"JDC" (space) message & send to 7575

نئیں ریساں شہر لاہور دیاں …(2)

پچھلے کالم میں یہ لکھا تھا کہ 1960 کی دہائی کا لاہور غریب پرور شہر تھا۔ اس کی تشریح کچھ ایسے ہے کہ 1969 میں میری تنخواہ ساڑھے تین سو روپے تھی۔ میں اسلامیہ کالج میں پڑھاتا تھا اور وائی ایم سی اے میں مقیم تھا۔ اس تنخواہ میں میرا گزارہ ہو جاتا تھا۔ وائی ایم سی اے سے کالج پیدل آتا جاتا تھا۔ دو شاندار لائبریریاں بالکل قریب تھیں۔ ایک برٹش کونسل اور دوسری یو ایس آئی ایس کی امریکن لائبریری جو بینک سکوائر میں تھی لہٰذا یہ جگہ کالج سے قریب ہونے کے علاوہ سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کے لئے بھی نہایت موزوں تھی۔ اس زمانے کے لاہور شہر میں تانگہ ایک اہم سواری تھی۔ تانگے کا کوچوان سارا دن کام کرنے کے بعد شام کو فلم ضرور دیکھتا تھا۔ سکرین کے سامنے والی اور نچلی منزل کی سینما ٹکٹ بارہ آنے کی تھی۔ زیادہ عیاشی کا موڈ ہوتا تو یہی کوچوان فلم دیکھ کر لکشمی چوک جاتا اور ایک روپے کی دال چاول کی پلیٹ مزے سے کھاتا۔ اس وقت کے لاہور میں غریبوں کے لئے تفریح کا سامان موجود تھا۔
لاہور ایک زمانے سے افکار اور سیاست کا منبع رہا ہے۔ یہ اعزاز اسی شہر کو حاصل ہوا کہ 1940 میں قرارداد پاکستان یہاں منظور ہوئی۔ 1942 میں یہاں جماعت اسلامی کی تاسیس ہوئی۔ 1968 یہاں پاکستان پیپلز پارٹی تشکیل پائی۔ 1968 میں ایوب خان کے خلاف تحریک راولپنڈی سے شروع ہوئی مگر آخر میں لاہور کا رول فیصلہ کن تھا۔ کچھ ایسی ہی صورت حال پی این اے کی تحریک کی بھی تھی جس میں سب سے اہم رول لاہور کی تاجر برادری کا تھا۔ لاہور فن اور افکار کا شہر ہے۔ 1960 کی دہائی میں یہاں سے نقوش‘ فنون اور ادب لطیف جیسے پائے کے ادبی مجلے شائع ہوتے تھے۔ یہ شہر ادیبوں اور فنکاروں کا مسکن تھا۔ یہ لوگ کافی ہائوس‘ چائینزلنچ ہوم اور پاک ٹی ہائوس میں گھنٹوں گفتگو کرتے۔ لاہور کی اشرافیہ کی بیٹھک شیزان میں لگتی تھی اور وہ اس وجہ سے وہاں جاتے تھے کہ معیار شاندار تھا‘ صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا تھا اور سروس مستعد تھی۔
لیکن نوجوانوں کی ایک ایسی قسم بھی تھی جو نئے نئے کالجوں سے نکلے تھے۔ 1960 کی دہائی کے اواخر میں لاہور نظریاتی طور پر منقسم تھا۔ ایوب خان کے جانے کے بعد لبرل بہت خوش تھے۔ پیپلز پارٹی بنی تو بہت سارے نظریاتی سرخے اس کی چھتری تلے آ گئے۔ دوسری جانب دائیں بازو کی جماعتیں بھی کمزور نہ تھیں۔ پنجاب یونیورسٹی کی یونین کا صدارتی عہدہ حفیظ خان نے جمعیت کے پلیٹ فارم سے جیتا تھا۔ اسلامیہ کالج میں بائیں بازو کی سیاست زوروں پر تھی۔ طالب علموں کے علاوہ اساتذہ بھی سیاست زدہ ہو چکے تھے۔ جذبات ایسے بپھرے ہوئے تھے کہ ایک روز پتہ چلا کہ مولانا کوثر نیازی اور شورش کاشمیری باقاعدہ گتھم گتھا ہو گئے۔ لیکن یہ واقعہ ایک استثنائی حادثہ تھا۔ مال روڈ پر مغرب کے بعد مختلف افکار کے لوگ رات گئے تک گھومتے۔ اکثر کی جیبوں میں واجبی سے پیسے ہوتے تھے۔ لاہوری اصطلاح میں انہیں فقرے کہا جاتا تھا لیکن یہ لوگ اپنے حال میں مست تھے۔ ریگل سینما کو جانے والی گلی کے شروع میں ایک چائے کا کھوکھا تھا۔ کھوکھے کے سامنے چند موڑھے رکھے ہوئے تھے۔ یار لوگ اسے کیفے ڈی موڑھا کہتے تھے۔ یہاں بارہ آنے کا ہاف سیٹ منگوا کر وہ مارکس اور اینجلز کے نظریات کو زیر بحث لاتے۔ ان نظریات کے حق میں اور ان کے خلاف دلائل دئیے جاتے جو گھنٹوں تک چلتے۔ ریگل سے چیئرنگ کراس تک کی مال روڈ ان نوجوانوں کیلئے سیر کی جگہ تھی۔ ٹریفک کم تھی۔ زندگی کی رفتار قدرے سست مگر مزیدار تھی۔
ایک مرتبہ ہم تین چار دوست گورنمنٹ کالج سے قذافی سٹیڈیم ٹیسٹ میچ دیکھنے گئے۔ جاتے ہوئے تو بس میں جگہ مل گئی لیکن واپسی پر رش کی وجہ سے بس میں سوار نہ ہو سکے؛ چنانچہ پورا فاصلہ پیدل چل کر طے کیا۔ تب سائیکل سوار اور پیدل لوگ آرام سے لاہور کی سڑکوں پر سفر کرتے تھے۔ اسلامیہ کالج میں ہمارے اکنامکس کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پروفیسر مسعودالحق صدیقی سمن آباد میں مقیم تھے اور کالج آنے جانے کیلئے سائیکل استعمال کرتے تھے۔ ہمارے نیو ہوسٹل کے دنوں میں صرف تین چار لڑکوں کے پاس موٹر سائیکل یا سکوٹر تھا۔ میرے کلاس فیلو اور روم میٹ سردار سکندر لغاری کے پاس سکوٹر تھا۔ سکندر مجھے اور اجمل ملک کو رات گئے گلبرگ لے جاتا اور ہمیں سکوٹر چلانے کی پریکٹس کراتا۔ یہ عمل لبرٹی رائونڈ ابائوٹ کے پاس ہوتا تھا۔ لبرٹی مارکیٹ ابھی نہیں بنی تھی۔ اس سڑک پر ملکہ ترنم نور جہاں کا گھر آخری عمارت ہوتی تھی۔ رات دس بجے کے بعد یہ سڑک تقریباً ویران ہوتی تھی لہٰذا کسی بھی اناڑی کو سکوٹر سکھانے کیلئے آئیڈیل تھی۔ ویسے میں اجمل ملک کے مقابلے میں سکوٹر سیکھنے میں خاصا سلو اور نالائق تھا۔
1963 میں جب میں نے بی اے آنرز میں داخلہ لیا تو ہم اکنامکس میں صرف پانچ طالب علم تھے اور ہمارا نصاب عام بی اے سے مختلف تھا۔ کلاس میں دو بہت ہی لائق سٹوڈنٹ تھے۔ ایک تھا مشرقی پاکستان سے عمر فاروق جو دن رات پڑھتا تھا۔ عمر فاروق 1970 میں سول سروس آف پاکستان میں آیا اور بنگلہ دیش میں فیڈرل سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوا۔ منیر قریشی ایچی سن کالج سے انٹر کر کے آیا تھا۔ اس کی انگلش بہت اچھی تھی۔ اکنامکس پر اسے مکمل عبور تھا۔ وہ نصابی کتابیں پڑھنے کے علاوہ انگلش فکشن پڑھنے کا شوقین تھا۔ اچھی انگلش فلمیں دیکھنا بھی اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ میری منیر قریشی سے دوستی ہو گئی جس کا مجھے بہت فائدہ ہوا۔ منیر کی اچھی عادت یہ تھی کہ اکنامکس کا جو چیپٹر شروع کیا اسے مکمل ضرور کرنا ہے۔ ہم گرمیوں کے دنوں میں بینک سکوائر میں واقع امریکن لائبریری میں گھنٹوں مطالعہ کرتے۔ میں نے اسی عرصہ میں نصابی کتابوں کے علاوہ برٹرینڈ رسل کو اچھی طرح پڑھ لیا۔ چھٹی والے دن ہم دونوں مل کر انگریزی فلم دیکھنے ریگل یا پلازہ سینما جاتے۔ منیر نے سی ایس ایس کا امتحان دیا اور انکم ٹیکس سروس میں آیا۔ اس زمانے کے لاہور کا عمومی ماحول علم دوست تھا اور ذہنی افق کی وسعت کے لئے سازگار تھا۔
لاہور تب بھی خوش خوراک اور زندہ دل لوگوں کا شہر تھا۔ موہنی روڈ کے اکھاڑے آباد تھے۔ یونیورسٹی گرائونڈ‘ منٹو پارک‘ لارنس گارڈن‘ قذافی سٹیڈیم‘ ہر جگہ کرکٹ اور ہاکی کھیلی جاتی تھی۔ گورنمنٹ کالج اور لاہور جم خانہ میں ٹینس اچھے معیار کی ہوتی تھی۔ منٹو پارک میں جب بھی گورنمنٹ کالج کا کوئی اہم میچ ہوتا تو ہم ہوسٹل سے نکل کر پیدل اندرون شہر کے راستے وہاں پہنچ جاتے۔
لاہور کا سپورٹس سین دریائے راوی کی بوٹنگ کے بغیر مکمل نہ تھا۔ گورنمنٹ کالج کا اپنا بوٹنگ کلب اور کشتیاں تھیں۔ گورنمنٹ کالج کے لڑکے لڑکیاں انگلش مباحثوں‘ سوئمنگ‘ ٹینس‘ بوٹنگ میں اکثر سبقت لے جاتے تھے۔ ہمارے کالج کے پاس ارشاد اللہ خان جیسے ڈیبیٹر‘ وحید اللہ وائن جیسے پیراک اور ذوالفقار رحیم جیسے ٹینس کے کھلاڑی تھے۔ اس کے علاوہ تعلیم کا معیار بھی شاندار تھا۔
اسلامیہ کالج کے وسائل نسبتاً محدود تھے۔ گورنمنٹ کالج اور ایف سی کالج ٹاپ کے تعلیمی ادارے سمجھے جاتے تھے لیکن اسلامیہ کالج کھیلوں میں خوب مقابلہ کرتا تھا۔ یہاں سپورٹس کی ترویج میں فزیکل ایجوکیشن کے دو استادوں کا اہم رول تھا اوریہ حضرات تھے پروفیسر دلدار بیگ مرزا اور شیخ رمضان علی۔ یہ دونوں حضرات اچھے پلیئر کو دور سے پہچان لیتے تھے۔ وہ دور دراز کے کھلاڑیوں کو کالج میں داخلہ دلوانے ان کی فیس معاف کروانے اور ان سے ہر وقت رابطے میں رہتے۔ مجھے یاد ہے کہ سکواش کے معروف کھلاڑی ہدایت جہاں کو مرزا صاحب کوئٹہ سے لائے تھے۔ شیخ رمضان علی شیخوپورہ کے رہنے والے تھے۔ وہ ویک اینڈ پر گھر جاتے اور باقی سارا ہفتہ کھلاڑیوں کیلئے وقف تھا۔ اس محنت کا نتیجہ یہ تھا کہ اسلامیہ کالج کرکٹ اور ہاکی میں گورنمنٹ کالج کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا تھا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں