"JDC" (space) message & send to 7575

ہمارے عہد کے نان سٹیٹ ایکٹرز

بیسویں صدی کے نصف آخر میں نان سٹیٹ ایکٹرز کا کئی ملکوں نے فارن پالیسی اہداف کے حصول کے لئے استعمال کیا۔ مشرقی پاکستان میں انڈیا نے مکتی باہنی کا استعمال کامیابی سے کیا۔ افغانستان پر سوویت قبضے کے بعد امریکہ اور پاکستان نے سات افغان تنظیمات کی مدد کی۔ کچھ نان سٹیٹ ایکٹرز آزادی کے حصول کی خاطر جدوجہد کرتے رہے مثلاً الجزائر میں بن بیلا کی تحریک‘ جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی سرگرم جماعت اور ویت نام میں ویت کانگ‘ جنہیں چین اور روس کی حمایت حاصل تھی۔ ہمارے عہد کی بہت ہی متاثر کن جدوجہدِ آزادی منظم طریقے سے پی ایل او نے یاسر عرفات کی اعلیٰ قیادت میں چلائی‘ جو بوجوہ اپنے اکثر اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ مجھے یاد ہے کہ 1970ء کی دہائی میں یاسر عرفات کی تنظیم کا سحر دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ فیض احمد فیض بیروت میں مقیم تھے اور پی ایل او کے انگلش میگزین کی ادارت کرتے تھے۔ پچھلے دنوں یو ٹیوب پر معروف لکھاری مستنصر حسین تارڑ کا انٹرویو دیکھا تو پتہ چلا کہ جوانی میں وہ بھی فلسطینی تنظیم آزادی کا حصہ بننا چاہتے تھے۔
عجیب رومانوی دور تھا اور عربوں کے علاوہ غیر عرب بھی یاسر عرفات کی تحریکِ آزادی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے تھے۔ میں اُن دنوں دمشق میں پوسٹڈ تھا۔ ایک روز ایک پاکستانی نوجوان کسی کام کے سلسلے میں سفارت خانے آیا۔ میں نے پوچھا‘ کام کیا کرتے ہو؟ تو اس نے بتایا کہ پی ایل او کی ٹیلی فون ایکس چینج میں کام کر رہا ہوں۔ کہنے کا مقصد ہے کہ پی ایل او والے حساس کاموں کے لئے پاکستانیوں پر پورا اعتماد کرتے تھے۔ اب یہ باتیں افسانہ لگتی ہیں۔ نان سٹیٹ ایکٹرز کا کردار رو بہ زوال ہے اور اس میں سب سے بڑا رول نائن الیون جیسے واقعات کا ہے۔ کل کے آزادی کے سپاہی آج دہشت گردوں کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔ 
اب آتے ہیں عہدِ حاضر کے نان سٹیٹ ایکٹرز کی جانب۔ اس وقت طالبان‘ داعش اور القاعدہ معروف گروہ ہیں۔ القاعدہ اور طالبان تقریباً ہم عمر ہیں‘ جبکہ داعش کا ظہور چند سال پہلے ہوا‘ 2014 میں‘ اور دیکھتے ہی دیکھتے داعش نے عراق اور شام کے بڑے علاقے اور وسائل پر قبضہ کر لیا۔ جتنی تیزی سے اس تنظیم نے عروج حاصل کیا‘ اس کا زوال بھی ویسے ہی شتابی سے ہوا۔ پچھلے دنوں اس تنظیم کے لیڈر ابو بکر بغدادی شمالی شام کے شہر الرّقہ کے قریب ایک حملے میں مارا گیا۔ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اپنے لیڈر کے مارے جانے کے بعد کیا یہ تنظیم زندہ رہے گی؟
القاعدہ کی دہشت ایک عرصے سے پوری دنیا میں قائم ہے‘ حالانکہ تازہ ترین تحقیق کے بعد پتہ چلا ہے کہ اسامہ بن لادن کا نائن الیون کے واقعے سے تعلق نہیں تھا۔ اسامہ بن لادن کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ اس کی فیملی کافی عرصہ پہلے یمن سے آ کر سعودی عرب میں آباد ہوئی تھی۔ یہ تاجر لوگ تھے‘ جب سعودی عرب میں 1973ء کے فوراً بعد بڑے بڑے ترقیاتی پراجیکٹ شروع ہوئے تو اس فیملی کو کافی ٹھیکے ملے۔ یہ حکمران خاندان کے خاص متعمد لوگ تھے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 1991ء کی جنگ‘ عراق کی قابض افواج کو کویت سے نکالنے کے لئے لڑی گئی تھی۔ اس جنگ میں شرکت کے لئے امریکہ اور دیگر ملکوں کی افواج سعودی عرب آئی تھیں۔ جنگ کے بعد کچھ امریکی سولجر دمام اور ظہران کے علاقے میں تیل کی تنصیبات کی حفاظت کے لئے تعینات کر دیئے گئے تھے۔ اسامہ بن لادن نے مطالبہ کیا کہ امریکی فوجیوں کو مقدس اراضی سے نکالا جائے۔ سعودی حکومت نے اسامہ کی شہریت منسوخ کر دی اور اسے سوڈان میں پناہ لینا پڑی۔ دو تین سال بعد وہ افغانستان منتقل ہو گیا۔
القاعدہ کی بنیاد ڈاکٹر عبداللہ عزام نے افغانستان میں رکھی تھی۔ جہاد کے بارے میں مقبول نظریہ یہ ہے کہ اسے مسلم ملک کی حکومت کی حمایت سے ہی شروع کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عزام کا نظریہ تھا کہ مسلم ممالک کی حکومتیں چونکہ مغرب کے زیر ا ثر ہیں‘ لہٰذا جہاد پرائیویٹ طور پر بھی شروع کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عزام کا یہ نظریہ متنازع ضرور ہے‘ لیکن اس کے اثرات دور رس تھے۔ معروف عرب جرنلسٹ رامی خوری کا کہنا ہے کہ القاعدہ نے مصری جیلوں میں جنم لیا اور افغانستان کے پہاڑوں میں پروان چڑھی۔ بادی النظر میں القاعدہ اور طالبان بہت ہی مختلف تنظیمیں لگتی ہیں۔ طالبان خالصتاً افغان تنظیم تھی جس میں اکثریت پشتون کمیونٹی کی تھی۔ طالبان کا فوکس صرف افغانستان پر تھا‘ جبکہ القاعدہ کی لیڈرشپ عربوں کے پاس تھی۔ اسے پان اسلامک (Pan-Islamic) تنظیم کہا جا سکتا ہے۔ طالبان اور القاعدہ میں تعاون کا طالبان کو بہت فائدہ ہوا‘ اس لئے کہ القاعدہ والے نسبتاً زیادہ پڑھے لکھے اور ہنر مند تھے۔ طالبان نے بارودی سرنگیں بنانے اور انٹرنیٹ کا استعمال القاعدہ والوں سے سیکھا۔ لیکن یہ دوستی افغانستان کو مہنگی پڑی۔ انٹرنیشنل کمیونٹی نے 1998ء میں طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکال دے۔ شنید ہے کہ ملا عمر بڑی حد تک اس مطالبے کو پورا کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے‘ لیکن بالآخر انہیں پختون روایات کا احترام کرنا پڑا کیونکہ پختون ولی‘ جو کہ ان روایات کا مقامی نام ہے‘ کے تحت میزبان اپنے مہمان کو گھر سے نکال نہیں سکتا‘ خاص طور پر اگر اُس نے پناہ لی ہوئی ہو۔
ان تینوں تنظیموں میں سے صرف طالبان تحریک اب بھی فعال ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی فوج کا وجود طالبان کی سرگرمیوں کو جواز بخشتا ہے‘ دوسرے القاعدہ اور داعش کے مقابلے میں طالبان نے اپنے نظریات میں لچک رکھی ہے مثلاً آج کے طالبان تعلیم نسواں کے خلاف نہیں۔ امریکہ اور انٹرنیشنل کمیونٹی نے تینوں تنظیموں میں سے صرف طالبان کے ساتھ مذاکرات کئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حکومت پاکستان نے امریکہ سے بارہا کہا کہ طالبان اور القاعدہ کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا درست نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آدھے افغانستان پر طالبان کا کنٹرول ہے‘ وہاں کسی بھی دیرپا حل کے لئے طالبان سے بات چیت ضروری ہے۔
ان سب تنظیموں میں سے داعش سب سے خطرناک سمجھی جاتی ہے۔ اس پر مغربی صحافیوں کے قتل اور عراقی عورتوں کی بے حرمتی کے الزامات ہیں۔ داعش نے باہر کی دنیا سے بات کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا‘ حالانکہ اگر وہ ظلم و ستم نہ کرتے تو انہیں باہر سے ہمدردی اور حمایت مل سکتی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایران‘ کرد اور امریکہ سب ان کے خلاف متحد ہو گئے۔ داعش اپنا بیشتر علاقہ کھو بیٹھی ہے اور اس کا لیڈر بھی مارا گیا ہے ‘ آج سے تین چار سال پہلے پورا یورپ داعش سے خائف تھا‘ یورپ سے ہزاروں نوجوان داعش کے ساتھ لڑنے شام اور عراق آ رہے تھے۔
اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ ان نان سٹیٹ ایکٹرز کا مستقبل کیا ہے۔ میری رائے میں ان سب کا مستقبل تاریک ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں عہدِ حاضر کے حقائق‘ جدید تعلیم اور فنی مہارتوں سے نا بلد ہیں۔ یہ روشن مستقبل کے لئے کوشش کرنے کی بجائے ماضی کی عظمت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انہیں انسانی حقوق‘ جمہوریت‘ آئین اور پارلیمنٹ کی اہمیت کا ادراک نہیں۔ مختصر یہ کہ طرزِ کہن پر اَڑے ہوئے ہیں اور آئینِ نو سے خائف ہیں۔ 
اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ ان نان سٹیٹ ایکٹرز کا مستقبل کیا ہے۔ میری رائے میں ان سب کا مستقبل تاریک ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں عہدِ حاضر کے حقائق‘ جدید تعلیم اور فنی مہارتوں سے نا بلد ہیں۔ یہ روشن مستقبل کے لئے کوشش کرنے کی بجائے ماضی کی عظمت میں پھنسے ہوئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں