"JDC" (space) message & send to 7575

قدرت اللہ شہاب سے فواد حسن فواد تک…(3)

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب نے پچھلے دنوں کہا تھاکہ بیورو کریسی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور ہماری ریڑھ کی ہڈی صحت مند اور توانا نہیں رہی۔ بات بالکل صحیح ہے۔ کوئی بھی ملک بیورو کریسی کے بغیر نہیں چل سکتا۔ Revenueاکٹھا کرنا ہے تو تربیت یافتہ افسر اور عملہ درکار ہے‘ امن عامہ کو قائم رکھنا ہے تو پولیس ضروری ہے‘ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لئے انجینئر چاہئیں۔ اب اندازہ اس بات کا لگانا ہے کہ ہماری ریڑھ کی ہڈی خراب کیسے ہوئی اور کیا اسے دوبارہ صحت مند بنایا جا سکتا ہے۔روایتی طور پر سول سرونٹ کی ٹریننگ ہوتی تھی کہ آپ ریاست کے ملازم ہیں اور آپ کی وفاداری بھی ریاست کے ساتھ ہونی چاہیے‘ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں‘ لہٰذا سول سرونٹ کی وفاداری کسی مخصوص سیاسی پارٹی یا لیڈر سے نہیں ہونی چاہئے ۔مگر بھٹو سروس ریفارمز ( 1972ئ) کے تحت دستوری گارنٹی ختم کر دی گئی‘ یعنی اب سینئر بیورو کریٹ کو بھی بڑی آسانی سے عہدے سے فارغ کیا جا سکتا تھا۔ نتیجہ وہی نکلا جو بھٹو صاحب چاہتے تھے۔ سرکاری افسر عدم تحفظ کا شکار ہوئے اور وہ پولیٹیکل لیڈر شپ میں اپنے اپنے گاڈ فادر تلاش کرنے لگے۔ 1990ء کی دہائی میں شریف خاندان کی حکومت آئی تو یہ سلسلہ مزید آگے بڑھا۔ وہ ہر اُس افسر کے گاڈ فادر بننے کو تیار تھے جو ہم خیال ہو اور کام میں ہوشیار ہو‘ یوں سیاست اور بیورو کریسی کا گٹھ جوڑ سامنے آیا۔ سعید مہدی وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری بنے تو لوگوں نے انہیں ڈپٹی پرائم منسٹر کا نام دیا۔ طارق فاطمی نے گریڈ 22میں اپنے کئی رفقائے کار سے پہلے ہی جست لگا لی اور پھر امریکہ میں سفارت بھی لے لی۔ ایسی ہی مثالوں کو فالو کرتے ہوئے فواد حسن فواد نے بے مثال رفعتیں پا لیں۔
سول بیورو کریسی کو ہر دو قبیل کی حکومتوں نے نقصان پہنچایا۔ پرائم منسٹر سیکرٹریٹ دراصل جنرل یحییٰ خان کے زمانے کی بدعت ہے‘ اُس زمانے میں سی ایم ایل اے سیکرٹریٹ وجود میں آیا۔ مارشل لا ختم ہوا تو وہی دفتر وزیراعظم سیکرٹریٹ بن گیا۔ اس طرح ہمیشہ سے موجود فیڈرل سول سیکرٹریٹ کی اہمیت کم ہو گئی۔ دو متوازی ادارے رکھنا وسائل کا ضیاع بھی ہے اور اس طرح پرنسپل سیکرٹری کے مقابلے میں کیبنٹ سیکرٹری اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی اہمیت کم ہو گئی۔ اس سے پہلے یہ دونوں سیکرٹری بہت پاور فل ہوتے تھے۔
پیپلز پارٹی کے دورِ اول میں دستوری گارنٹی ختم ہوئی تو جنرل ضیا الحق نے افواج کا دس فیصد کوٹہ ڈی ایم جی، فارن اور پولیس سروس میں مقرر کیا‘ جو آج تک قائم ہے۔ جنرل مشرف نے ڈپٹی کمشنر کے ادارے پر وہ کاری ضربیں لگائیں کہ وہ پاش پاش ہو گیا۔ ایک زمانہ تھا کہ ڈپٹی کمشنر کی آنکھ کے اشارے سے بہت سے کام ہو جاتے تھے‘ مگر آج کا ڈپٹی کمشنر اتنے ''جوگا‘‘ نہیں رہا۔ اس کی تشریح میں اپنی آپ بیتی سے کئے دیتا ہوں۔اسلام آباد کے سیکٹر جی 13کے آس پاس بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کے کئی باڑے ہیں۔ کوئی ڈیڑھ سو بھینسیں تو میرے گھر کے بالکل سامنے پچاس میٹر کے فاصلے پر بندھی ہوئی ہے۔ سیکٹر چونکہ ابھی تک زیر تعمیر ہے اور کچھ پلاٹ خالی پڑے ہیں‘ لہٰذا یہ تمام جانور بڑی تعداد میں اس چراگاہ میں سارا دن پھرتے ہیں۔ سی ڈی اے اور ہاؤسنگ فاؤنڈیشن والوں کو عرصے سے لکھ رہے ہیں‘ لیکن نتیجہ صفر۔ چند ماہ پہلے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ شا ید ڈپٹی کمشنر اس سلسلے میں آپ کی مدد کر سکے؛ چنانچہ ایک روز میں خود ڈپٹی کمشنر کو ملنے گیا۔ ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات بہت خوش اخلاق اور مستعد افسر ہے۔ دوسری خوبی اُس کی یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے شہریوں سے رابطہ رکھتا ہے۔ حمزہ نے میری باتیں بڑے غور سے سنیں اور پوری مدد کا وعدہ کیا۔ چند روز بعد سی ڈی اے کا ایک اہل کار میرے گھر آیا کہ ڈی سی آفس کا کہنا ہے کہ آپ کے سیکٹر میں چرواہے جانور لے کر آتے ہیں‘ میں نے کہا : آپ کی خبر بالکل درست ہے۔ کہنے لگا کہ سچ پوچھیں تو سی ڈی اے اس پرابلم سے عرصے سے واقف ہے‘ لیکن آپ کے سیکٹر کا انتظام چونکہ فیڈرل ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے پاس ہے‘ لہٰذا ہم آپ کی مدد سے قاصر ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ سی ڈی اے آفس واپس جاتے ہوئے ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے دفتر رکیں اور انہیں بتائیں کہ جی 13میں چوپائے دندناتے پھرتے دیکھے گئے ہیں۔ تھوڑی دیر میں مجھے فون آیا کہ اس سلسلے میں آپ فاؤنڈیشن کو لکھ کر درخواست کریں۔ فوراً ہی عرضی بھیج دی گئی۔ جب کوئی جواب نہ ملا تو وزیراعظم کے پورٹل پر شکایت بھیجی گئی۔ وزیراعظم پورٹل سے یہ اطلاع ملی کہ کیس ڈی جی انوائرنمنٹ کو بھیج دیا گیا ہے‘ اس بات کو بھی تین ہفتے ہو گئے ہیں۔ ڈی سی حمزہ شفقات کا پیغام آیا کہ سوری میں اس سلسلے میں آپ کی مدد نہ کر سکا۔ آج کا ڈپٹی کمشنر وہ پاور فل افسر نہیں جو قدرت اللہ شہاب بطور ڈی سی جھنگ ہوا کرتے تھے۔ اب بھینسوں والے ڈپٹی کمشنر سے زیادہ پاور فل ہیں‘ کیونکہ وہ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن والوں کی مٹھیاں گرم کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔
سروس ریفارم کی کوشش 1960ء سے جاری ہے۔ 1962ء میں کارنیلیئس کمیٹی کی رپورٹ آئی تھی‘ جس میں کہا گیا تھا کہ یہ زمانہ اختصاص کا ہے ‘جبکہ سی ایس پی ہر فن مولا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ضروری ہے کہ گورننس کو چار پانچ شعبوں میں تقسیم کیا جائے اور افسر ایک سپیشل شعبہ اختیار کر کے اُس میں مکمل مہارت حاصل کرنے کی کوشش کریں‘ لیکن سی ایس پی مافیا نے رپورٹ پر عمل درآمد نہ ہونے دیا ‘تاکہ صوبائی اور فیڈرل سطح پر زیادہ سے زیادہ پوسٹوں پر ان کی اجارہ داری قائم رہے۔اب پی ٹی آئی کی حکومت نے جناب عشرت حسین کی سربراہی میں سروس ریفارم کمیٹی بنائی ہے۔ اس ٹاسک فورس کا کام یہ ہے کہ غریب عوام تک ہیلتھ اور ایجوکیشن سروس ڈیلیوری کو یقینی بنائے۔ اس ٹاسک فورس میں شاہد کار دار اور ندیم الحق جیسے کنسلٹنٹ شامل ہیں‘ جن کی لیاقت مسلمہ ہے‘ لیکن وہ کبھی بورے والا یا چھاچھرو یا نوشہرہ نہیں گئے۔ انہیں یہ علم ہی نہیں کہ میونسپل کمیٹی کیسے فنکشن کرتی ہے۔ وہ شاید ہی کبھی تھانے کچہری گئے ہوں گے۔ انہیں پتہ ہی نہیں کہ ان دفتروں میں پاکستانی عوام کیسے ذ لیل و خوار ہوتے ہیں۔ کروڑوں روپے وصول کر کے اعلیٰ انگریزی میں رپورٹیں تیار کرنے والے یہ کنسلٹنٹ بالکل تھیورٹیکل باتیں کرتے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب کہتے ہیں کہ نیوزی لینڈ میں فلاں قسم کا ادارہ بڑا شاندار کام کر رہا ہے‘ ہمیں اسے پاکستان میں ٹرائی کرنا چاہئے ۔ارے بابا نیوزی لینڈ اور پاکستان کے زمینی حقائق میں بڑا فرق ہے‘ مگر انہیں زمینی حقائق سے کیا غرض‘ وہ رپورٹیں تو عوام کی بہبود کے لئے لکھتے ہیں‘ جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔
سی ایس ایس کے ذریعے آنے والے افسر پورے ملک میں صرف ساڑھے چھ ہزار ہیں اور ہماری ریفارم کمیٹیاں پورا فوکس ان معدودے چند لوگوں پر رکھتی ہیں۔ کیا ہمارے ڈاکٹر، انجینئر، سکول ٹیچر محکمہ زراعت کے افسر سول سرونٹ نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی فلاح کا کبھی کسی نے سوچا ہی نہیں‘ مگر یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھ عوام کی نبض پر رہتے ہیں۔ کیا کسی ریفارم کمیٹی نے کبھی ان لوگوں کی رائے لی ہے؟
ہمارا کام تھا کہ انگریز کے بنائے ہوئے اداروں کو مزید بہتر بناتے‘ مگر ہم نے انہیں ریفارم کرنے کی بجائے تباہ کر دیا۔ سول ادارے نارمل نہ رہے‘ کیونکہ سرکاری تنخواہ میں سول سرونٹ کا گزارہ مشکل ہو گیا‘ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ فواد حسن فواد جیسا افسر آرام سے ایک پرائیویٹ بینک میں اعلیٰ تنخواہ پر چلا جاتا ہے۔ سال دو سال وہاں کام کرتا ہے اور مزے سے واپس سول سروس میں آ جاتا ہے۔اور یہ عشرت حسین صاحب 2006ء سے مختلف ریفارم کمیٹیوں کے ہیڈ ہیں۔ ان کا کام ہی ختم نہیں ہو پاتا۔ ابھی تک یعنی بارہ سال میں ان کی کتنی سفارشات پر عمل ہوا ہے۔ بارہ سال سے نشستند گفتند برخاستند ہو رہا ہے۔ یہ جو پی آئی اے‘ او جی ڈی سی، مری گیس، اٹک آئل، پی ایس او کے کئی افسر بیس لاکھ سے چالیس لاکھ ماہانہ تنخواہیں لے کر قوم کا خون چوس رہے ہیں‘ کیا ان کی بھی کبھی میرٹ پر سلیکشن ہوگی؟دراصل ہمارا قبلہ ہی درست نہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو بھی کچھ لوگ غلط سمت میں چلا رہے ہیں۔ جب ہماری نیت ٹھیک تھی تو ہم نے چوہدری محمد علی اور قدرت اللہ شہاب جیسے افسر پیدا کئے اور جب نیت میں فتور آ گیا تو فواد حسن فواد تو پیدا ہونا ہی تھا۔ (ختم) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں