"JDC" (space) message & send to 7575

افغان امن: امیدیں اور خدشات

افغان امن کے حوالے سے جتنی سنجیدہ اور تیز رفتار کوششیں حال ہی میں دیکھی گئی ہیں‘ اُن سے امید کی کرنیں پھر سے روشن ہوئی ہیں۔ امریکہ کا طالبان سے ابوظہبی اور دوحہ میں براہ راست رابطہ بذات خود بہت بڑی پیش رفت ہے۔ ساتھ ہی صدر ٹرمپ نے بیان دیا کہ ہم جلد ہی افغانستان سے نصف فوجی واپس بلا لیں گے۔ اس کے مقابل طالبان وعدہ کر رہے ہیں کہ وہ القاعدہ اور اسلامک سٹیٹ جیسی تنظیموں کو اپنے زیر اثر علاقے سے امریکہ کے خلاف دہشت گردی نہیں کرنے دیں گے۔ جب دوحہ سے فریم ورک ایگریمنٹ کی خبر آئی تو میرا فوری رد عمل تھا کہ امریکہ افغانستان سے نکلنے میں بہت جلدی دکھا رہا ہے اور اس سے ممکنہ امن کے امکانات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ویسے اندرونی اور بیرونی‘ دونوں اطراف سے امن کی خواہش جتنی جاندار آج ہے‘ پہلے نہیں تھی۔ امریکہ‘ چین‘ روس‘ پاکستان اور خلیجی ممالک‘ سب افغان امن کے لئے اپنے تئیں کوششیں کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ افغان جنگ میں تمام متحارب گروہ تھکے تھکے لگتے ہیں۔ انہیں دراصل کہنا چاہئے کہ سب سے زیادہ تھکا ہوا خود امریکہ ہے۔ امریکی صدر 2020 کے الیکشن سے پہلے پہلے اپنی فوج واپس بلانا چاہتے ہیں تاکہ ناخبین کو بتا سکیں کہ میں نے 2016 کے الیکشن میں کیا ہوا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ طالبان بھی سترہ سالہ جنگ سے تھکے ہوئے ضرور ہیں لیکن اتنے نہیں جتنا امریکہ۔ بقول طالبان امریکہ کے پاس گھڑی ہے اور ہمارے پاس وقت۔ طالبان کی امن عمل میں غیر معمولی دلچسپی اس وجہ سے بھی ہے کہ وہ عسکری طور پر مضبوط پوزیشن میں ہیں اور انہیں قوی امید ہے کہ مذاکرات کی میز پر کافی کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔
روس کی افغانستان میں دلچسپی دو حوالوں سے ہے۔ روس نہیں چاہتا کہ اسلامک سٹیٹ (I.S) وہاں مضبوط ہو کر قدم جما لے کیونکہ ایسی صورت میں آئی ایس کا اثر و رسوخ سنٹرل ایشیا کی مسلم ریاستوں تک پھیل سکتا ہے اور روس سنٹرل ایشیا کو اپنا پچھواڑہ سمجھتا ہے۔ روس کا دوسرا کنسرن یا تشویش کا پہلو یہ ہے کہ اگر افغانستان میں امن نہ آیا تو یہ ملک منشیات کی پیداوار کا مرکز رہے گا جو سمگل ہو کر روس جاتی رہیں گی۔ چین کا مفاد بھی افغان امن سے ایسے جڑا ہوا ہے کہ افغانستان میں بدستور بدامنی سی پیک کے لیے زہر قاتل ثابت ہو گی۔
پاکستان تو ایک عرصے سے کہتا آ رہا ہے کہ افغان امن کا سب سے زیادہ فائدہ ہمیں ہو گا۔ ہمسایہ ملک میں افراتفری سے نہ صرف باہمی تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ پاکستان کے اندر بھی بد امنی فروغ پاتی ہے۔ پاک فوج کئی سالوں سے دو محاذوں پر فوکس کر رہی ہے۔ ا فغانستان سے تعلقات بہتر ہوں گے تو مشرقی محاذ کی نگہداشت بہتر ہو گی۔ موجودہ صورت حال میں سب سے پریشان صدر اشرف غنی ہیں۔ طالبان انہیں فی الحال تو خاطر میں ہی نہیں لا رہے۔ وہ کابل حکومت سے بات کرنے سے بھی انکاری ہیں۔ اشرف غنی کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ جنگ بندی نہ ہوئی تو جولائی میں پُرامن انتخابات کا انعقاد مشکل ہو جائے گا۔ لہٰذا افغان امن اس وقت بین الاقوامی قوتوں کی بھی ضرورت ہے اور داخلی دھڑوں کی بھی۔ افغان امن کے حق میں اتنے زیادہ فیکٹر اور اتنی دلچسپی بہت عرصے بعد دیکھنے میں آ رہی ہے۔
حال ہی میں ماسکو میں طالبان قیادت کی ملاقات حامد کرزئی اور دیگر افغان لیڈروں سے ہوئی۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ ماسکو میں افغان خواتین کا وفد بھی شامل تھا۔ خواتین نے طالبان پر واضح کیا کہ وہ اب گھر کی چار دیواری میں قید نہیں رہیں گی۔ افغانستان بہت حد تک بدل چکا ہے اور طالبان کو اس بات کا ادراک ہے۔ شنید ہے کہ ایک اہم خلیجی ملک نے امریکہ سے کہا ہے کہ طالبان اشرف غنی گورنمنٹ سے مذاکرات کے لیے تیار ہو جائیں گے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ امریکہ کو طالبان سے ڈائریکٹ بات کرنے کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے قائل کیا۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر پاکستان نے ایک اہم قدم اٹھایا‘ جس سے دوحہ مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ پاکستان نے ملا عبدالغنی برادر کو بروقت رہا کیا۔ وہ دوحہ میں طالبان وفد کے لیڈر بنے۔ ان کی موجودگی نے مذاکرات کو اعتبار بخشا کہ ملا برادر افغان طالبان میں محترم شخصیت ہیں۔ میرے خیال میں ان کی وجہ سے ہی مذاکرات میں بڑی پیش رفت ہوئی۔
اور اب آتے ہیں خدشات کی جانب۔ کئی لوگ کہہ رہے ہیں کہ افغان صورت حال جس پوزیشن میں آج ہے وہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ سوویت یونین نے بھی اپنی فوجیں نکالنے میں ایسی ہی جلدی کی تھی‘ جیسی کہ امریکہ کر رہا ہے اور پھر کیا ہوا تھا؟ ہم سب جانتے ہیں کہ کابل میں خانہ جنگی ہوئی تھی‘ مگر اس مرتبہ صورت حال تھوڑی مختلف ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس سے متعلق چند امریکی اہل کار افغانستان میں موجود رہیں گے۔
دراصل امریکہ کی جلد بازی نے کابل حکومت کی بارگیننگ پوزیشن خاصی کمزور کر دی ہے۔ طالبان عبوری حکومت کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور صدر اشرف غنی کی نظریں جولائی کے صدارتی انتخابات پر ہیں۔ اب تک طالبان یہ کہہ رہے ہیں کہ اشرف غنی حکومت امریکہ کی کٹھ پتلی ہے‘ لہٰذا اُس سے بات چیت بیکار ہے۔ مجھے تو افغانستان میں جولائی کے الیکشن بھی مخدوش نظر آ رہے ہیں کیونکہ الیکشن کے انعقاد کیلئے جنگ بندی ضروری ہے اور سیزفائر طالبان کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں۔
ایک معتبر قسم کی عبوری حکومت وقت کی اشد ضرورت ہے۔ یہ عبوری حکومت شمالی اتحاد اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے گی۔ میرے خیال میں ایک اچھی عبوری حکومت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ مکمل طور پر نیوٹرل ہو اور متحارب دھڑوں کے لیے قابل قبول بھی ہو۔ گو کہ طالبان کی خواہش ہے کہ انہیں عبوری حکومت میں حصہ دیا جائے لیکن طالبان تو خود تنازعہ کے فریق ہیں‘ لہٰذا انہیں فیصلہ کرنے کا حق دینا صحیح نہ ہو گا۔ عبوری حکومت کا رول لویا جرگہ والا ہوگا اور عارضی ہوگا۔
افغان طالبان موجودہ آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ چاہتے کہ نیا آئین بنایا جائے یا اسی آئین میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں۔ اُن کے خیال میں موجودہ آئین مغربی قوتوں کے دماغ کی تخلیق ہے۔ افغانستان کا موجودہ سیاسی ڈھانچہ 2002 میں جرمنی کے شہر بون میں ترتیب دیا گیا تھا۔ طالبان کو شکست ہو چکی تھی اور فتح حاصل کرنے والوں نے اقتدار شمالی اتحاد کو دے دیا تھا۔ اُس وقت پاکستان نے کہا تھا کہ بون کی بین الاقوامی میٹنگ میں افغان طالبان کے نمائندوں کو شریک کیا جائے‘ لیکن فتح کے نشے میں مخمور اقوام نے پاکستان کی تجویز کو در خور اعتناء نہ سمجھا۔ افغانستان کے مسئلے کے دیرپا حل کے لیے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ وہاں بسنے والے پشتون‘ تاجک‘ ازبک اور ہزارہ‘ سب کے حقوق ہیں اور وہاں کی آبادی میں سب سے زیادہ حصہ پختونوں کا ہے۔ جب بھی اس حقیقت کو اگنور کیا گیا‘ نتیجہ درست نہیں نکلا‘ اور ملاحظہ فرمائیے کہ 2002 میں جو سپر پاور طالبان کو جرمنی کے لیے دعوت تک دینے کو تیار نہ تھی‘ وہ آج اُن سے ڈائریکٹ گفتگو کر رہی ہے۔
امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کو خدشہ ہے کہ صدر ٹرمپ پھر سے جلدی میں امریکی فوجوں کے مکمل انخلاء کا اعلان نہ کر دیں۔ تمام اہم ممالک کو طالبان کی عسکری اور سیاسی اہمیت کا احساس ہو چلا ہے اور طالبان بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم اقتدار پر اجارہ داری نہیں چاہتے بلکہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ اس نازک موڑ پر افغانستان کو بہت قابل اور محب وطن عبوری حکومت کی ضرورت ہے جو کشتی کو طوفان سے نکال سکے اور افغان بھائیوں میں اتنی سیاسی بلوغت ہے کہ وہ خود اعلیٰ قسم کی عبوری حکومت بنا سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں