"JDC" (space) message & send to 7575

کشمیر کی خود مختاری خطرے میں!

کشمیر کی دردناک داستان انڈیا کی وعدہ خلافیوں سے عبارت ہے۔ 27اکتوبر 1947 کو گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن نے کہا تھا کہ ''جس ریاست میں انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق پر تنازعہ ہے وہاں فیصلہ عوام کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا‘‘۔ چند روز بعد وزیراعظم نہرو نے پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھیجی گئی ٹیلی گرام میں لکھا ''ہمارا یہ وعدہ کہ امن و امان بحال ہوتے ہی انڈین فوج کشمیر سے واپس آ جائے گی اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کریں گے۔ صرف آپ کی حکومت کے ساتھ نہیں‘ یہ وعدہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ بھی ہے اور پوری دنیا کے ساتھ بھی‘‘۔ اور پھر انڈیا خود جنوری 1948 میں کشمیر کے تنازعہ کو اقوام متحدہ میں لے گیا۔ یہ وہی انڈیا ہے جو آج کہہ رہا ہے کہ کشمیر کے مسئلہ پر کسی اور کو ثالثی کی ضرورت نہیں یہ ہمارا دو طرفہ معاملہ ہے۔
اور اب آتے ہیں آرٹیکل 370 کی جانب جس کے مطابق انڈین مقبوضہ کشمیر کو خود مختار حیثیت دی گئی۔ انڈین دستور کا آرٹیکل 370 یہ کہنا ہے کہ سنٹرل گورنمنٹ کو دفاع، خارجہ پالیسی اور مواصلات کے معاملات پر اختیار ہو گا۔ باقی تمام محکموں کے اختیارات جموں و کشمیر حکومت کے پاس ہوں گے۔ اس آرٹیکل کو ختم کرنے کا پروسیجر یہ وضع کیا گیا کہ صرف ریاست جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کی سفارش پر ہی یہ شق اختتام پذیر ہو گی۔ کشمیر کی دستور ساز اسمبلی 1957 میں ریاست کا دستور وضع کر کے تحلیل ہو گئی اور ان لوگوں نے آرٹیکل 370 کے بارے میں کوئی سفارش نہیں کی۔ وہ انڈیا کی وعدہ خلافیوں سے خوب آشنا تھے۔ اس آرٹیکل کا خاتمہ بی جے پی کے منشور میں شامل ہے اور اس امر کا اعادہ اسی سال ہونے والے الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے نیتاؤں نے انتخابی مہم کے دوران بار بار کیا۔
اس آرٹیکل کو ختم کرنے کے لئے تاویل یہ پیش کی گئی ہے کہ یہ عارضی اور عبوری تھا یعنی دائمی فیصلہ نہیں تھا۔ بات بالکل ٹھیک ہے کیونکہ عارضی اور عبوری (Transitional) کے الفاظ آرٹیکل کے ٹائٹل میں استعمال کئے گئے ہیں۔ لیکن یہ الفاظ اس لئے درج ہوئے تھے کہ کشمیر میں ریفرنڈم ہونا تھا جس کا وعدہ پوری دنیا سے پنڈت نہرو نے کیا تھا۔ ایک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ جموں اور کشمیر کی دستور ساز اسمبلی‘ جو 1957 تک فعال رہی‘ نے یہ آرٹیکل حذف کرنے یا تبدیل کرنے کی سفارش کیوں نہ کی۔ میرے ذہن میں اس سوال کا جواب یہ ہے کہ دستور ساز اسمبلی کے ممبران بھارت سرکار کی چالوں سے خوب واقف تھے‘ لہٰذا انہوں نے آرٹیکل 370 کو جوں کا توں رہنے دیا۔ اب انڈین حکومت کے لئے مشکل یہ آن پڑی ہے کہ صرف انڈین پارلیمنٹ اس آرٹیکل کو یک طرفہ طور پر نہ تبدیل کر سکتی اور نہ ہی اس کے پاس اسے یکسر حذف کرنے کا اختیار ہے اور جموں و کشمیر دستور ساز اسمبلی ایک عرصہ پہلے تحلیل ہو چکی ہے۔ انڈیا چاہتا ہے کہ وہ زور زبردستی سے مقبوضہ کشمیر میں ویسا کنٹرول حاصل کر لے جیسا کہ اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین پر حاصل کر لیا ہے‘ یعنی جہاں اُس کا دل کرتا ہے یہودی بستیاں بنا لیتا ہے۔ انڈیا بھی یہی چاہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں نئی بستیاں آباد کر کے وہاں ہندو مسلم آبادی کا تناسب بدل دے لیکن اس کی اس خواہش کے سامنے آئین کا آرٹیکل 35-A حائل ہو جاتا ہے۔
اب آئیے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آرٹیکل 35-A کیا ہے اور اس کے کشمیر کی سیاسی اور اقتصادی زندگی پر اثرات کیا ہیں۔ اس آرٹیکل کا آرٹیکل 370 سے گہرا رشتہ ہے گو کہ بادی النظر میں یہ دونوں علیحدہ نظر آتے ہیں۔ آرٹیکل 35-A ایک انڈین صدارتی حکم کے ذریعے دستور میں نتھی کیا گیا اور یہ کام آرٹیکل 370 کی شق نمبر ایک کے حوالے سے کیا گیا۔ آرٹیکل 35-A میں لکھا گیا ہے کہ غیر کشمیری ریاست میں جائیداد خریدنے کا حق نہیں رکھتے اور نہ ہی وہاں مستقل سکونت اختیار کر سکتے ہیں اور مستقل شہری کی تعریف کا حق صرف ریاستی اسمبلی کے پاس ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ آرٹیکل 370 کشمیر کی خود مختاری کا قلعہ ہے اور آرٹیکل 35-A اُسی قلعے کی دیوار ہے۔ اگر یہ دیوار گرا دی جائے تو انڈیا کے لئے مکمل قلعے کو فتح کرنا مشکل نہیں ہو گا۔
آرٹیکل 35-A کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے اس کا تاریخی پس منظر جاننا ضروری ہے‘ اور پھر دیکھیں گے کہ موجودہ حالات میں یہ معاملہ اتنا حساس کیوں ہے۔ ''کشمیر صرف کشمیریوں کے لئے‘‘ کا نعرہ 1947 سے پہلے کا ہے۔ کشمیر خوبصورت خطہ ارض ہے بلکہ اسے شہنشاہ شاہجہاں نے تو جنت نظیر کہا تھا۔ کشمیر کی آب و ہوا خوش گوار ہے۔ بڑے بزرگوں سے سنتے تھے کہ وہ گرمیاں گزارنے سری نگر جایا کرتے تھے۔ آب و ہوا اور قدرتی نظاروں سے مسحور ہو کر انگریز کشمیر میں رہنا پسند کرتے تھے۔ کئی انگریزوں نے وہاں جاب بھی ڈھونڈ لئے۔ لہٰذا لوکل لوگوں کی ڈیمانڈ پر مہا راجہ نے فیصلہ کیا کہ باہر کے لوگوں کے پاس کشمیر میں پراپرٹی خریدنے اور مستقل رہائش کا حق نہیں ہو گا۔ 1947 کے بعد شیخ عبداللہ نے اسی سوچ کا پرچار کیا۔ مسئلے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے انڈیا نے اس نقطۂ نظر کو آرٹیکل 35-A کے ذریعے قانونی شکل دے دی اور آج مودی سرکار اس حساس موضوع پر یو ٹرن لینے کے لئے تیار ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے اس کے ووٹ بینک میں مزید اضافہ ہو گا۔
1947 میں جموں اور کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی 88 فیصد تھی۔ جموں میں بھی مسلمان اکثریت میں تھے جو آج اقلیت بن چکے ہیں۔ آج مسلمان جموں اور کشمیر کی آبادی کا 67 فیصد ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر آرٹیکل 35-A کو ختم کیا گیا تو وہ چند ہی سالوں میں اقلیت میں بدل جائیں گے۔ عمر عبداللہ کا ایک حالیہ ٹویٹ بھی یہی کہہ رہا ہے کہ کشمیر کی خود مختاری کے وضع کردہ نظام کو ختم کرنا خطرناک ہو گا۔
حال ہی میں اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر سری ناتھ راگوان نے کشمیر کے موضوع پر مفصل کالم لکھا ہے۔ پروفیسر صاحب کا کہنا ہے کہ انڈین آئین کا آرٹیکل نمبر ایک اُن صوبوں اور علاقوں کا ذکر کرتا ہے جو یونین کا حصہ ہیں اور ان میں جموں اور کشمیر بھی شامل ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریاست کا انڈیا سے الحاق آرٹیکل 370 سے منسلک ہے اور آگے جا کر لکھتے ہیں کہ اگر اس آرٹیکل کو ختم کیا گیا تو آئینی اعتبار سے کشمیر کا انڈیا کے ساتھ الحاق بھی ختم ہو جائے گا۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ موجودہ انڈین سرکار دونوں آرٹیکل ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ شاید اسے عوامی رد عمل کا اندازہ نہیں۔ مودی سرکار اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرنے کا تہیہ کئے ہوئی ہے۔
کشمیر میں سات لاکھ انڈین فوج کئی سالوں سے موجود ہے۔ دنیا کے کسی خطے میں سکیورٹی فورسز کا وجود اتنا کثیف نہیں۔ چند ہفتے پہلے تیس ہزار مزید فوجی امرناتھ یاترا کے موقع پر بلائے گئے‘ اور اب دس ہزار مزید پیرا ملٹری فورسز آ رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں افواہ گرم ہے کہ یہ متوقع بڑے فیصلے کے ممکنہ رد عمل کو کنٹرول کرنے کے لئے ہے۔
کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا اقوام متحدہ نے بھی نوٹس لیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2018 میں 586 لوگ کشمیر میں لقمہ اجل بنے۔ اس میں انڈین فورسز کے مارے گئے لوگ بھی شامل ہیں اور مزاحمت کرتے ہوئے کشمیری شہید بھی۔
ایک تو شکر ہے کہ کشمیر کمیٹی کی مولانا فضل الرحمن سے جان چھوٹی۔ انہوں نے لمبے عرصے تک کشمیر کاز کو خاصا نقصان پہنچایا۔ سید فخر امام اُن سے بہت بہتر ہیں۔ لیکن ہمیں ایک مؤثر اور جامع کشمیر سٹریٹیجی کی ضرورت ہے۔ آنے والے دنوں میں اگر کشمیر میں مزاحمت زور پکڑتی ہے تو ہمارے ہاں جہادی گروپ پھر سے فعال ہو سکتے ہیں اور جہاد کو سکہ رائج الوقت کے مطابق دہشت گردی کہا جاتا ہے۔ یہ بات پاکستان کے مفاد میں ہے کہ ممبئی کا 2008 والا واقعہ پھر سے نہ ہونے پائے اور یہ بھی ہمارے نیشنل انٹریسٹ میں ہے کہ کوئی بھی اسامہ بن لادن کی قبیل کا شخص ہماری حدود میں موجود نہ ہو۔ ان دونوں واقعات سے ہمارے کشمیر کاز کو نقصان پہنچا۔ مودی سرکاری کشمیر کی آئینی خود مختاری کو ختم کرنے پر تُلی ہوئی ہے اور ہمیں بے حد چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں