"JDC" (space) message & send to 7575

بیرونِ ملک پاکستانی سیاست

سرکاری اعداد و شمارکے مطابق اس وقت 88لاکھ پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں‘ ان میں سے 47لاکھ مڈل ایسٹ میں کام کر رہے ہیں اور ہماری زرِ مبادلہ کی ترسیلات بھی زیادہ تر مڈل ایسٹ سے آ رہی ہیں۔ اس سلسلے میں دو ملک بہت اہم ہیں ایک سعودی عرب اور دوسرا متحدہ عرب امارات۔ ان ممالک میں نہ تو سیاسی جماعتیں ہیں اور نہ ہی انتخابات کے ذریعے قومی حکومتوں کا چناؤ ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ممالک میں بھی پاکستانی سیاسی جماعتیں کسی حد تک فعال ضرور ہیں۔ وہ یہ بھی چاہتی ہیں کہ وہاں مقیم پاکستانی ووٹروں کو ووٹنگ کا حق حاصل ہو اور اس عمل کیلئے انہیں پاکستان نہ جانا پڑے۔ میرے خیال میں ایسا کرنا ہمارے قومی مفاد کے خلاف ہوگا۔مگر اس کا کیا کیا جائے کہ سیاست ہماری گھٹی میں شامل ہے۔ یورپ کے متعدد مالک میں جیالے ذوالفقار علی بھٹو کے جنم دن کی تقریب کا اہتمام کرتے ہیں۔ پاکستانی جہاں بھی چلا جائے یہاں کی سیاست اس کے ساتھ جاتی ہے‘ مگر کبھی آپ نے سنا کہ انڈیا میں مقیم امریکی لوگوں نے صدر جان کینیڈی کا جنم دن دہلی میں منایا ہو یا آبپارہ چوک اسلام آباد میں امریکی ڈیمو کریٹک اور ری پبلکن پارٹیوں کے جلوس نکلے ہوں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا‘ اس لیے کہ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اپنی سیاست اپنے ملک تک محدود رکھتے ہیں۔
امریکہ کے سابق نائب صدر ایل گور کا مشہور واقعہ یاد آ رہا ہے‘ 2000ء میں امریکہ کے صدارتی الیکشن میں جارج بش اور ایل گور کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا تھا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے امریکی صدارتی انتخاب بالواسطہ ہوتا ہے‘ عوام اپنے نمائندگان کا انتخاب کرتے ہیں اور ان کے منتخب نمائندے عوام کی خواہشات کے مطابق کسی ایک صدارتی امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں۔ عوامی ووٹ ایل گور کو زیادہ ملے تھے‘ مگر جیت جارج بش کی ہوئی۔ آخر میں ریاست فلوریڈا میں ووٹوں کی گنتی پر اختلاف رائے تھا‘ معاملہ سپریم کورٹ تک گیا۔ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے جارج بش کے حق میں فیصلہ دیا‘ جبکہ چار ججوں کی رائے میں ایل گور کے ووٹ زیادہ تھے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جارج بش فاتح امیدوار قرار پائے۔ ایل گور نے ا علیٰ عدلیہ کا فیصلہ خوشی خوشی قبول کیا۔ الیکشن کے جلد بعد وہ بیرونِ ملک گئے ‘وہاں اُن سے پوچھا گیا کہ انہوں نے الیکشن کے متنازع نتائج کیوں قبول کئے؟ ایل گور کا جواب تھا کہ میں امریکی سیاست کو ملک کے باہر ڈسکس کرنا پسند نہیں کرتا اور دوسری بات یہ ہے کہ امریکی مفادات جارج بش اور میری اَنا سے زیادہ اہم ہیں۔مگر ہمارے لیڈر بیرون ملک جا کر اپنے پاکستانی مخالفین کو خوب لتاڑتے ہیں اور انہیں اس بات کا قطعاً احساس نہیں ہوتا کہ فارنر ہم پر ہنس رہے ہوں گے۔
مجھے 1990ء کا ریاض کا واقعہ یاد آ رہا ہے۔ جہانگیر بدر مرحوم فیڈرل منسٹر تھے‘ وہ سعودی عرب کے سرکاری دورے پر آئے۔ ریاض میں مقیم پیپلز پارٹی کے چند لوگ انہیں ملنے رائل گیسٹ پیلس آئے اور تجویز کیا کہ کسی مقامی ہوٹل میں پارٹی کا جلسہ کیا جائے۔ سیاسی لیڈروں کی ہمیشہ خواہش ہوتی ہے کہ انہیں پاکستانی سامعین ملیں‘ جن کے سامنے وہ دھواں دار تقریر فرما سکیں۔ وزیر موصوف نے تجویز کا خیر مقدم کیا اور فیصلہ ہوا کہ جلسے کی جگہ کا فیصلہ کرنے سے پہلے سفارت خانے سے مشورہ کر لیا جائے۔ ولی اللہ خویشگی اُن دنوں سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر تھے‘ قاعدے قانون کے مطابق چلتے تھے اور اس بات پر انہیں یقین تھا کہ سعودی حکومت کو ناراض کرنا کسی صورت پاکستانی مفاد میں نہیں اور مقامی روایات اور قوانین کا پاس رکھنا بے حد اہم ہے۔ وزیر موصوف نے سفیر صاحب سے رابطہ کیا اور وہ رائیل گیسٹ پیلس آ گئے۔ جیالے جلسہ کرنے پر مُصر تھے‘ سفیر صاحب منطق اور قومی مفاد کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ سعودی عرب میں ہماری کسی بھی سیاسی جماعت کا جلسہ ہمارے لیے سودمند نہیں ہوگا۔ جس ملک میں اپنی کوئی سیاسی جماعت نہیں ‘وہ دوسرے ممالک کو سیاسی عمل یا جلسوں کی اجازت کیوں دے گا؟ لمبی بحث کے بعد فیصلہ ہوا کہ جلسہ ہوگا ‘مگر پاکستان سکول میں ہوگا؛ چنانچہ اگلے روز جلسہ ہوا اور جیالوں نے خوب جنرل ضیا الحق اور نواز شریف کو گالیاں نکالیں‘ جبکہ سعودی حکومت ان دونوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھی‘ لہٰذا وہاں اس نوعیت کا جلسہ کوئی اچھا فیصلہ نہ تھا۔ کاش ہمارے لیڈر سابق امریکی نائب صدر ایل گور جیسی سوچ رکھیں اور بیرونِ ملک اپنی پارٹی سیاست کو پاکستانی مفاد کے زیر نظر کنٹرول میں رکھیں۔
سابق آئی جی ذوالفقار چیمہ‘ جو شاندار پولیس کیریئر کے بعد اب اعلیٰ پائے کی کالم نگاری کرتے ہیں‘ اس موضوع پر لکھ چکے ہیں۔ اس موضوع پر ان کا مضمون حال ہی میں چھپنے والی ان کی کتاب Straight Talk میں شامل ہے۔ لبِ لباب یہ ہے کہ پاکستانی سیاسی جماعتوں کو اپنی سیاست پاکستان تک ہی محدود رکھنی چاہیے اور پاکستان سے باہر متحد ہو کر ایک پلیٹ فارم سے بات کرنی چاہیے۔ چیمہ صاحب ایک متحرک شخصیت کے مالک ہیں‘ اہل فکر و دانش کو اکٹھا کر کے فہم اور تفہیم کی غرض سے محافل ترتیب دیتے رہتے ہیں‘ دوستوں کا وسیع حلقہ رکھتے ہیں‘ لہٰذا ایسی محافل میں کرسیاں کبھی خالی نہیں ہوتیں۔ پچھلے ماہ موصوف نے ایک ایسی ہی محفل اسلام آباد کلب میں برپا کی۔ موضوعات میں قومی اداروں کے مابین مکالمہ اور بیرونِ ملک پاکستانی سیاست دونوں شامل تھے۔ سامعین نے سابق سیکرٹری خارجہ امور جناب ریاض کھوکھر‘ قمر زمان کائرہ اور ڈاکٹر نثار چیمہ ایم این اے کی پرمغز باتیں سنیں۔ سب اس بات پر متفق تھے کہ بیرونِ ملک پاکستانی سیاست نہیں ہونی چاہیے‘ مگر سب سے دلچسپ بات ایک معروف اینکر نے بیان کی۔ موصوف امریکہ گئے ہوئے تھے کہ پاکستان ڈے بھی آ گیا۔ ایک پاکستانی تنظیم کا فون آیا کہ ہم اسی مناسبت سے فنکشن کر رہے ہیں۔ یہ اٹینڈ کرنے کی حامی بھر بیٹھے تو دوسری پاکستانی تنظیموں کے بھی فون آنا شروع ہو گئے کہ ہم بھی پاکستان ڈے کا فنکشن کر رہے ہیں‘ آپ ہمارے ہاں بھی آئیں۔ آخر میں فیصلہ یہ کیا گیا کہ جس تنظیم نے سب سے پہلے مدعو کیا تھا صرف اُسی کا فنکشن اٹینڈ کیا جائے۔ ان پر یہ بات واضح ہو گئی کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مساجد بنائی ہوئی ہیں‘ یہ تقریب میں حسبِ وعدہ گئے اور پاکستانیوں کو اتحاد کی تلقین کی۔ اس کے بعد امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے انہیں فون کیا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ جب یہ اُن سے ملے تو ایف بی آئی والوں نے ان کی اتحاد والی نصیحت کو بہت سراہا اور کہا کہ امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی بہت منقسم ہے۔ پاکستانی اکثر ایک دوسرے کے خلاف شکایتیں کرتے رہتے ہیں اور ایسی شکایتوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ‘مجھے یقین ہے کہ ان شکوے شکایتوں کے پیچھے ہماری سیاسی دھڑے بندی ہے جس کی وجہ سے ہمارا بیرون ملک امیج بُری طرح متاثر ہوا ہے۔
بیرون ملک سیاست کا ایک اور شاخسانہ سمندر پار پاکستانیوں کیلئے حق رائے دہی ہے۔ ووٹ دینا ہر پاکستانی کا حق ہے‘ لیکن اکثر سیاسی جماعتیں یہ ڈیمانڈ کرتی نظر آتی ہیں کہ سمندر پار بسنے والے پاکستانیوں کو اس حق کو استعمال کرنے کیلئے پاکستان نہ آنا پڑے۔ میں اس تجویز کے حق میں نہیں ہوں اور میرا استدلال یہ ہے کہ خلیجی ممالک کسی طرح کے بھی سیاسی عمل کو پسند نہیں کرتے دوسرے آن لائن ووٹنگ کا ایک محدود تجربہ ستمبر 2018ء میں چند ضمنی انتخابات میں ہوا تھا ‘جو ناکام رہا۔ بہت کم لوگوں نے ووٹ ڈالا‘ وجہ یہ ہے کہ آن لائن ووٹنگ کیلئے آئی ٹی لٹریسی ضروری ہے۔ قومی الیکشن کے وقت ہر پاکستانی ووٹر اپنے حلقہ میں ہی ووٹ دے سکتا ہے۔ اگردبئی میں کام کرنے والے کسی پاکستانی کو ووٹ دینا ہے تو وہ شوق سے ایک دو روز کیلئے پاکستان آ جائے اور آخری بات یہ کہ آن لائن ووٹنگ میں دھاندلی کا احتمال موجود ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاسی جماعتوں کو بیرونِ ملک اپنے دفاتر بند کر دینا چاہیں اور تمام پاکستانیوں کو بیرون ملک متحد ہو کر ملک کیلئے کام کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں