"JDC" (space) message & send to 7575

فلسطینی حقوق کی بولی

پچھلے دنوں بحرین میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ہوئی جس کے لئے دو نام بیک وقت استعمال کئے گئے۔ اسے اکنامک ورکشاپ بھی کہا گیا اور امن سے خوشحالی کانفرنس بھی کہا گیا۔ اس کانفرنس میں کلیدی حیثیت صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر Jared Kushner کی تھی۔ موصوف نے اس اجتماع میں پچاس ارب ڈالر کے دس سالہ ترقیاتی منصوبے کے خدوخال واضح کئے جو ان کی تجویز کے مطابق فلسطین کے انفراسٹرکچر‘ تعلیم اور صحت کے شعبوں پر خرچ ہوں گے اس منصوبے سے ویسٹ بینک کے اسرائیل‘ اردن‘ غزہ اور لبنان سے روڈ اور ریلوے لنک جدید خطوط پر استوار ہوں گے۔ ماڈرن ہسپتال اور نئی یونیورسٹیاں بنیں گی۔ بے روزگاری میں کمی آئے گی اور خوشحالی میں اضافہ ہو گا۔
ویسٹ بینک میں اس وقت بے روزگاری کی شرح اکتیس فیصد ہے۔ اقتصادی حالات خاصے خراب ہیں۔ صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد امریکی امداد میں واضح کمی آئی ہے۔ اس لئے شاید جیرڈ کشنر کا خیال ہو گا کہ فلسطینی اتنی بڑی امداد سے مان جائیں گے لیکن فلسطینی قیادت پہلے سے بھانپ چکی تھی کہ ڈالروں کا یہ سنہرا جال انہیں ان کے حقوق سے ہمیشہ کے لئے محروم کرنے کے لئے بچھایا جا رہا ہے۔ لہٰذا صدر محمود عباس کی حکومت نے کانفرنس میں شرکت سے صاف انکار کر دیا۔ اس طرح یہ بین الاقوامی اجتماع ایسی شادی کی صورت اختیار کر گیا جس میں سے دولہا میاں غائب ہو جائیں۔
کانفرنس کا دوسرا مقصد دنیا کو یہ بتانا تھا کہ خلیجی ممالک اب اسرائیل کے ساتھ روابط بڑھانا چاہتے ہیں‘ لیکن چھ میں سے تین خلیجی ممالک نے اس اجتماع میں شرکت نہیں کی۔ کویت، قطر اور عمان وہاں موجود نہیں تھے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ اسرائیل کے وزیر اعظم چند ماہ پہلے مسقط گئے تھے اور سلطان قابوس بن سعید سے ملے تھے‘ لہٰذا توقع کی جا رہی تھی کہ عمان یہ کانفرنس ضرور اٹینڈ کرے گا‘ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ کانفرنس شروع سے متنازع تھی اور جب فلسطینی خود نہ آئے تو بے معنی بھی ہو گئی۔
ایک اور سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ بحرین نے اس ورکشاپ یا میٹنگ کی میزبانی کیوں کی۔ ایسے اجتماعات کو ورکشاپ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہاں نقشوں، گراف اور ڈایا گرام کے ذریعے یہ سمجھایا جاتا ہے کہ پورا پلان کیا ہے اور اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ لیکن اس پلان سے چونکہ سیاسی حل اور اس کا حصول غائب تھا‘ لہٰذا یہ تانگے کو گھوڑے کے آگے جوتنے والی بات تھی۔ بحرین خلیج کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔ یہاں دو مسالک کے لوگ رہتے ہیں اور ان میں تناؤ موجود ہے اور اس تناؤ کی بڑی وجہ خلیج کے دو بڑے ممالک کا خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے کا مقابلہ ہے‘ لہٰذا بحرین کو سکیورٹی کے اعتبار سے خدشات ہیں۔ ایسی صورت حال میں چھوٹے ممالک عمومی طور پر کسی بڑے ملک کی چھتری کے سائے میں اپنا تحفظ تلاش کرتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ بحرین میں امریکی نیوی کا بیس موجود ہے۔ ان حالات میں جب امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے بحرین کو میزبانی کے لئے کہا گیا ہو گا تو اس کے لئے انکار مناسب نہیں تھا۔ ایسے اجتماعات اکثر ممالک اس لئے بھی کراتے ہیں کہ دوسرے ممالک کو باور کرا سکیں کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔ اس اجتماع میں بحرین کے وزیر خارجہ خالد بن احمد الخلیفہ نے کہا کہ اسرائیل ہمارے ریجن میں ایک حقیقت ہے۔
پاکستان اس ورکشاپ کے بارے میں مکمل طور پر خاموش رہا اور یہ بڑی حد تک صائب آپشن تھا۔ جب آپ کے دوست کسی ایشو پر منقسم ہوں تو خاموش رہنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ خلیجی ممالک کے اتحاد میں دراڑیں کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ اس سے عالم اسلامی کی طاقت کم ہوئی ہے۔ 1999 سے پہلے ایران اور خلیجی ممالک میں دوستی تھی۔ کیا ہی اچھا زمانہ تھا گو کہ وقت کے دھارے کو ریورس نہیں کیا جا سکتا لیکن حالات کو بہتر کرنے کی کوشش جاری رہنی چاہئے۔
خلیج میں ہمارے دو بڑے دوستوں میں تناؤ پاکستان کو مضطرب رکھتا ہے۔ پاکستان کی شدید خواہش ہے کہ اس خطے میں امن ہو‘ اقتصادی ترقی کا عمل جاری رہے‘ ہمارے لوگ وہاں کام کرتے رہیں۔ پاکستان کو بلکہ دیگر ممالک کو بھی تیل کی ترسیل میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ فلسطین کے بارے میں پاکستان کی دو خواہشات ہیں۔ پہلی یہ کہ قبلۂ اول آزاد ہو‘ ہم وہاں آ جا سکیں اور دوسری یہ کہ فلسطینی عوام کو ان کے وہ حقوق ملیں جن سے وہ ایک عرصے سے محروم ہیں۔
فلسطینی حقوق کیا ہیں۔ کوئی بھی ملک جنگ کے ذریعے دوسرے ملک کی زمین پر قبضہ نہیں کر سکتا جبکہ اسرائیل نے ایسا کیا ہوا ہے۔ فلسطینی چاہتے ہیں کہ اسرائیل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق 1967 میں قبضہ کئے گئے علاقوں سے واپس چلا جائے اور فلسطینی آزاد کئے گئے علاقے پر اپنی ریاست بنائیں‘ جس کا دار الحکومت القدس ہو۔ اس نئی ریاست میں فلسطینی مہاجرین کا واپس اپنے وطن آنا ان کا قانونی حق ہو گا۔ یہ تمام مطالبات انٹرنیشنل لا کے عین مطابق ہیں‘ لیکن اسرائیل انہیں ماننے سے انکاری ہے۔ اسرائیل کے پیچھے امریکہ کھڑا ہے۔ ویسٹ بینک پر یہودی بستیاں مسلسل بن رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق آٹھ لاکھ اسرائیلی ویسٹ بینک میں آ چکے ہیں۔ ایسی صورت میں امید کی کوئی کرن دور دور تک نظر نہیں آتی۔
ماضی میں کی گئی امن کی کوششوں پر بھی پانی پھر گیا ہے۔ کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ ہوا‘ پھر اوسلو کا معاہدہ ہوا جس میں طے کئے گئے روڈ میپ پر آج تک عمل نہیں ہو سکا۔ پچھلے سال صدر ٹرمپ نے اپنا دارالحکومت یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو پتہ چلا کہ امن کے لئے امریکہ سہولت کار کا جو کردار ادا کر رہا تھا وہ بھی اب نہیں ہو گا کیونکہ عرب اب کسی خوش گمانی میں نہیں ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا کہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد مصری صدر انور السادات اور اسرائیلی وزیر اعظم مناچم بیگن کو مشترکہ نوبل امن پرائز ملا۔ اوسلو کا معاہدہ ہوا تو پی ایل او کے چیئرمین یاسر عرفات اور اسرائیل کے وزیر خارجہ شمعون پیریز کو نوبل امن انعام ملا‘ مگر مڈل ایسٹ کا پرنالہ وہیں ہے جہاں پہلے تھا بلکہ حالات پہلے سے زیادہ مایوس کن ہیں۔ اب تو صدر ٹرمپ کی طرف سے عجیب و غریب بیانات آ رہے ہیں مثلاً یہ کہ اسرائیل کو جولان کی پہاڑیاں اپنے پاس رکھنی چاہئیں۔
کہا جاتا ہے کہ سپر پاور کا کوئی دشمن نہ ہو تو وہ دشمن ایجاد کر لیتی ہے مثلاً عراق پر حملہ کرنے کے لئے جعلی جواز بنایا گیا۔ یہ سب لہو گرم رکھنے کے بہانے ہوتے ہیں۔ امریکہ کی اس پالیسی کا ایک نتیجہ تو یہ ہے کہ مڈل ایسٹ کے لوگوں کا مکمل طورپر اعتبار سپر پاور سے اٹھ گیا ہے۔
لیکن چند حکمران اب بھی امریکہ اور اسرائیل سے دوستی چاہتے ہیں کیونکہ یہ ان کی مجبوری ہے۔ امریکہ ایک عرصے سے ایران کے درپے ہے۔
ایک لمبے عرصے کے مذاکرات کے بعد 2015 کا نیوکلیئر معاہدہ ہوا تھا اور اس میں ایران اپنا ایٹمی پروگرام خاصا محدود کرنے پر رضا مند ہو گیا تھا‘ لیکن صدر ٹرمپ اس معاہدے سے علیحدہ ہو گئے۔ ایران پر پریشر بدستور قائم ہے۔ دوسری طرف پچھلے سالوں میں خطے میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھا جس سے خلیجی ممالک خائف ہیں اور وہ اپنی سکیورٹی کے لئے امریکی چھتری کے نیچے کھڑے ہیں اور اسرائیل کی جانب بھی جا سکتے ہیں۔ جس عطار کے لونڈے کی وجہ سے مڈل ایسٹ بیمار ہوا اسی سے دوا بھی طلب کر رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں