"JDC" (space) message & send to 7575

پاک عرب ثقافتی تعاون

جب ثقافتی تعاون کی بات ہوتی ہے تو ذہن میں فوراً رقص اور موسیقی کا خیال آتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مذکورہ بالا دونوں شعبے ثقافت کا حصہ ہیں لیکن کلچر وسیع تر میدان ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ثقافت پورے طرز زندگی، سوچ کے دھاروں اور تاریخی پس منظر پر محیط ہے۔ اگلے روز وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ ہم سعودی عرب کے ساتھ ایک ورکنگ گروپ کو پھر سے فعال کر رہے ہیں تا کہ مشترکہ تاریخی ورثے اور ثقافتی روایات پر کام ہو سکے۔ میرے نزدیک یہ نہایت مستحسن قدم ہے۔
ہم 1947ء سے قومی شناخت کی تلاش میں ہیں۔ ہمارے لبرل دوست یہ کہتے ہیں کہ پاکستان ثقافتی اعتبار سے صرف اور صرف بر صغیر کا حصہ ہے۔ ہمارے لباس، عوامی رقص، کھانے، زبان اور محاورے بہت مشابہت رکھتے ہیں اگر مذاہب مختلف ہیں تو کیا ہوا۔ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے۔ مجھے سریندر کور کے پنجابی فوک گیت ایک زمانے سے پسند ہیں۔ انڈین فلمیں کالج کے زمانے میں بہت دیکھیں، اور اب بھی بہت سے پاکستانی بالی ووڈ کی فلمیں دیکھتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انڈین اور پاکستانی کلچر ایک ہیں کیونکہ فلمیں تو ہم ہالی ووڈ کی بھی دیکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا، انٹرنیٹ پر مہیا اخبار اور سیٹلائٹ ٹی وی چینلز پر ہمیں لمحہ بہ لمحہ پتہ چلتا رہتا ہے کہ لندن اور نیو یارک میں کیا ہو رہا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم مغربی کلچر کا حصہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا ایک گلوبل گائوں بن چکی ہے، لیکن ہر ملک اور ہر قوم کی اپنی کلچرل شناخت بھی قائم ہے اور سچ پوچھیں تو مجھے سی این این اور بی بی سی سے خبریں سننا زیادہ پسند ہے کہ فوراً سمجھ آ جاتی ہے جبکہ دور درشن کی ہندی خبریں اکثر میری فہم سے بالا تر ہوتی ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب کے مابین کلچرل تعاون کا معاہدہ 1992ء سے ہے۔ اب اسے زیادہ فعال کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ وزیر اطلاعات کے بیان میں سب سے اہم بات اسلامی تاریخ کے مختلف پہلو اجاگر کرنے کی ہے، کیونکہ یہ پاکستانیوں اور عربوں کا مشترکہ ورثہ ہے۔ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ گندھارا اور موہنجوڈارو کا تاریخی ورثہ بھی ہمارا ہے اور ہمیں اس پر بجا طور پر فخر ہونا چاہئے۔ اشوکا اور چندر گپت موریہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بر صغیر کے لوگوں نے جب اسلام قبول کیا تو اسلامی تاریخ بھی ان کی شناخت کا حصہ بن گئی۔ علامہ اقبال کے آبائو اجداد کشمیری پنڈت تھے، لیکن جب یہ مشرف بہ اسلام ہوئے تو اس خاندان کی سب سے نمایاں شخصیت یعنی علامہ کے لیے مدینہ منورہ اور نجف اشرف کی مٹی آنکھوں کے سرمے کی حیثیت اختیار کر گئی۔
ہمارے جو لبرل حضرات پاکستان کو اسلامی تاریخ سے علیحدہ رکھنا چاہتے ہیں انہیں شاید زمینی حقائق کا مکمل ادراک نہیں۔ آپ اشوکا، رانا سانگھا، حضرت خالد بن ولیدؓ اور طارق بن زیاد کے بارے میں پاکستانی عوام سے پوچھیں کہ وہ کون سی شخصیات کے بارے زیادہ جاننے کی خواہش رکھتے ہیں تو آپ کو بخوبی علم ہو جائے گا کہ پاکستانی عوام کی سوچ انڈین عوام سے بہت مختلف ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ اور طارق بن زیاد کی شخصیات کے بارے میں ٹھوس معلومات حاصل کرنے کے لئے ہمیں عرب سکالروں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا کیونکہ ہمارے ہاں تاریخی ناول نگاروں نے ان شخصیات کے ساتھ بہت سے افسانے بھی جوڑ دئیے ہیں۔ پاک عرب ثقافتی تعاون کا احیاء ہمیں ریسرچ میں مدد دے گا۔
پاکستان کا سب سے خوبصورت تعارف عرب دنیا میں علامہ اقبال کے حوالے سے ہوا۔ ڈاکٹر عبدالوہاب عزام اور صاوی علی شعلان نے شکوہ اور جواب شکوہ کا عربی میں منظوم ترجمہ کیا اور پھر کوکب الشرق ام کلثوم کی آواز میں اقبال کے اشعار اور افکار گھر گھر پہنچے۔ ہر پڑھا لکھا عرب اقبال کے عمیق افکار کے حوالے سے پاکستان کو جاننے لگا۔
ٹی وی اور فلم ذرائع ابلاغ کے مؤثر شعبے ہیں۔ سعودی عرب میں پاکستان کا مشہور ڈرامہ دھوپ کنارے عربی سب ٹائٹل کے ساتھ چل چکا ہے اور اسے خوب پذیرائی ملی۔ ایک پاکستانی فلم ''پرواز ہے جنون‘‘ بھی پچھلے سال سعودی کے سینما ہالز میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اس سے پہلے راحت فتح علی خان ریاض میں اپنی آواز کا جادو جگا چکے تھے۔ 
ثقافتی تعاون میں اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ بہت اہم ہیں۔ پاکستان میں آغا خان میڈیکل یونیورسٹی کراچی، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (Nust) اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد ہمارے ایسے ادارے ہیں جہاں عرب طلبا اچھی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ظہران میں قائم یونیورسٹی آف پیٹرولیم (UPM) بین الاقوامی طور پر معتبر ادارہ ہے۔ ثقافتی تعاون کے تحت ان جامعات میں سٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام چلائے جا سکتے ہیں۔ اس سے دونوں جانب کو فائدہ ہو گا۔ سعودی معاشرہ اپنی روایات اور اسلامی تعلیمات کی عموماً پاس داری کرتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو خصوصاً لڑکیوں کو تعلیم کے لیے مغربی ممالک نہیں بھیجنا چاہتے۔ ایسے میں پاکستان ان کے لئے مناسب ماحول کا ضامن ملک ہے۔ ہر پاکستانی چاہتا ہے کہ اسے عربی کا بنیادی علم ہو تا کہ وہ قرآن اور حدیث کو خود سمجھ سکے۔ عرب ممالک کے ساتھ ثقافتی تعاون میں پاکستان میں عربی زبان کا فروغ شامل ہونا چاہئے۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ ایک اوسط ذہانت کا شخص چھ ماہ سے ایک سال میں عربی کا ورکنگ نالج حاصل کر سکتا ہے بشرطیکہ اس کے لیے جدید طریقے استعمال کئے جائیں۔ درس نظامی والا طریقہ اب پرانا ہو چکا ہے۔ جدید طریقے میں سمعی اور بصری آلات استعمال ہوتے ہیں اور اب تو انٹرنیٹ پر عربی کورس موجود ہیں۔ عربی ٹی وی چینل باقاعدگی سے مشاہدہ کر کے سپیکنگ پاور بڑھائی جا سکتی ہے۔ عربی کی متعدد فلمیں اور ٹی وی سیریل یو ٹیوب پر موجود ہیں۔
علامہ اقبال کے شکوہ جواب شکوہ کے بعد کسی پاکستانی شاعر کا کلام عربی میں ترجمہ نہیں ہوا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی اور احمد فراز جیسے شعرا کا کلام عربی میں ترجمہ کیا جائے۔ نامور عرب شعرا کا کلام اردو ترجمے کے ساتھ ہمارے ہاں دستیاب ہو۔ نجیب محفوظ کے افسانے اردو میں پڑھنے کو ملیں۔
جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں کہا گیا کہ کلچر یا ثقافت بہت جامع اصطلاح ہے اور یہ پورے طرز زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ ہمارے ہاں کرکٹ کا جنوں ہے تو عرب فٹ بال پر جان دیتے ہیں۔ سپورٹس کے میدان میں ہم ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ تعلیم کے میدان میں بہت وسیع مواقع ہیں۔ اسلام آباد میں قائم انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی بھی کلچرل تعاون کی ایک مثال ہے اور یہاں چین سے بہت سے طلبہ عربی زبان سیکھنے آئے ہوئے ہیں۔ عرب بھائیوں کو یہ بتانے کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے لئے پاکستان بنانا کیوں ضروری تھا۔ اس سلسلے میں دمشق میں ہماری ایمبیسی نے ایک اچھا کام یہ کیا تھا کہ سٹنلے والپورٹ کی کتاب جناح آف پاکستان (Jinnah of Pakistan) کا عربی ترجمہ کرا دیا۔ پچھلے دنوں اسلام آباد میں چند عربی دان دوستوں نے Arabic chat group شروع کیا۔ پہلی محفل آن لائن ہوئی اور ٹیکنالوجی کی مدد سے مختلف ممالک میں موجود عربی دانوں نے آپس میں مفید گفتگو کی۔
کلچرل تعاون قوموں میں ایک دوسرے کو سمجھنے کی صلاحیت کو بڑھاتا ہے لہٰذا پاک سعودی عرب ثقافتی تعاون کا احیا ایک اچھا قدم ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں