"JDC" (space) message & send to 7575

پچاس سالہ او آئی سی

اسلامی تعاون تنظیم Organization of Islamic Co-operation یعنی او آئی سی 1969 میں معرض وجود میں آئی تھی۔ اس طرح تنظیم نے اپنے پچاس سال مکمل کر لئے ہیں۔ جدہ میں اس سلسلے میں تنظیم کا خصوصی اجلاس ہوا‘ جہاں پاکستان کی نمائندگی وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات محترمہ فردوش عاشق اعوان نے کی۔ پچاس سال گزرنے کے بعد یہ مناسب ہو گا کہ اس تنظیم کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد اسلامی دنیا کی وحدت کی آخری علامت یعنی سلطنت عثمانیہ تحلیل ہو گئی۔ سلطنت کو ختم کرنے کی قرارداد ترکی کی نیشنل اسمبلی نے خود پاس کی۔ مصطفی کمال اتاترک کی قیادت میں متحرک ترکوں کی نئی قیادت یہ سمجھتی تھی کہ سلطنت اندرونی اور بیرونی محاذوں پر ترکی کے زوال اور پسپائی کی ذمہ دار تھی۔ ہر کمال کو زوال آتا ہے اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ سلطنت عثمانیہ اپنے آخری دور میں انحطاط کا شکار ہو چکی تھی۔ مگر مسلمانانِ ہند آخری وقت تک سلطنت کے حق میں جذباتی نعرے لگاتے رہے۔
مسلمانانِ ہند انڈیا میں اپنی بگڑتی ہوئی پوزیشن کے سبب دیگر اسلامی ممالک سے جذباتی لگائو رکھتے تھے اور یہ ایک فطرتی رد عمل تھا۔ سلطنت عثمانیہ کے تحلیل ہونے کے بعد مسلمان ممالک کے پاس کوئی کامن پلیٹ فارم نہیں تھا۔ پھر 1969ء میں ایک ایسا خوفناک واقعہ رونما ہوا جو پوری اسلامی دنیا کے لیے کرب کا باعث بنا۔ مسلمانوں کے قبلۂ اول یعنی مسجد اقصیٰ کو نذرِ آتش کر دیا گیا تھا۔ 
تمام مسلم ممالک کے سربراہ مراکش کے شہر رباط میں جمع ہوئے۔ پاکستانی وفد کی قیادت اس وقت کے صدر جنرل محمد یحییٰ خان نے کی۔ جب وفود کمرۂ اجلاس میں پہنچے تو پاکستانی وفد کو انڈین نمائندے کو دیکھ کر حیرت ہوئی۔ وجہ یہ تھی کہ انڈیا میں مسلمان اقلیت میں ہیں‘ اس لیے انڈیا کو کسی اعتبار سے مسلم ملک نہیں کہا جا سکتا۔ جب ممبر شب نہ ملی تو انڈیا نے او آئی سی میں مبصّر کے طور پر آنے کی کوشش کی مگر یہاں پھر پاکستان کی مخالفت کا سامنا تھا۔ او آئی سی کا چارٹر یہ واضح طور پر کہتا ہے کہ کسی ایسے ملک کو بطور مبصر تنظیم میں شامل نہیں کیا جائے گا جس کا کسی ممبر ملک کے ساتھ تنازع ہو۔ اس کے باوجود انڈیا نے اپنا کیس پلیڈ کرنے کے لیے چند خلیجی ممالک کو شیشے میں اتار لیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ او آئی سی کی کامیابیاں اتنی نہیں ہیں جتنی کہ اس سے توقع تھی لیکن یہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ اس تنظیم کے پلڑے میں ناکامیاں ہی ناکامیاں ہیں۔ تو آئیے اس کی معدودے چند کامیابیاں بیان کرتے ہیں۔ 1970 میں اردنی حکومت اور پی ایل او کے درمیان تنازعہ پریشان کن صورت اختیار کر گیا تھا۔ او آئی سی اور عرب لیگ نے ایک مشترکہ وفد عمان بھیجا جو دو ممتاز شخصیات کے زیر قیادت گیا تھا۔ اس وفد میں او آئی سی کی نمائندگی سعودی عرب کے شاہ فیصل مرحوم کر رہے تھے جبکہ عرب لیگ کی مصر کے صدر جمال عبدالناصر مرحوم۔ اس ہائی پاور وفد نے فریقین کے مابین صلح کرا دی۔ معاہدے میں شامل تھا کہ پی ایل او اردن سے نقل مکانی کر جائے گی اور عرب لیگ اس بات کا اقرار کرے گی کہ صرف پی ایل او ہی فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم ہے۔ او آئی سی کی دوسری کامیابی شیخ مجیب الرحمن کو ڈھاکہ سے لاہور اسلامی سمٹ کے لیے لانا تھا۔ اس طرح بنگلہ دیش اس تنظیم کا ممبر بنا اور پاکستان نے اسے تسلیم بھی کر لیا۔
اس تنظیم کی تیسری بڑی کامیابی 1980 کی دہائی میں افغانستان سے سوویت فوجوں کی واپسی کے لیے سیاسی حمایت تھی۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ سال میں دو تین مرتبہ ایک متفقہ قرارداد پاس کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن یہ قراردادیں جدہ اور دیگر شہروں کے علاوہ نیو یارک میں بھی تواتر سے پاس ہوتی رہیں اور مجھے یاد ہے کہ اقوام متحدہ کے تقریباً نوّے فیصد ممبران قرارداد کے حق میں ووٹ دیتے تھے اور ان میں پچاس سے زائد اسلامی ممالک کے ووٹ ہوتے تھے۔ نیویارک میں او آئی سی کا نمائندہ آفس ہے جو اقوام متحدہ سے ہمہ وقت رابطے میں رہتا ہے۔ اسلاموفوبیا اور انسانی حقوق کے حوالے سے او آئی سی کا مؤقف بھی پیش کرتا ہے۔
اور اب آتے ہیں او آئی سی کی ناکامیوں کی جانب جو خاصی نمایاں ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 1980 کی دہائی میں ایران، عراق جنگ ختم کرانے کے لیے اس تنظیم نے خاصی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکی۔ پاکستان کے صدر جنرل ضیا الحق امن کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جدہ میں ہونے والے ایک اجلاس میں پی ایل او کے چیئرمین یاسر عرفات کی اس تجویز پر غور کیا گیا کہ امن قائم کرنے کے لیے مسلم ممالک کے فوجی دستے ایران، عراق بارڈر پر کھڑے کر دیئے جائیں۔ اس تجویز کے خلاف رائے یہ تھی کہ یہ قابل عمل نہیں اور امن لاتے لاتے کئی بے گناہ سولجر مارے بھی جا سکتے ہیں۔ اس امن کمیٹی سے ایران کا اصرار تھا کہ پہلے جارح کا تعین کر لیا جائے یعنی صاف الفاظ میں یہ بتایا جائے کہ جنگ کس نے شروع کی۔ امن کمیٹی ایران کا یہ مطالبہ پورا نہ کر سکی۔ اب ایران کا یہ کہنا تھا کہ او آئی سی غیر جانبدار نہیں ہے۔ ایران نے آئندہ فارن منسٹرز کانفرنس کا‘ جو بغداد میں ہو رہی تھی‘ بائیکاٹ کیا اور اس طرح امن کمیٹی اپنے اہداف حاصل نہ کر پائی۔
پاکستان کے صدر سائنس اور ٹیکنالوجی کمیٹی COMSTEC کے مستقبل ہیڈ ہیں۔ کامسٹیک کا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں ہے‘ لیکن یہ کمیٹی بھی اپنے شعبے میں کوئی قابل ذکر کام نہیں کر سکی۔ 2011 کے بعد سے عرب ممالک میں افراتفری ہے۔ لیبیا، عراق، شام، لبنان، مصر اور یمن‘ سب عدم استحکام کا شکار ہیں۔ او آئی سی کو چاہئے تھا کہ ایک غیر جانبدار تھنک ٹینک کا کام کرتے ہوئے سیاسی اور سماجی بے چینی کے اسباب کا تعین کرتی اور حکمرانوں کے لیے قابل عمل تجاویز ترتیب دیتی مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلامی تنظیم یہ کام بھی نہ کر سکی۔ 
پاکستان کا او آئی سی میں رول ہمیشہ سے فعال رہا ہے اور ہماری توقعات بھی بہت تھیں۔ کشمیر کاز کی سیاسی مدد کے لیے یہ تنظیم ہمارے لئے بہت اہم ہے۔ 1994ء میں تہران میں ایک اجلاس میں تنظیم نے ایک کشمیر رابطہ گروپ بنایا تھا لیکن انڈیا اس گروپ کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ پاکستان کے سید شریف الدین پیرزادہ تنظیم کے سیکرٹری جنرل رہے۔ پاکستان نے فلسطین کے مسئلے کو ہمیشہ اپنا مسئلہ سمجھا اور بڑھ چڑھ کر سپورٹ کی۔
اس سال مارچ میں ہونے والے او آئی سی کے وزارتی اجلاس میں انڈیا کی وزیر خارجہ سشما سوراج کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا تھا۔ یہ اجلاس ابوظہبی میں ہوا تھا اور دعوت متحدہ عرب امارات کی حکومت کی جانب سے بھیجی گئی تھی۔ پاکستان کے لیے یہ امر حیران کن تھا۔ بالا کوٹ کے زخم بھی نئے نئے تھے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس اجلاس میں نہیں گئے، جس میں سشما نے خطاب کرنا تھا اور یہ فیصلہ بالکل درست تھا۔ اس کے بعد شاید او آئی سی کو احساس ہوا کہ پاکستان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ چند ماہ پہلے تنظیم نے کشمیر کے لیے ایک خصوصی نمائندے کا تعین کیا ہے۔
اس کی ناقص کارکردگی کے باوجود پاکستان کی اس تنظیم سے اب بھی امیدیں وابستہ ہیں، اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ حال ہی میں پاکستان نے او آئی سی کے لیے اپنا پہلا ہمہ وقتی سفیر مقرر کیا ہے جو جدہ میں مقیم ہو گا۔ پہلے یہ کام ریاض میں سفیر کے ذمے تھا۔ سچ پوچھیں تو مجھے اس تنظیم کا مستقبل زیادہ درخشاں نہیں لگتا۔ ممبر ممالک مراکو سے لے کر انڈونیشیا تک پھیلے ہوئے ہیں‘ جن میں قدر مشترک صرف مذہب ہے۔ خارجہ پالیسی میں نظریاتی فیکٹر دن بدن کمزور ہو رہا ہے۔ او آئی سی کے اکثر ممبر ممالک سالانہ چندہ تک نہیں دیتے۔ باہمی تجارت بہت ہی کم ہے۔ لہٰذا اس تنظیم کا مستقبل بھی اس کے ماضی جیسا ہو سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں