"JDC" (space) message & send to 7575

تقریر کے بعد

وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں تقریر کو کئی روز ہو چکے ہیں‘ مگر اُن کے الفاظ کی گونج آج تک فضا میں موجود ہے۔ بہت عرصے بعد پاکستان کو ایسا لیڈر ملا ہے جو عوام کے جذبات کو فی البدیہہ انداز میں دنیا کے ہر اہم فورم میں دلائل کے ساتھ اور بھرپور طریقے سے بیان کر سکتا ہے اور دنیا اس کی بات سننے کو تیار ہے۔ عمران خان اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ گئے‘ وہاں کئی سال کرکٹ بھی کھیلی۔ وہ مغربی ذہن سے خوب واقف ہیں‘ لیکن مغربی ثقافت سے مرعوب نہیں۔ انہیں پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔
ایک زمانے سے پاکستان کو شکایت تھی کہ ہم حق بات کرتے ہیں لیکن پھر بھی ہماری شنوائی نہیں ہوتی۔ اب یہ شکایت ایک حد تک ختم ہو چکی ہے۔ کپتان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مغربی لوگوں میں کھڑا ہو کر ان سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔ اسی وجہ سے اقوام متحدہ والی تقریر کی صراحت سے پاکستانی عوام کا مورال بلند ہوا ہے۔ ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ عمران خان نے نیو یارک کے فورم سے ہمارے دل کی باتیں کی ہیں۔ ہمیں اپنے لیڈر پر فخر ہے۔
اب تقریر ہو چکی۔ عمومی طور پر ایسی تقریریں لوگ اگلے روز بھول جاتے ہیں‘ لیکن اس تقریر کا چرچا کئی روز تک رہا۔ بین الاقوامی مسائل البتہ صرف تقریروں سے حل نہیں ہوتے۔ یاسر عرفات کا 1974 میں جنرل اسمبلی سے خطاب کئی لوگ آج تک یاد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے ہاتھ میں زیتون کی شاخ لایا ہوں‘ اسے میرے ہاتھ سے گرنے نہ دیں۔ زیتون کی شاخ امن کی علامت ہے۔ اس تقریر کو پینتالیس سال ہو گئے لیکن فلسطین کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ مجھے وہ تقریریں بھی یاد آ رہی ہیں جن کی وجہ سے تاریخ کا رُخ بدل گیا۔ اُن سے ایک ظہیر الدین بابر کا اپنے لشکر سے کنواحہ کے میدان میں خطاب تھا۔ دوسری شہرہ آفاق تقریر جو ذہن میں گونج رہی ہے‘ وہ مارٹن لوتھر کنگ کا 1963 میں خطاب تھا جو امریکہ کے سیاہ فام لوگوں کیلئے مساوی سیاسی اور اقتصادی حقوق کے حصول کا ذریعہ بنا۔
وزیر اعظم عمران خان کے تاریخی خطاب کے بعد اب ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کو کیسے زندہ رکھنا ہے۔ کشمیریوں اور پاکستانیوں پر واجب ہے کہ اس شمع آزادی کو روشن رکھیں اور انڈیا کے غاصبانہ قبضے کو ختم کر کے رہیں۔ 5 اگست کے انڈیا کے یک طرفہ غیر قانونی اقدام کے بعد دو طرح کے انتہائی رویے دیکھنے میں آئے۔ ایک دھڑے کا کہنا تھا کہ لائن آف کنٹرول کراس کریں اور انڈیا کو مقبوضہ کشمیر سے نکالیں۔ ان لوگوں کو عمران خان نے 14 اگست کی مظفر آباد والی تقریر میں معقول جواب دیا کہ لائن آف کنٹرول کو کراس کرنے والے نہ پاکستان کے دوست ہوں گے اور نہ ہی کشمیریوں کے۔ ایسے جذباتی لوگ پاکستان کو جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ کشمیر میں آگ اور خون کی ہولی جلد از جلد کھیلی جائے۔ دوسرا گروہ اس کے عین الٹ سوچ رکھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے پاکستان کو سنبھالیں پھر کشمیر کا بھی سوچ لیں گے۔ گویا کہ فی الحال پاکستان کو کشمیر کے بارے میں زیادہ فعال ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔
حکومت پاکستان نے جو پالیسی اختیار کی ہے وہ ان دو انتہائی افکار کے مابین ہے اور یہی صائب راستہ ہے۔ ایک اور پاک ہند جنگ کشمیر کے مسئلے کا حل نہیں ہو گی۔ لیکن پاکستان مقبوضہ کشمیر میں انڈین مظالم کا خاموش تماشائی بھی نہیں بن سکتا۔ ایک اندازے کے مطابق راولپنڈی سے لے کر لاہور تک جتنی آبادی ہے‘ اس میں تقریباً بیس فیصد کشمیری النسل ہیں۔ پاکستان کے دریا جموں اور کشمیر سے جنوب کی جانب بہتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور پھر کشمیر سے پاکستان جغرافیے کے علاوہ روحانی رشتے میں بھی بندھا ہوا ہے۔
مجھ سے اکثر یار لوگ سوال کرتے ہیں کہ انڈو پاک جنگ کے خدشات کتنے ہیں اور میرا جواب ہوتا ہے کہ بہت کم۔ استدلال یہ ہے کہ موجودہ معاشی حالت میں پاکستان کسی لمبی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگلا سوال یہ ہوتا ہے کہ پھر انڈیا کے لیے تو سنہری موقع ہے کہ پاکستان پر چڑھ دوڑے۔ میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ انڈیا کے لیے کشمیر میں فرنٹ کھولنا اس لیے مشکل ہے کہ ایسے حالات میں کشمیری عوام کے بھارت مخالف جذبات مزید شدید ہو جائیں گے اور ایسی صورت میں انڈیا یکسوئی کے ساتھ جنگ نہیں لڑ سکتا۔ اگر انڈیا پنجاب یا سندھ پر حملہ کرتا ہے تو اس کی نو لاکھ فوج کشمیر میں پھنسی ہوئی ہے۔ مزید برآں جنگ کی صورت میں اکثر بیرونی سرمایہ کار انڈیا سے کوچ کر جائیں گے اور بھارت کی اقتصادی گروتھ مزید سست پڑ جائے گی۔ دونوں ملک اس وقت جنگ لڑنے کی طرف راغب نہیں ہیں۔ اگر جنگ ہوئی بھی تو محدود ہو گی کیونکہ دو ایٹمی قوتوں میں بیچ بچاؤ کرانے والے بھی تیار ہوں گے۔ 
کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال میں چین‘ ترکی اور ملائیشیا پوری استقامت کے ساتھ پاکستان کی حمایت کرتے رہے۔ امریکہ اور روس بھی اس موقف پر قائم ہیں کہ کشمیر کے مسئلہ کا حل ہونا باقی ہے۔ اس ساری صورت حال میں ایران سے بھی دوستی کے واضح اشارے مل رہے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پچھلے چار ماہ سے انڈیا ایران سے تیل نہیں خرید رہا۔ شنید ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے بھی ایران نے لچک دکھائی ہے اور اب وہ ہرجانہ لینے پر بضد نہیں ہے۔ ایران نے ضرور اس بات کو بھانپ لیا ہے کہ پاکستان اپنے چند خلیجی دوستوں کے کشمیر کی حالیہ صورت حال پر رد عمل سے مایوس ہوا ہے۔ موجودہ حالات میں پاک ایران تعاون کا فروغ خوش آئند ہو گا۔ 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان پُر امن طریقے سے کشمیری بھائیوں کی کیسے مدد کر سکتا ہے؟ یہ کام چنداں مشکل نہیں بس قوت ارادی اور محنت کی ضرورت ہے اور تسلسل ٹوٹنا نہیں چاہیے۔ سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں اور کمیٹی لیول پر پاکستانی سفارت کار کشمیر کا ذکر اور وہاں انسانی حقوق کی حالت کا بیان تواتر سے کرتے رہیں۔
کشمیر کے حوالے سے سب سے زیادہ پذیرائی انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں ملی ہے۔ اسی حوالے سے زیادہ سے زیادہ اطلاعات پوری دنیا تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی شہادتوں کی پوری معلومات مع تصاویر ہونی چاہئیں۔ شہید کا نام ولدیت، ایڈریس، تاریخ شہادت اور انڈین آرمی کے یونٹ کا نام جس نے گولیاں چلائیں یہ سب معلومات ہمیں کتابچوں کی شکل میں محفوظ کرنی چاہئیں۔ یہ کتابچے انگلش، روس، ہسپانوی، فرانسیسی، عربی زبانوں میں تواتر سے چھپنے چاہئیں اور پوری دنیا میں تقسیم ہوتے رہنے چاہئیں۔
کشمیر میں بچوں اور خواتین کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ بھارتی درندے سپاہی خواتین کے ساتھ زیادتی کے مکروہ کھیل میں ملوث پائے گئے ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ خواتین اور بچوں پر ڈھائے گئے مظالم دنیا کو بتائیں اور اس مقصد کے لیے ہمیں کشمیری خواتین کے وفود یورپ اور نارتھ امریکہ بھیجنے چاہئیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ہمارے بھائیوں کو خشک راشن اور دوائیوں کی اشد ضرورت ہے۔ یہ انسانی امداد لائن آف کنٹرول کے پار بھیجنا ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں ہمیں یہ اشیاء انٹرنیشنل ریڈ کراس یا ڈاکٹرز بلا حدود تنظیم(Doctors Without Borders) کے حوالے کرنی چاہئیں کہ وہ یہ امانت مقبوضہ کشمیر پہنچا دیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ ہم مغربی پرنٹ اور الیکٹراک میڈیا تک کشمیر کہانی تواتر سے پہنچاتے رہیں۔ ہمیں حکومتی عہدے داروں اور یو این کے لوگوں کو باقاعدگی سے خط یا ای میل بھیجنے چاہئیں۔ سوشل میڈیا پر کشمیر کا ذکر جاری و ساری رہے‘ یہ بے حد ضروری ہے۔ انگلینڈ، امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں وقتاً فوقتاً پُرامن مظاہرے جاری رہیں۔ مختصر یہ کہ کشمیر کا احوال دنیا کے ذہن سے محو نہ ہونے پائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں