"JDC" (space) message & send to 7575

نئیں ریساں شہر لاہور دیاں

لاہور میرا پسندیدہ شہر ہے۔ کئی دنوں سے اپنے محبوب شہر کے بارے میں لکھنے کا سوچ رہا تھا۔ بہت سے عنوان ذہن میں آئے لیکن بالآخر درج بالا ٹائٹل پسند آیا کہ یہ میرے گورنمنٹ کالج لاہور کے کلاس فیلو اعجاز انور کی لاہور کے بارے میں کتاب کا بھی عنوان ہے۔ 
کسی بھی شہر کو جانچنے کے مختلف معیار ہیں۔ میرے ایک دوست‘ جو جہاں نورد ہیں‘کے مطابق اچھا شہر وہ ہوتا ہے جہاں پیدل چلنے والے آرام سے گھوم پھر سکیں۔ شہر کو گریڈ کرنے کے دو بڑے زاویے جغرافیائی اور بشری ہیں۔ جغرافیائی طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ سڑکیں کتنی کشادہ ہیں‘ ٹریفک کتنی روانی سے چلتی ہے‘ پارک کیسے ہیں۔ اشیائے صرف خریدنے کیلئے مارکیٹیں کتنے کتنے فاصلے پر ہیں۔ بشری لحاظ سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ کتنے بااخلاق اور پرجوش ہیں۔ دوستی میں کتنے وفا شعار اور ثابت قدم ہیں۔
شیخ سعدیؒ اپنے زمانے کے بہت مشہور جہاں نورد اور معلم اخلاق تھے۔ ان کی تصانیف گلستان اور بوستان سبق آموز کہانیوں اور اچھے اخلاق کی نصیحتوں سے لبریز ہیں۔ شیخ سعدیؒ نے کئی سال مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں گزارے۔ ایک مرتبہ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو سب سے اچھا شہر کون سا لگا۔ جواب میں شیخؒ نے ایک غیر معروف سے قصبے کا نام لیا۔ جب سوال کنندہ نے حیرت کا اظہار کیا اور وجہ پوچھی تو شیخ سعدیؒ کا جواب تھا کہ اس قصبہ میں میرے سب سے زیادہ دوست ہیں۔ لاہور مجھے اس لئے زیادہ پسند ہے کہ وہاں میرے متعدد دوست ہیں اور اکثر کے ساتھ تعلق نصف صدی سے بھی پرانا ہے۔
میں لاہور 1961 میں بطور فرسٹ ائیر فول آیا اور 1973 میں بطور سفارت کار نکلا۔ اسی شہر میں ڈھائی تین سال اسلامیہ کالج سول لائنز میں پڑھایا۔ اس غریب پرور شہر کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ لاہور کو کالجوں اور باغات کا شہر کہا جاتا تھا۔ 1961 میں شہر کی کل آبادی سولہ لاکھ تھی۔ شہر میں کاریں معدودے چند تھیں۔ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ رواں دواں رہتی تھی۔ ڈبل ڈیکر بس کی اوپر والی منزل پر سفر کرنے کا مزاہی اور تھا۔ اس وقت کے لاہور کی فضا صاف تھی اور سموگ نام کی آفت ابھی نازل نہیں ہوئی تھی۔ شہر میں پیدل چلنے کا رواج عام تھا۔ میکلوڈ روڈ اور سرکلر روڈ پر تانگے عام چلتے تھے۔ مڈل کلاس کے لوگ سائیکلوں پر سفر کرتے تھے یا تانگوں پر۔ جس شخص کے پاس ویسپا سکوٹر ہوتا تھا اسے بڑا خوش حال سمجھا جاتا تھا۔
لاہور شہر کی شناخت اس کی تاریخی عمارتوں انارکلی بازار اور مال روڈ‘ جسے ٹھنڈی سڑک بھی کہا جاتا تھا‘ کے حوالے سے تھی۔ اس شہر کا طرۂ امتیاز اس کا تنوع تھا۔ یہاں گامے ماجھے بھی خوشی خوشی رہتے تھے۔ اشرافیہ اور صاحب لوگ گلبرگ‘ جی او آر یا ماڈل ٹائون میں رہتے تھے۔ اینگلو پاکستانی کمیونٹی گڑھی شاہو کے آس پاس رہتی تھی۔ اس شہر میں رند بھی رہتے تھے اورزاہد بھی اور کوئی ایک دوسرے سے تعرض نہیں کرتا تھا۔ داتا کی نگری میں ہر کوئی اپنے حال میں خوش تھا۔
ہم بی اے میں آئے تو ہمارا مسکن نیو ہوسٹل ٹھہرا‘ جو ضلع کچہری کے سامنے واقع ہے۔ چونکہ اب ہم سینئر ہو چکے تھے لہٰذا کواڈرینگل ہوسٹل والی سختیاں نہیں تھیں اور سینئر ہوئے تو ہوسٹل پریفیکٹ بھی یا کلاس فیلو تھے یا دوست۔ اس زمانے میں انتہا پسندی یا دہشت گردی کا کسی کو علم بھی نہ تھا۔ ویک اینڈ پر رات گئے ہم کرائے کی سائیکلوں پر چار روم میٹ فلم سٹوڈیوز کی طرف جاتے تھے اور ملتان روڈ پر واقع سٹوڈیوز میں فلم کی شوٹنگ دیکھ کر صبح کے تین بجے واپس آتے تھے۔ زیبا اور محمد علی کی شوٹنگ مل جائے تو بے حد خوش ہوتے تھے۔ سمن آباد سے آگے آبادی خال خال تھی۔ عام شہری کی زندگی خاصی محفوظ تھی۔
علم و دانش اور کھیل لاہور کا امتیاز تھے۔ اس کے علاوہ خوش خوراکی بھی لیکن اس کا ذکر بعد میں علیحدہ سے آئے گا۔ علم کے حصول کا بڑا ذریعہ تو کالج اور دانش گاہیں تھیں لیکن اس کے علاوہ وائی ایم سی اے میں ہر ہفتے حلقہ ارباب ذوق کی میٹنگ ہوتی تھی۔ پروفیسر انجم رومانی‘ پروفیسر شہرت بخاری اور ایڈووکیٹ اکبر لاہوری یہاں بڑی باقاعدگی سے آتے تھے اور اپنی نگارشات بھی پیش کرتے تھے۔ میں اپنے دوست فیض احمد کے ساتھ وہاں اکثر جاتا تھا۔ بہت دھیمی‘ سنجیدہ اور پرمغز بحث ہوتی تھی۔ بعد میں حلقہ ارباب ذوق بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک دھڑا ادب برائے ادب کا حامی تھا تو دوسرے گروہ نے ادب برائے زندگی کے شعار کو اپنایا۔ یہ دراصل دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم تھی جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ پروفیسر امین مغل اور پروفیسر عزیزالدین احمد بائیں بازو کے دانش وروں کے سرخیل تھے۔
حلقہ ارباب ذوق کے علاوہ بیورو آف نیشنل ری کنسٹرکشن (BNR) میں شاندار محفلیں ہوتی تھیں۔یہ سرکاری ادارہ تھا لیکن یہاں سیاسی اور ادبی دونوں قسم کے لوگ آتے تھے۔ اس زمانے کا گورنمنٹ کالج لاہور بڑی حد تک غیر سیاسی تھا۔ دائیں اور بائیں بازو کے لوگ تب خاموشی سے کام کرتے تھے۔ یہ نعروں اور توڑ پھوڑ کا زمانہ نہیں تھا۔ طالب علموں کی پوری توجہ پڑھائی اور امتحان پر مرکوز تھی۔ یونین کے الیکشن میں امیدوار اپنی تعلیمی قابلیت کے علاوہ کھیلوں اور مباحثوں میں کارکردگی کا ڈھول بجاتے تھے۔ کبھی کسی برادری کا ذکر نہیں ہوتا تھا نہ ضلعی پس منظر کا۔
گورنمنٹ کالج میں ان دنوں بائیں بازو کے ہمدرد دو طالب علم نمایاں تھے۔ ایک طارق علی تھے جن کا تعلق ایک پڑھے لکھے اور متمول خاندان سے تھا لیکن اپنے آپ کو عوامی ظاہر کرنے کیلئے وہ سائیکل پر عام سے کپڑوں میں کالج آتے تھے۔ سنتے تھے کہ طارق علی کو ایک لمبی سی کار اولڈ کیمپس کے پاس ڈراپ کرتی ہے اور وہاں سے وہ سائیکل پر سواری شروع کرتے ہیں۔ کالج کے بعد طارق علی نے بیشتر زندگی انگلینڈ میں گزاری۔ دوسرے سرخے امان اللہ خان تھے لیکن کالج میں سرخ انقلاب کی وہ بھی کھل کر بات نہیں کرتے تھے۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ بہت متحرک تھے اور انگریزی فر فر بولتے تھے۔ بعد میں پیپلز پارٹی جوائن کی اور کھدر پوش ہو گئے‘ لیکن پارٹی میں زیادہ دیر چل نہ سکے کیونکہ نظریاتی تھے۔اس زمانے کے لاہور کے بہت سے نوجوان ریگل چوک سے لے کر چیئرنگ کراس تک سیر کرتے پائے جاتے تھے۔ ہمارے لئے تو خیر نوبجے سے پہلے پہلے ہوسٹل آنا ضروری تھا لیکن بعض لوگ مال روڈ پر آدھی رات تک پھرتے تھے۔ مال روڈ اس زمانے میں پیدل چلنے والوں کی جنت تھی۔
ہمارے کالج میں شعیب ہاشمی‘ شمیم احمد (بعد میں شمیم ہلالی) اور نگار احمد ڈرامہ کلب میں بڑے سرگرم تھے۔ بی اے اور ایم اے میں مخلوط تعلیم تھی۔ کالج کے سامنے والے اوول گرائونڈ میں بعض اوقات لڑکے لڑکیاں مخلوط کرکٹ کھیلتے تھے اور پھر کبھی کبھار کالج کے پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد بھی کھیل میں شامل ہو جاتے۔ان جیسا طلبا میں ہر دل عزیز استاد میں نے نہیں دیکھا۔
اس وقت کے لاہور میں ہم ہوسٹل میں ڈیڑھ سو روپے ماہانہ میں گزارہ کرتے تھے۔ یہ وہ گورنمنٹ کالج تھا جہاں گورنر ایسٹ پاکستان عبدالمنعم خان نے اپنے دونوں بیٹوں کو داخل کرایا تھا‘دونوں ہمارے ہوسٹل میں رہتے تھے۔ 1960 کی دہائی کے لاہور میں غیر ملکی مشروب کا حصول چنداں مشکل نہ تھا لیکن گورنمنٹ کالج لاہور کے پڑھاکو طالب علموں کی اکثریت اس علت سے محفوظ تھی۔ پرانی انارکلی کی نکڑ پر ایسی ایک دکان تھی جب بھی اولڈ کیمپس میں سٹوڈنٹ ہنگامہ ہوتا تو اس دکان پر پتھرائو ضرور ہوتا۔ سنا ہے کہ کچھ طالبعلم غصے میں بوتلوں کو توڑتے تو کچھ بغل میں دبا کر بھاگ جاتے تھے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں