"JDC" (space) message & send to 7575

صدر اردوان بطور مسلم رہنما

عالم ِاسلام کسی ایسے لیڈر کی تلاش میں ہے جو بین الاقوامی لیول پر اس کے جائز حقوق کی بات کرے‘ کشمیر اور فلسطین کے مظلوم عوام کے حق میں بولے۔ ہمارے عہد میں صدر اردوان ایسے لیڈر ہیں جو اسلامی دنیا کے مسائل سے ہمدردی بھی رکھتے ہیں اور حق بات کہنے کی جرأت بھی۔ تو پھر چہ عجب کہ وہ اس وقت مسلم اُمت کے مقبول لیڈر ہیں۔ اسی سال گیلپ انٹرنیشنل کے سروے کے مطابق ان کی مقبولیت باقی تمام مسلمان رہنمائوں سے زیادہ ہے۔ مگر کیا صدر اردوان بلا شرکتِ غیرے تمام عالمِ اسلام کے لیڈر بن سکتے ہیں اور اس راستے میں کیا کیا ممکنہ رکاوٹیں پیش آ سکتی ہیں۔ اس کالم کا مقصد ان امور کا سرسری احاطہ کرنا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صدر اردوان اس ملک کے سربراہ ہیں جس کی سلطنتِ عثمانیہ نے صدیوں تک وسیع عرب علاقے اور بلقان کے خطے پر حکومت کی۔ حال ہی میں استنبول ایئرپورٹ پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے طیب اردوان نے کہا کہ ہم اس عظیم تہذیب کے وارث ہیں جو سمرقند سے لے کر قرطبہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ صدر اردوان اپنے ملک کی تاریخی عظمت کا ادراک بھی رکھتے ہیں اور عالمِ اسلام کو حال میں در پیش مسائل کا شعور بھی۔
طیب اردوان کے بعض ناقدین یہ کہتے ہیں کہ وہ خلافتِ عثمانیہ کا احیا چاہتے ہیں اور خود خلیفہ یا سلطان بننا ان کا مطمح نظر ہے۔ یہ بالکل لغو بات ہے۔ خلافتِ عثمانیہ کو پہلی جنگِ عظیم کے بعد خود ترکوں کی نوجوان قیادت نے ختم کیا تھا جس کے سربراہ کمال اتاترک تھے‘ جب خلافت ختم ہوئی اور اس عظیم سلطنتِ عثمانیہ سے درجنوں عرب اور بلقان ممالک آزاد ہوئے۔ بلقان ممالک میں آج کا سربیا‘ بوسنیا اور بلغاریہ وغیرہ شامل ہیں۔ کیا یہ ممالک دوبارہ سلطنت کا حصہ بننا چاہیں گے یہ بات کوئی دانش مند سوچ بھی نہیں سکتا اور صدر اردوان بہت زیرک انسان ہیں۔
نومبر 2004ء کی بات ہے فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کا فرانس کے ہسپتال میں انتقال ہوا ‘ فیصلہ یہ ہوا کہ ان کی تدفین فلسطین میں ہوگی اور جسدِ خاکی براستہ قاہرہ رام اللہ جائے گا۔ نماز جنازہ قاہرہ میں ادا ہوگی۔ تمام اہم ممالک کو اطلاع کر دی گئی۔ وزیراعظم شوکت عزیز آخری رسومات میں شرکت کے لیے ایک مختصر وفد کے ساتھ قاہرہ گئے۔ میں وفد میں شامل تھا۔ طیب اردوان تب ترکی کے وزیراعظم تھے ‘وہ بھی قاہرہ گئے تھے۔ صدر حسنی مبارک بھی جنازہ میں شریک ہوئے۔ ایک مخصوص مقام پر تمام لیڈر صبح نو بجے جمع ہوئے۔ مرحوم کی میت فوجی بکتر بند گاڑی میں رکھ کر جلوس کی شکل میں جنازہ گاہ لائی گئی۔ تمام وفود پوری سکیورٹی کے حصار میں بکتر بند گاڑی کے پیچھے چل رہے تھے۔ جنازہ گاہ کے چاروں طرف اونچی دیوار تھی۔ داخل ہونے والے گیٹ پر سخت سکیورٹی تھی اور بدنظمی بھی۔ انہیں ڈر اس بات کا تھا کہ زیادہ لوگ اندر نہ چلے جائیں۔ میت کو رام اللہ لے جانے کے لیے ہیلی کاپٹر بھی جنازہ گاہ میں موجود تھا۔ وزیراعظم شوکت عزیز تو جنازہ گاہ میں چلے گئے لیکن ان کے وفد کے آدھے لوگ باہر رہ گئے اور ان میں مَیں بھی شامل تھا۔ ہمیں جنازہ گاہ سے باہر کوئی پون گھنٹہ انتظار کرنا پڑا۔ ادھر اُدھر دیکھا تو جناب طیب اردوان بھی باہر کھڑے تھے ۔ وہ کمال صبر سے اپنے وفد کے باقی لوگوں کے واپس آنے کا انتظار کرتے رہے‘ میں نے ان کی جبیں پر بل تک نہیں دیکھا۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ صدر اردوان اور ان کی فیملی اسلامی شعائر کے پابند ہیں۔ کئی سال پہلے کی بات ہے ترک جامعات میں طالبات سر ڈھانپ نہیں سکتی تھیں۔ ایسا کرنے پر انہیں یونیورسٹی سے نکال دیا جاتا تھا۔ اردوان فیملی کی خواتین باقاعدگی سے سر ڈھانپتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ امریکہ میں خواتین کے سر ڈھانپنے کی پابندی نہ تب تھی اور نہ اب ہے؛چنانچہ طیب اردوان نے اپنی دو بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ بھیج دیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے طالبات کو اجازت دی کہ انہیں سر ڈھانپنے یا مشکوف رکھنے کی اجازت ہوگی۔
ترکی میں سیکولر ذہن کے لوگوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ جب حجاب کے بارے میں نیا قانون بنا تو اس کے خلاف مظاہرے ہوئے‘ لیکن صدر اردون اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔ آج طالبات سر پر سکارف لے کر تعلیمی اداروں میں آ سکتی ہیں البتہ وہ خواتین جو سرکاری ملازم ہیں ان کے لیے سر مشکوف رکھنا آج بھی ضروری ہے۔ صدر اردوان اس قسم کی اصلاحات کے بارے میں نہ تو جذباتی ہیں اور نہ ہی کوئی کام جلد بازی میں کرنا چاہتے ہیں۔ ترک عدالت کے فیصلے کے بعد طیب اردوان کا آیا صوفیہ کے میوزیم کو مسجد بنانے کا اقدام بھی متنازع ہے۔ کمالسٹ ذہن کے لوگ کھل کر مخالفت کر رہے ہیں۔ مجھے خود یہ فیصلہ صحیح نہیں لگا کیونکہ یہ تاریخی عمارت شروع میں کلیسا تھی اور نو سو سال یہاں کرسچین عبادت ہوتی رہی۔ 1453 میں سلطان محمد دوئم نے اسے مسجد بنایا اور کمال اتاترک نے 1935ء میں اسے میوزیم میں تبدیل کر دیا۔ یہ ایک غیر جانبدار فیصلہ تھا‘ ا لبتہ صدر اردوان کی مجبوری یہ ہے کہ آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد بنانا ان کے الیکشن کے وعدوں میں شامل تھا۔
صدر اردوان کے دورِ اقتدار کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ترکی میں خوشحالی اور غربت میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ ترکی میں فی کس سالانہ آمدنی 9140 ڈالر ہے جبکہ پاکستان میں 1482 ڈالر۔ ترک عوام صدر اردوان کے اس کارنامے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2016میں جب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی کوشش ہوئی تو انقرہ اور استنبول میں لوگ فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے تھے۔1987 میں ترکی نے یورپی یونین کی ممبر شپ کے لیے اپلائی کیا تھا جو اسے آج تک نہیں مل پائی۔ اسی وجہ سے ترکی کی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ اب ترک حکومت اور عوام اپنی شناخت مڈل ایسٹ اور اسلام میں تلاش کر رہے ہیں ۔
اب دیکھتے ہیں کہ صدر اردوان کے اسلامی قائد بننے کی راہ میں کیا کیا رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں: پہلی بات تو یہ ہے کہ عرب دنیا میں ترکی اور صدر اردوان کے بارے میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔ وہ عرب عوام میں خاصے مقبول ہیں لیکن عرب حکمران ان کی مڈل ایسٹ پالیسی پر مطمئن نہیں۔ وہ شام اور لیبیا میں ترکی کی پالیسی کے بارے میں واضح تحفظات رکھتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں ترکی کی شرح نمو سست ہوتی گئی ہے۔ شامی مہاجرین کا بوجھ اچھا خاصا ہے۔ شام اور لیبیا میں فوجی مداخلت سے عسکری اخراجات بڑھے ہیں۔ ترکی کی تجارت زیادہ تر یورپ کے ساتھ ہے‘ اور یورپ کے ساتھ تعلقات میں تنائو آ رہا ہے۔ اسی وجہ سے ترکی نے اب مغرب کے بجائے مشرق کی جانب دیکھنا شروع کر دیا ہے‘ لیکن مشرق میں واقع ایران اور عراق کے ساتھ اس کے تعلقات واجبی قسم کے ہیں۔یہ بات درست ہے کہ او آئی سی عالم اسلامی کی کماحقہٗ ترجمانی نہیں کر سکی اور جب سے عرب سپرنگ شروع ہوا ہے‘ مسئلہ فلسطین بھی طاق نسیاں میں چلا گیا ہے۔ ایسے دگرگوں حالات میں مسلم عوام کو صدر اردوان جیسے لیڈر سے توقعات ضرور ہیں لیکن مسلم دنیا کے مجموعی حالات کسی اتحاد کی جانب نہیں جا رہے۔ صدر اردوان مسلم عوام میں مقبول ضرور رہیں گے لیکن عالم اسلام کی قیادت شاید انہیں نہ مل سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں