"JDC" (space) message & send to 7575

نئیں ریساں شہر لاہور دیاں …(3)

لاہوری عمومی طور پر خوش اخلاق، گرم جوش اور خوش لباس لوگ ہیں۔ اپنی زندہ دلی اور خوش خوراکی کی وجہ سے دور دور تک معروف ہیں۔ آپ کسی روایتی حلوائی یا دودھ دہی کی دکان پر جائیں تو وہاں بیٹھا ہوا پہلوان دور سے کہتا ہے آئو جی ، بسم اللہ۔ یہی وہ پہلوان تھے جن کی وجہ سے موہنی روڈ کے اکھاڑے آباد تھے۔ یہ وہ شہر ہے جس نے رستم پاکستان پیدا کئے۔ کرکٹ اور ہاکی کے اعلیٰ کھلاڑی بھی لاہو کی نرسری سے اٹھے۔ 
پچھلے کالم میں ذکر آیا تھا کہ لاہور مفکرین اور سیاست دانوں کا شہر ہے۔ مفکروں میں سب سے بڑا نام تو علامہ اقبال کا ہے۔ پنجاب کے کسی بھی علاقے کا کوئی بھی بڑا سیاست دان ہو اس کا ایک گھر لاہور میں ہوگا۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں لاہور کی اشرافیہ اپنے سوٹ ریگل کے قرب و جوار میں اعلیٰ قسم کے ٹیلرز سے سلواتی تھی۔ اس زمانے میں مڈل کلاس کے لیے اچھے ریسٹورنٹ بیڈن روڈ پر ہوتے تھے۔ تکہ ، کباب کے رسیا صفاں والا چوک یا مزنگ چونگی جاتے تھے۔ پھر یہ کاروبار ایبٹ روڈ تک پھیل گیا اور وہاں ٹکا ٹک کی آوازیں آنے لگیں۔ آج کل اچھے ریسٹورنٹ ایم ایم عالم روڈ پر ہیں۔
لاہور کے دسترخوان کی نوعیت بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی ہے۔ 1970ء کے آس پاس یہاں چینی ریسٹورنٹ آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت مقبول ہو گئے۔ 1947ء کے بعد لاہور میں آبادی بھی بڑھی اور برادریوں کا تناسب بھی بدلا۔ کشمیری برادری اچھی خاصی تعداد میں مشرقی پنجاب سے آ گئی۔ اب شام کے وقت ابلے ہوئے چاول اور دن میں سری پائے ڈائننگ ٹیبل کی زینت بنے۔ ہریسہ، کلچے‘ شب دیگ انواع و اقسام کے ماکولات لاہور میں ملنے لگے۔ نائن الیون کے بعد پختون یہاں آنے لگے اور پھر شنواری ریسٹورنٹ بننے لگے۔ لاہور کی خوبی یہ ہے کہ باہر سے آنے والوں کے لئے یہاں ہمیشہ جگہ رہتی ہے لاہور کی بانہیں اجنبیوں کے لیے ہمیشہ کھلی رہتی ہیں اور کچھ عرصے بعد وہ اپنے آپ کو اجنبی محسوس نہیں کرتے۔
اس زمانے کے لاہور میں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد کے قرب و جوار میں دو تین گلیاں تھیں جہاں رقص و سرود کا اہتمام ہر شام ہوتا تھا اور رات گئے تک ساز و آواز کی محفلیں سجتی تھیں۔ اس علاقے سے زیادہ منفرد موسیقار فلم انڈسٹری میں بھی گئے۔ چند لڑکیوں نے فلم سٹار بن کر شہرت پائی مگر یہاں کچھ اور بھی ہوتا تھا۔ گورنر ملک امیر محمد خان کو لاہور کی زندگی کا یہ رخ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا؛ چنانچہ نواب کالا باغ نے قانون سازی کے ذریعے اس پیشے سے لاہور کو پاک کرنا چاہا۔ اس کام سے متعلق لوگوں کو اب دو تین گلیوں میں کاروبار سے روک دیا گیا۔ نواب صاحب نے یہ کام مکمل نیک نیتی سے کیا تھا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد شرفا کی بستیوں میں کئی لوگ شکایت کرنے لگے کہ قرب و جوار میں مشکوک لوگ آ گئے ہیں۔ شاید گورنر صاحب نے غلام عباس کا افسانہ آنندی نہیں پڑھا تھا ورنہ وہ اپنے حکم کے عواقب کا بھی سوچتے۔ ہمارے حکمرانوں میں پڑھنے لکھنے اور دور اندیشی کی روایت خاصی کمزور رہی ہے۔
لاہور اولیاء اللہ کا شہر ہے۔ یہ شیخ علی ہجویریؒ عرف داتا گنج بخش کی بستی ہے‘ جو یہاں ایمان کے خزانے تقسیم کرتے رہے۔دوسری روحانی ہستی حضرت میاں میرؒ ہیں جو مسلمانوں کے علاوہ سکھوں کے بھی مرشد ہیں۔ میں نے شاہ عبدالمعالیؒ کا مزار بھی دیکھا ہے جو لکشمی چوک کے پاس میکلوڈ روڈ کے عقب میں مدفون ہیں۔ حضرت بلھے شاہؒ کے پیر و مرشد شاہ عنایت قادریؒ بھی لاہور ہی میں آرام فرما رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق لاہور میں چالیس کے قریب اولیاء اللہ کے مزار ہیں۔ 
مذہبی رواداری لاہور شہر کی روایت رہی ہے۔ یہاں محرم میں عزاداروں کے جلوس نکلتے ہیں تو سنی راستے میں سبیلوں کا انتظام کرتے ہیں۔ ماضی قریب میں دیکھی گئی انتہا پسندی میڈ ان لاہور نہیں تھی بلکہ یہ علاقائی حالات کا شاخسانہ تھی۔ لاہور شہر کی عظیم رواداری کی بڑی علامت حضرت مادھو لال حسینؒ ہیں‘ جن کے عرس پر میلہ چراغاں لگتا ہے۔
لاہور علم و فن سے محبت کرنے والوں کا شہر ہے۔ ہمارے گورنمنٹ کالج لاہور کے مشہور پرنسپل ڈاکٹر سید نذیر احمد خالص لاہوری تھے۔ بیالوجی میں ڈاکٹریٹ کرنے کلکتہ یونیورسٹی گئے۔ ساری عمر سائنس پڑھی مگر موسیقی سے بہت لگائو تھا۔ پرنسپل بننے سے قبل گورنمنٹ کالج کے بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے۔ مگر ساتھ ہی وہ کالج کی معروف ادبی تنظیم مجلس اقبال کے صدر بھی تھے۔ اردو ادب کے حوالے سے مجلس اقبال نہایت وقیع نشست تھی جو ہر ہفتے منعقد ہوتی تھی۔ ہر نشست کی صدارت کے لیے کالج کے باہر سے کسی مشہور ادبی شخصیت کو بلایا جاتا۔ موضوعات کا عمومی انتخاب تعلیمی سال کے شروع میں ہو جاتا۔ سارے سال کے پروگرام کی منظوری ڈاکٹر نذیر خود دیتے۔ آج کا لاہور ایسی ہمہ جہت شخصیات کم کم پیدا کر رہا ہے۔
ڈاکٹر نذیر درویش صفت انسان تھے۔ ہر طالب علم ان کے آفس میں بہ آسانی جا سکتا تھا۔ وہ طالب علموں کی بات غور سے سنتے اور ان کے مسائل حل کرنے میں لگے رہتے؛ البتہ ایک صفت ان کی عام لاہوریوں کے مقابلے میں خاصی مختلف تھی اور وہ یہ کہ لباس کے معاملے میں بہت سادہ تھے۔ عام طور پر اچکن شلوار اور عام سا کھسہ پہنتے۔ اچکن کے اوپر کے دو بٹن اکثر کھلے ہوتے تھے۔ اپنے لمبے گھنے بالوں کو پیچھے کرتے رہتے تھے۔ اپنی سادگی، علم دوستی اور خلوص کی وجہ سے وہ طالب علموں کے دلوں پر راج کرتے تھے۔ کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر نواب کالا باغ انہیں پسند نہیں کرتے تھے۔ شاید وجہ یہ رہی ہو کہ اس درویش صفت عظیم انسان کو دربار شاہی میں زیادہ جانے کی عادت نہیں تھی۔ ایک روز خبر آئی کہ ڈاکٹر صاحب کا تبادلہ کر دیا گیا ہے اور سنٹرل ٹریننگ کالج کے پرنسپل اے جی بٹ صاحب جی سی کے ہیڈ ہوں گے۔ طالب علموں پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔ طلبہ نے کلاسوں کا بائیکاٹ کیا۔ حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا اور نواب کالا باغ جیسے تگڑے گورنر کو خفت اٹھانا پڑی۔
اس وقت کا لاہور دو حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک پرانا شہر جو اونچی فصیل کے پیچھے تھا اور دوسرا نیا شہر جو لوئر مال سے چھائونی تک تھا۔ ماڈل ٹائون آزادی سے چند سال پہلے تعمیر ہوا تھا۔ گلبرگ اور سمن آباد 1950ء کی دہائی میں آباد ہوئے۔ فیروزپور روڈ پر واقع جنرل ہسپتال لگتا تھا کہ شہر سے بہت باہر ہے۔ فارن سروس اکیڈمی والٹن میں تھی۔ میں آر اے بازار سے بس لے کر اپنے دوست امتیاز انجم کو ملنے والٹن جاتا تو راستے میں ہر طرف کھلے میدان نظر آتے ۔یہ 1971ء کی بات ہے اور ڈیفنس ابھی آباد نہیں ہوا تھا۔
ماڈرن لاہور کی تعمیر میں جو شخصیت سب سے نمایاں نظر آتی ہے وہ سر گنگا رام کی ہے۔ اس عظیم سول انجینئر نے متعدد وسیع اور شاندار عمارتیں تعمیر کرائیں‘ جن میں لاہور میوزیم، ایچی سن کالج، نیشنل کالج آف آرٹس، جنرل پوسٹ آفس، لیڈی میکلیگن کالج، جی سی کا کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ، ہیلی کالج آف کامرس، میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر ونگ‘ سر گنگا رام سکول (موجودہ لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی) معذور افراد کے لیے راوی روڈ ہائوس شامل ہیں۔ لیکن سب سے بڑھ کر گنگا رام ہسپتال ہے جو لاہور کے لیے اس انسان دوست شخص کا انمول تحفہ ہے۔ میرے سابق کولیگ خالد احمد نے سر گنگا رام کو فادر آف ماڈرن لاہور لکھا ہے۔
مشہور انڈین دانشور، جرنلسٹ اور مصنف خوشونت سنگھ کو لاہور سے بہت محبت تھی۔ وہ 1947 کے بعد متعدد بار پاکستان آئے۔ ان دوروں میں وہ کوشش کرتے تھے کہ لاہور اور خوشاب ضرور جائیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ لاہور میں مجھے کنیئرڈ کالج نے ایک فنکشن پر بلایا اور کچھ ہی عرصہ بعد دہلی کے ایک گرلز کالج نے بھی مجھے جو بشری جمال لاہور میں نظر آیا وہ دہلی میں نہیں۔
لاہور والوں کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ تاریک سے تاریک بات میں روشن پہلو تلاش کر لیتے ہیں۔ بس مجھے موجودہ لاہور سے یہ شکایت ہے کہ ضرورت سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ پیدل چلنے والوں اور سائیکل سواروں کے لیے اب وہاں آسانیاں کم ہیں۔ فاصلے لمبے ہو گئے اور ٹریفک بہت زیادہ‘ لہٰذا ریٹائرمنٹ کے بعد اسلام آباد میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں