینت ہے۔ وہ اپنے شوہر کے سفارتی کیریئر میںانکے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہیں۔ سفارت کاری میں سفیر کی نصف بہتر اگر فعال خاتون ہو تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔ نذر عباس مرحوم کی کامیاب سفارت کاری میں اُن کی بیگم کا رول واضح طور پر جھلکتا ہے۔
نذر عباس جیسے ذہین اور محنتی لوگ اپنی قابلیت کی بنیاد پر ترقی کی سیڑھی چڑھتے گئے۔ ایسا اس لئے ممکن ہوا کہ برطانوی حکومت برصغیر میں اچھے تعلیمی ادارے چھوڑ کر گئی۔ اچھی سروسز کے حصول کے لیے میرٹ کا نظام وضع کیا۔ اتنی ترقی کے باوجود نذر عباس کی طبیعت میں سادگی تھی۔ پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہے کہ ہم دونوں فارغ البال ہو چکے تھے۔ میں نے ایک روز کہا کہ آئیے کسی اچھے سے کاسمیٹک سرجن کے پاس چلتے ہیں۔ بال لگوانے۔ دونوں اکٹھے بال لگوائیں گے تو ممکن ہے کہ رعایت مل جائے۔ جواب ملا کہ قدرت کے کاموں میں دخل اندازی ٹھیک نہیں۔ چند سال اور گزر گئے تو میں نے کہا کہ اب تو نواز شریف اور شہباز شریف نے بھی بال لگوا لئے ہیں تو گویا ہوئے کہ مجھے تصنع پسند نہیں۔ نذر عباس پابندِ صوم و صلوٰۃ تھے۔ سروس ختم ہونے سے پہلے چھوٹی چھوٹی داڑھی بھی رکھ لی تھی۔ اسلام آباد میں سابق سفراء کی ایسوسی ایشن ہے۔ ہماری ماہانہ میٹنگ ہوتی ہے جس میں انٹرنیشنل افیئرز اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے اہم موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔ اس میٹنگ کا آغاز اکثر نذر عباس کی تلاوت اور ترجمے سے ہوتا تھا۔
مرحوم کی بطور سفیر آخری پوسٹنگ رومانیہ میں تھی۔ رومانیہ میں ہمارا سفیر مالدووا کا بھی انچارج ہوتا ہے۔ مالدووا میں نبیزWine بڑے پیمانے پر کشید ہوتی ہے۔ وائن کے ہزاروں بیرل زیر زمین سرنگوں میں سٹور کئے جاتے ہیں۔ وہاں کی حکومت ہر سال سفراء کی دعوت کرتی ہے اور انہیں اچھی سے اچھی لولکل وائن پیش کرتی ہے۔ مقصد اپنے بڑے آئٹم کی مشہوری ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک ایکسپورٹ دعوت میں مالدووا کے صدر وائن کا جام لیکر ایمبیسیڈر نذر عباس کی طرف آئے اور انہیں وائن نوش کرنے کی دعوت دی۔ سفیرِ پاکستان کا جواب تھا کہ ایکسیلنس آپکی دعوت میرے لئے باعث فخر ہے مگر میں شراب نہیں پیتا۔ 
مرحوم نے ترکی ، لیبیا، موزمبیق، آسٹریلیا، کرغستان اور رومانیہ میں پاکستان کی بھرپور سفارتی نمائندگی کی۔ برطانیہ کے شہر بریڈفورڈ میں پاکستان کے قونصل رہے۔ ہر جگہ نام کمایا، بہت سارے دوست چھوڑے۔ مرحوم کی رسم قل امام بارگاہ صادقؓ میں منعقد ہوئی۔ ہر مسلک کے لوگ وہاں موجود تھے۔ مرحوم کی بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے اپنا مسلک چھوڑا نہیں اور دوسروں کے مسالک کو چھیڑا نہیں۔ پانچ چھ سال پہلے انکے بیٹے نمیر کی شادی ہوئی ،میں وہاں مدعو تھا۔ مجھے انہوں نے بتایا کہ بیٹے کی شادی سُنی فیملی میں ہوئی ہے۔
1947ء میں جب پاکستان بنا تو نذر عباس پہلی کلاس میں تھے۔ وطنِ کی محبت انکی رگ رگ میں تھی۔ بڑے فخر سے کہتے تھے کہ میں پاکستان کے ساتھ ساتھ پلا بڑھا ہوں۔ مرحوم نے اپنی محنت اور ذہانت سے نئی مملکت میں ترقی کی ،اپنا مقام خود پیدا کیا اور ملک کی پوری لگن سے خدمت بھی کی۔ انکی وفات ہم سب کے لیے ایک خلا پیدا کر گئی ہے۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں