"JDC" (space) message & send to 7575

مصر کا احوال

میرا مصر سے تعارف 1974ء سے ہے۔ وہاں ایک سال عربی سیکھنے کے لیے قیام کیا۔ اُس زمانے کا قاہرہ‘ جس کی آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ تھی‘ مجھے تضادات کا مجموعہ لگا۔ اشرافیہ یورپین کلچر سے خاصی مرعوب نظر آتی تھی۔ ان کی خواتین سگریٹ پیتی تھیں جبکہ متوسط طبقہ خاصا قدامت پسند تھا۔ متوسط طبقے کی خواتین سرڈھانپتی تھیں۔ دریائے نیل قاہرہ کے وسط سے گزرتا ہے۔ شہر میں ہی اس کی دو شاخیں بن جاتی ہیں جو پھر مل جاتی ہیں۔ درمیان کے جزیرے کا نام زمالک ہے جہاں پاکستان کے علاوہ کئی اور ملکوں کے سفارت خانے تھے۔
قاہرہ کا جو تاثر میرے ذہن میں آج تک ہے وہ بلند و بالا عمارتوں اور بے تحاشا رش کا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ دن میں شہر کی آبادی میں بیس لاکھ کا اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ بہت سے لوگ مضافات سے کام کرنے آتے تھے۔ امیر اور غریب میں بہت فرق تھا‘ جو سنا ہے کہ مزید بڑھ گیا ہے۔ قدیم شہر میں جامعہ الازھر‘ خان الخلیلی کا روایتی بازار‘ سیدہ زینبؓ کا مزار اور مسجد‘ تھے تو شارع اہرام پر بے شمار نائٹ کلب تھے۔ اُس وقت کے قاہرہ میں شراب عام ملتی تھی۔ فلمی صنعت عروج پر تھی۔ مصر کی بیلے ڈانسرز پوری عرب دنیا میں مشہور تھیں۔ تھیٹر عروج پر تھا۔ مصری لطیفہ بازی میں مشہور ہیں۔ سٹیج پر ہمارے تھیٹر کی طرح جگت بازی عام تھی۔ میں نے ایک دفعہ اپنے مصری دوست مدحت کو کہا کہ اچھی بات ہے آپ لوگ خوش مزاج ہیں۔ اُس کا جواب مجھے آج تک یاد ہے۔ مدحت کا کہنا تھا کہ ہم لوگ زندگی کی تلخیوں کو بھلانے کے لیے مزاح کا سہارا لیتے ہیں۔
مصری متوسط طبقہ اس ساری صورت حال کو بڑی پریشانی سے دیکھتا تھا۔ غریب لوگوں کا وہی حال تھا جو پاکستان میں ہے۔ ہمارے گھر جو میڈ روزانہ تین گھنٹے کام کرنے آتی تھی‘ وہ ماہانہ پندرہ ڈالر لیتی تھی۔ آزادیٔ رائے نام کی کوئی چیز وہاں نہیں تھی۔ تمام اخبار سنسر شپ کی زد میں تھے۔ صرف ایک ٹی وی چینل تھا اور وہ بھی حکومتی۔ مشہور عربی اخبار الاھرام کے ادبی صفحات تو شاندار تھے‘ لیکن وہ صدر انور السادات کے خلاف ایک لفظ نہیں لکھ سکتے تھے۔ حکومت کا ہر شعبے پر کنٹرول تھا۔ اس کا یہ فائدہ ضرور تھا کہ امن و امان کی صورت حال اچھی تھی۔ آپ دن رات بے خوف و خطر شہر میں گھوم سکتے تھے۔ دریائے نیل میں رات گئے تک کشتیاں لوگوں کو سیر کراتی تھیں۔ دریا کے کنارے لوگ رات کو گھومتے پھرتے نظر آتے تھے۔ 
موجودہ صورت حال کی جانب آنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ مصر کے بارے میں ایک غلط فہمی کا ذکر کرتا چلوں‘ جو پاکستان میں پائی جاتی ہے۔ صدر جمال عبدالناصر عرب نیشنلزم کے سرخیل تھے۔ وہ اخوان المسلمین کو پسند نہیں کرتے تھے‘ کیونکہ اخوان عرب اتحاد کی بجائے اسلامی اتحاد کی بات کرتے تھے۔ ناصر کے زمانے میں ہی اخوان کے بانی سید قطب کو سزائے موت ہوئی۔ صدر ناصر نے اپنی ایک تقریر میں کہا: ہمیں اپنے فراعین کے عہد پر فخر ہے۔ پاکستان کی چند مذہبی جماعتوں نے ناصر کے اس بیان میں کفر کی تاویلیں نکالیں۔ مجھے اتنا علم ہے کہ صدر ناصر نمازی تھے اور بے حد ایماندار۔ ہم پاک و ہند کے سادہ لوح مسلمان حضرت موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کے قصّے کو پڑھ کر فرعون سے نفرت کرتے ہیں‘ لیکن ہم میں سے کتنے لوگوں کو پتہ ہے کہ فراعین کا عہد تین ہزار سال پر محیط ہے اور فرعون بادشاہوں کی کل تعداد ایک سو ستر کے قریب ہے۔ ایک مشہور فرعون خوفو نے جیزہ کے اہرام بنوائے جو چار ہزار سال تک دنیا کی بلند ترین عمارتیں تھیں۔ اتنے وزنی پتھر اوپر کیسے گئے‘ اس بات پر آج تک لوگ حیران ہیں۔ اور ہاں آپ کی دلچسپی کے لیے یہ بھی بتاتا چلوں کہ آخری فرعونوں میں بلکہ قلوپطرا بھی ہے‘ جو اپنے حسن و جمال کی وجہ سے مشہور ہوئی۔ فراعین کے بنائے ہوئے اہرام اور معبد دیکھنے کے لیے آج بھی لاکھوں سیاح مصر آتے ہیں۔ تو چہ عجب کہ جمال عبدالناصر کو اپنے ملک کے اس سنہری عہد پر فخر تھا۔
پچھلے ہفتے صدر محمد مرسی کو قاہرہ کی ایک عدالت میں ایک سائونڈ پروف پنجرے میں بند کر کے لایا گیا‘ جہاں انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ ترکی کے صدر اردوان نے اس واقعہ کو قتل کہا‘ اور جنرل عبدالفتاح السیسی کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ باقی دنیا اس المناک واقعہ پر عمومی طور پر خاموش رہی؛ البتہ اقوام متحدہ نے تحقیق کرنے کا مطالبہ ضرور کیا ہے۔ مصر میں جمہوری اقدار پاکستان سے کمزور تر ہیں۔ مصر کے عدالتی نظام کے بارے میں زیادہ کہنا شاید مناسب نہ ہو‘ لیکن یہ واقعہ کئی سوال چھوڑ گیا ہے۔ صدر مرسی کی وصیت تھی کہ ان کی تدفین ان کے گائوں میں کی جائے‘ لیکن مصری حکومت نے اس وصیت کو نظر انداز کیا۔ مصر سیاسی طور پر سالوں سے عدم استحکام کا شکار ہے۔ عرب دنیا میں مصر کی اب وہ پوزیشن نہیں جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ یہ تازہ ترین واقعہ مصر کے قد کاٹھ کو اور چھوٹا کر گیا ہے۔ 
2012ء کے آغاز میں مصر میں عرب سپرنگ کی تازہ ہوائیں چلیں تو قاہرہ کا میدان التحریر پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ مصری نوجوان، لڑکے اور لڑکیاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں یہاں جمع ہوتے تھے۔ حریّتِ فکر اور انسانی حقوق کے نعرے لگاتے تھے۔ اس نوجوان طبقے نے سوشل میڈیا کا خوب استعمال کیا اور فیس بک جنریشن کہلایا۔ شروع میں اس تحریک پر مصری لبرل طبقات چھائے ہوئے تھے‘ لیکن بالآخر فائدہ اخوان کا ہوا۔ ہوا یوں کہ الیکشن کے پہلے رائونڈ میں کئی لبرل امیدوار تھے اور ان کے ووٹ تقسیم ہو گئے۔ دوسرے رائونڈ کے لیے اخوان کے امیدوار خیرات الشاطر تھے‘ جنہیں حکومت نے ڈس کوالیفائی کر دیا۔ مجبوراً اخوان کو محمد مرسی کو سامنے لانا پڑا۔ اس طرح انہیں حادثاتی لیڈر کہا جا سکتا ہے۔ محمد مرسی کی بیک گرائونڈ متوسط طبقے کی تھی۔ پکّے مسلمان تھے۔ منتخب ہوئے تو ترکی، قطر، ایران اور حماس سے تعلقات بڑھائے اور شاید یہی بات ان کے زوال کا سبب بنی۔
مصر کے اقتصادی حالات پاکستان کی طرح خراب ہیں۔ حال ہی میں شائع کردہ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 60 فیصد مصری غریب ہیں۔ مصر کا ٹوٹل قرضہ پاکستان سے زیادہ ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ کیمپ ڈیوڈ کے معاہدے کے بعد مصر کو امریکہ سے خاصی مدد ملتی رہی‘ اور مصر کا عسکری بجٹ بھی پاکستان سے کافی کم ہے۔ تو یہ ساری امداد کہاں گئی؟ اس کا ایک جواب تو کرپشن ہو سکتا ہے۔ صدر مرسی پورے اخلاص سے اس کرپشن کا خاتمہ چاہتے تھے۔ مصر کی اشرافیہ ان کے خلاف ہو گئی۔ وہ صرف اکیاون فیصد ووٹ لے کر الیکٹ ہوئے تھے، لیکن کام بڑے بڑے کرنا چاہتے تھے‘ جیسا کہ نیا دستور بنانا۔ مصری اپوزیشن نے الزام لگایا کہ نئے دستور کے ذریعے وہ اپنے اختیارات بڑھانا چاہتے ہیں۔
مصر میں لمبے عرصے تک اخوان پر پابندی رہی۔ وہاں ایک عرصے سے آمریت قائم ہے۔ جمال عبدالناصر، انور السادات اور حسنی مبارک‘ سب کا تعلق فوج سے تھا۔ ملک کی مخابرات اخوان کی تمام سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھتی تھی، لیکن انہیں پانچ وقت مسجد میں جانے سے نہیں روک سکتی تھی۔ مساجد کے ذریعے اخوان کا نیٹ ورک خاموشی سے چلتا رہا۔ سوشل نیٹ ورکنگ اور غریبوں کی امداد سے اخوان کا ووٹ بینک بڑھتا گیا۔ پاکستان میں دائیں بازو کی جماعتیں ایسا نہیں کر پائیں۔
ھشام الزمیتی 2004ء میں پاکستان میں مصر کے سفیر تھے۔ میں اُن دنوں ایڈیشنل سیکرٹری مڈل ایسٹ تھا۔ اُن سے سوشل میڈیا پر رابطہ آج بھی قائم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فراعین کا سنہری دور مصر کی پہچان ہے۔ کنیسہ اور مسجد مصر کے چہرے کے دو حسین رُخ ہیں۔
مصر پھر سے آمریت کے شکنجے میں ہے۔ اخوان کو بُری طرح دبا دیا گیا ہے لیکن انہیں ختم کرنا نا ممکن لگتا ہے۔ ھشام الزمیتی جیسا سیکولر انسان اور ایمن الزواہری جیسا انتہا پسند‘ دونوں مصری ہیں۔ یہ ملک عظیم تاریخ اور حیرت انگیز تضادات کا مجموعہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں