"JDC" (space) message & send to 7575

کامیاب قوموں کے اطوار

قوموں کی کامیابی ناپنے کے متعدد پیمانے ہیں مثلاً فی کس آمدنی، شرح خواندگی، زندگی کی طولانی، خوش دل لوگوں کا تناسب، متحرک اور مضبوط قومی ادارے‘ صوبوں اور عوام کا مناسب تال میل اور سب سے زیادہ یہ کہ اہداف کا صحیح انتخاب کر کے انہیں حاصل کرنے کی کامیاب حکمت عملی اور پھر اُس حکمت عملی کے مطابق انتھک محنت۔ اور اگر ان اہداف کو حاصل کرنے کے لئے اچھی قیادت مل جائے تو سفر اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔
میرے نزدیک آج کی دنیا میں تین کامیاب ترین ممالک ہیں اور وہ ہیں جاپان، جرمنی اور اسرائیل۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ امریکہ اب بھی دنیا کا طاقت ور ترین ملک ہے جس کا سکہ پورے عالم میں چلتا ہے۔ چین صرف چالیس سال کے مختصر عرصے میں دنیا کی دوسری بڑی اکانومی بن گیا ہے۔ سنگا پور آج سے ساٹھ سال پہلے ایک پسماندہ شہر تھا‘ آج یہ تعلیم، بینکنگ اور شپنگ میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ میں نے جرمنی، جاپان اور اسرائیل کو صف اول کے کامیاب ممالک میں اس لئے رکھا ہے کہ چند عشرے پہلے یہ تینوں اقوام تباہ حال تھیں۔ کامیابی کے دوسرے درجے پر میں امریکہ، برطانیہ، چین اور سنگا پور کو رکھوں گا۔ امریکہ دفاعی لحاظ سے دنیا کا سب سے پاور فل ملک ہے لیکن میرے خیال میں دفاعی طاقت کے علاوہ اعلیٰ تعلیمی ادارے اور ہنر مند افراد اس قوم کو سب سے ممتاز بناتے ہیں۔ آج کی دنیا میں سب سے زیادہ ریسرچ کا کام امریکہ میں ہوتا ہے۔ دنیا میں آج تک سات سو پچاس لوگوں کو نوبل انعام ملا ہے‘ اس میں سے تقریباً پانچ سو یا تو امریکی شہری ہیں یا وہاں پڑھے یا وہاں کام کرتے رہے اور شہریت اختیار کر لی۔ مگر امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے جنگوں میں کودنے کا بڑا شوق ہے۔ اگر امریکہ افغانستان اور عراق کی جنگوں کو شروع نہ کرتا تو آج بھی اکلوتی سپر پاور ہوتا۔ جنگیں اچھی خاصی قوموں کو کمزور کر دیتی ہیں۔
کامیاب اقوام میں ایک قدر مشترک اداروں کی مضبوطی اور میرٹ پر مبنی نظام ہے۔ امریکن ایئر پورٹس پر نائن الیون کے بعد سخت سکیورٹی چیکنگ شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ وہاں 75 سال سے کم تمام مسافروں کے جوتے اتروائے جاتے ہیں کسی کو استثنا حاصل نہیں‘ گوروں کالوں کے ساتھ ایک ہی سلوک کیا جاتا ہے۔ میرٹ کے اوپر قائم نظام کی ایک مثال یہ ہے کہ انڈیا سے امریکہ گئے ہوئے لوگوں کی اوسط آمدنی گورے امریکنوں سے زیادہ ہے کیونکہ انڈین امیگرنٹ زیادہ پڑھے لکھے ہیں۔ کامیاب ممالک میں ہر شخص کو جاب اس کی قابلیت کے مطابق ملتی ہے‘ وہاں سفارش نہیں چلتی اور پیسے دے کر جاب لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
امریکہ کے ہی اداروں کی مضبوطی اور فعالیت کی دو مثالیں اور دیکھ لیجئے۔ 1987 کی بات ہے‘ میں ریاض میں پاکستانی سفارت خانہ میں کونسلر تھا۔ امریکی سفارت خانہ میں میرے ہم منصب مسٹر پیٹرسن تھے۔ وہ میرے دوست بھی تھے۔ ان دنوں پاکستان امریکہ کا چہیتا تھا اور ریاض میں بھی دونوں ملکوں کے سفارت کاروں کا ملنا جلنا عام تھا۔ ایک روز میں مسٹر پیٹرسن کو ملنے امریکن ایمبیسی گیا تو وہاں سکیورٹی گیٹ سے گزر کر جانا ضروری تھا۔ سکیورٹی پر مامور ایک با وردی امریکن نے کہا کہ اگر آپ کے پاس کوئی سکے یا کار کی چابیاں ہیں تو نکال کر ٹرے میں رکھ دیں۔ میں نے اس کی ہدایت پر عمل کیا اور سکیورٹی گیٹ سے گزرا تو ساتھ ہی گھنٹی بج گئی۔ سکیورٹی آفیسر نے مجھے غور سے دیکھا اور کہا کہ آپ کی پتلون کی بیلٹ پر جو آہنی بکل لگا ہے اس کی وجہ سے گیٹ سے آواز آئی ہے‘ ایسے کریں کہ آپ بیلٹ اتار کر ٹرے میں رکھ دیں اور دوبارہ گیٹ سے گزریں۔ میں نے کہا کہ بیلٹ نہیں اتاروں گا‘ آپ مسٹر پیٹرسن کو بتا دیں کہ میں آیا تھا۔ یہ کہہ کر میں واپس اپنے سفارت خانے آ گیا۔
واپس اپنی ایمبیسی آیا تو پتہ چلا کہ امریکن ایمبیسی سے دو مرتبہ فون آیا ہے‘ امریکی کونسلر مسٹر پیٹرسن آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ بات ہوئی تو کہنے لگے کہ آج کے واقعے پر معذرت خواہ ہوں‘ میں کل آپ سے ملنے آؤں گا کئی باتیں ڈسکس کرنی ہیں۔ اگلے روز کونسلر پیٹرسن میرے آفس میں تھے۔ اپنی ایمبیسی کی سکیورٹی کے بارے میں کہنے لگے کہ ہمارے ہاں امریکن میرین کور( US Marine corps) والے یہ فرائض سرانجام دیتے ہیں اور یہ تمام ہدایات اپنے ہیڈ کوارٹر سے لیتے ہیں۔ ان کو امریکن سفیر بھی نہیں کہہ سکتا کہ فلاں شخص کی چیکنگ نہ کریں۔ اسے کہتے ہیں ڈویژن آف پاور اور با اختیار ادارے۔ چیک اینڈ بیلنس امریکی دستور کا حصہ ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حکم دیا کہ ترکی عسکری ایکشن کی وجہ سے شمالی شام میں تعینات سپیشل فورسز کے ایک ہزار فوجی فوراً واپس بلائے جائیں۔ امریکن کانگریس یعنی پارلیمنٹ نے سخت نوٹس لیا اور بھاری اکثریت سے ایک قرارداد صدر کے فیصلے کے خلاف پاس کی۔ امریکہ میں پارلیمنٹ ایک مقتدر ادارہ ہے۔ صدر ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کے کئی ارکان نے ان کے فیصلے کے خلاف ووٹ دیا۔
سنگا پور کے عظیم لیڈر لی کوان یو کو یقین تھا کہ جب تک کرپشن کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہو جاتا ان کا ملک ترقی نہیں کر سکتا؛ چنانچہ لی کوان یو نے پوری قوت سے کرپشن کی بیخ کنی کی اور پھر سنگا پور نے جو حیرت انگیز ترقی کی وہ ہم سب کے سامنے ہے حالانکہ سنگا پور کے پاس کوئی خاص قدرتی وسائل بھی نہیں۔ اس کے برعکس مثال نائیجیریا کی ہے جو تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود اقتصادی مشاکل کا شکار ہے کیونکہ وہاں کرپشن کا جن بوتل میں بند نہیں ہو سکا۔
انتھک محنت کامیابی کی کنجی ہے۔ جاپان میں ٹریڈ یونین پیداوار بڑھانے کے طریقے ڈسکس کرتی ہیں۔ جرمن بھی انتہائی محنتی قوم ہے۔ اسرائیل نے صحرا کو گل و گلزار بنا دیا۔ ٹیکنالوجی میں ترقی کا یہ عالم ہے کہ جدید ترین اسلحہ وہاں بن رہا ہے۔ اسرائیل اسلحے کا بہت بڑا ایکسپورٹر ہے۔ وہاں معیار زندگی ہمسایہ عرب ممالک سے بہت بہتر ہے۔
ایک پُر امن معاشرہ ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔ سنگا پور کے لی کوان یو سے کسی پاکستانی لیڈر نے پاکستان کی ترقی کے امکانات کے بارے میں پوچھا تو جواب سیدھا اور کھرا تھا اور وہ یہ تھا کہ میں زیادہ پُر امید نہیں ہوں کیونکہ پاکستانی سوسائٹی میں ہم آہنگی کا خاصا فقدان ہے‘ یہاں لوگ آپس میں لڑتے ہیں اور عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے۔
کامیاب اقوام میں ڈسپلن صاف نظر آتا ہے۔ امریکہ میں اگر کوئی پیدل سڑک کراس کر رہا ہو تو سامنے سے آنے والی کاریں رک جاتی ہیں۔ اسرائیل کے سابق وزیر دفاع موشے دیان نے کہا تھا کہ میں اُس دن سے ڈرتا ہوں جب عرب لائن بنانا سیکھ جائیں گے۔ چین میں حکومت حکم دیتی ہے کہ بچہ ایک ہی اچھا تو کسی کو دوسرا نور نظر پیدا کرنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ بنگلہ دیش کی ترقی کا ایک راز کامیاب فیملی پلاننگ پروگرام بھی ہے۔
کامیاب اقوام صنعتی پیداوار، معیاری پروڈکشن اور کام کی عظمت کو اہمیت دیتی ہیں۔ میں جب بھی کسی امریکی سفیر کو ملنے گیا تو اکثر انہیں یہ کہتے سُنا کہ اگر چائے یا کافی پینی ہے تو چلئے کچن سے بنا کر لاتے ہیں۔ ان کے دفاتر میں چائے لانے والے ویٹر یا چپڑاسی نہیں ہوتے۔ کامیاب اقوام تجارت کو بہت اہمیت دیتی ہیں۔ وہ اہم تجارتی شراکت داروں سے بنا کر رکھتی ہیں۔ سیاسی اختلافات کو تجارتی مفادات پر حاوی نہیں ہونے دیتیں۔ اس کی ایک مثال چین کے صدر شی کا پچھلے ہفتے کا دورۂ بھارت ہے۔
کامیاب اقوام وقت کی بے حد پابند ہوتی ہیں۔ سُنا ہے کہ جاپان میں ایک دفعہ ریلوے ٹرین ایک منٹ پہلے چل گئی تھی تو ریلوے کے چیف نے مسافروں سے باقاعدہ معافی مانگی۔ یہ اقوام پالیسی کے تسلسل کو بہت اہمیت دیتی ہیں۔ وہاں حکومت کے بدلتے ہی پالیسی نہیں بدلتی۔ عظیم دیوار چین کو مکمل کرنے میں ہزاروں سال لگے تھے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں