"JDC" (space) message & send to 7575

ایک جامع اور مربوط کشمیر پالیسی

ویسے تو کشمیر میں ظلم و ستم 1846ء سے جاری ہے جب انگریز سے 75 لاکھ روپے میں پورا کشمیر خریدنے کے بعد ڈوگرہ سرکار سری نگر میں حکمران بنی تھی لیکن استبداد کا تازہ ترین باب 5 اگست 2019ء کو شروع ہوا جب اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کر کے اور شملہ معاہدے کو روند کر مقبوضہ کشمیرکی خود مختاری کو ختم کیا گیا۔ وادی میں ایک لمبا کرفیو لگا‘ تمام لیڈر قید ہوئے۔ یہ تمام فیصلے کشمیری عوام سے بالا بالا کئے گئے۔ انڈین سامراج آج کی تلخ حقیقت ہے اور کشمیر بھارت کی کالونی بن چکا ہے۔
کشمیر میں انڈیا نے جو کُچھ کیا ہے وہ بتدریج اور جامع پالیسی کے تحت کیا ہے۔ 27 اکتوبر 1947ء کو مہاراجہ ہری سنگھ سے زبردستی الحاق کروایا گیا۔ کاغذات پر دستخط ہونے سے چند گھنٹے پہلے انڈین افواج سری نگر میں آ چکی تھی۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے اُس وقت پورے کشمیر میں بغاوت کی سی صورتحال تھی‘ مہاراجہ اپنا محل چھوڑ کر جا چکا تھا۔ وادی پر اس کا کنٹرول عملاً ختم ہو چکا تھا۔ اُس نے اپنی وہ پراپرٹی انڈیا کے قبضے میں دی جو اس کے ہاتھ سے نکل کر عوام کے کنٹرول میں جا چکی تھی۔ پھر انڈیا خود اقوام متحدہ گیا اور پوری دنیا سے وعدہ کیا کہ کشمیر میں ریفرنڈم ہو گا وہ انڈیا اور پاکستان جس کے ساتھ بھی الحاق کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ کشمیر کی ٹریجڈی مکر و فریب کی لمبی داستان ہے۔ ظلم و استبداد کی طویل رات ہے جو پونے دو سو سال سے جاری ہے اور مودی سرکار نے اسے تاریک تر بنا دیا ہے۔
انڈیا کی پالیسی کشمیر کے بارے میں واضح اور ہمہ جہت ہے اور اس کے متعدد پہلو ہیں۔ ایک عسکری پہلو ہے جس کے تحت وہاں آٹھ لاکھ فوجی اور پیرا ملٹری دستے تعینات کئے گئے ہیں۔ دوسرا پہلو سیاسی ہے‘ جس کے مطابق فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے من پسند لیڈروں کو حال ہی میں نظر بندی سے رہائی دی گئی ہے اور اب ان لیڈروں سے ڈیل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ تیسرا پہلو اقتصادی ہے اور کشمیریوں کو بتایا جا رہا ہے کہ انڈیا اور کئی اور ملکوں سے اربوں روپے کی سرمایہ کاری آنے والی ہے اور اُس کے لیے ضروری ہے کہ کشمیری ذرا صبر کریں نعرے نہ لگائیں‘ہم کشمیری نوجوانوں کو جاب بھی دیں گے‘ سیاحت بھی بحال ہو گی۔ ان وعدوں کے ساتھ ساتھ لاکھوں غیر کشمیری ہندوئوں کو وادی میں بسایا جائے گا تا کہ آبادی کے تناسب کو تبدیل کر کے یہ مسئلہ ہی ختم کر دیا جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی بھی کشمیر کے بارے میں کوئی جامع اور مربوط حکمت عملی ہے؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ہماری حکومت پچھلے سوا سال میں متحرک ضرور نظر آئی‘ وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریریں بھی کیں‘ چین کی مدد سے ہم نے سکیورٹی کونسل کے دو غیر رسمی اجلاس بھی بلوائے‘ چند اہم مغربی اخباروں میں کشمیر پر کالم اور رپورٹیں بھی آئیں لیکن ہم بھارت پر کوئی مؤثر دبائو کی صورتحال قائم رکھنے میں ناکام رہے۔ انڈیا کو بھی معلوم ہے کہ ہمیں صرف تین اہم ممالک کی واضح سپورٹ حاصل ہے۔ چلیں چوتھا آذربائیجان شامل کر لیتے ہیں۔ اب دنیا میں 190 سے زائد ممالک ہیں اور مزید اہم ممالک کی حمایت حاصل کرنا ہمارے قومی مفاد میں ہے اور بے حد ضروری ہے۔
کشمیر پر ہمارا قانونی‘ سیاسی اورجغرافیائی مؤقف مضبوط ہے۔ کشمیر سے آنے والے دریا پاکستان کی جانب بہائو رکھتے ہیں۔ وہاں کے عوام انڈیا سے متنفر ہیں۔ انڈیا لاکھ چاہے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ختم نہیں کر سکتا کہ اس کے لیے دوسرے فریق یعنی پاکستان کی رضا مندی ضروری ہے۔ کشمیر دنیا کا سب سے خطرناک نیوکلیئر فلیش پوائنٹ ہے۔ انڈیا اور پاکستان دونوں ایٹمی قوتیں ہیں اور اب چین کی لداخ میں دلچسپی بڑھ گئی ہے۔ورلڈ کشمیر فورم ایک ایسی تنظیم ہے جو حاجی رفیق پردیسی کی قیادت میں کشمیر کے پر امن حل کے لیے کوشاں ہے اس تنظیم نے چند روز پہلے اسلام آباد میں کشمیر کنونشن کا انعقاد کیا۔ کشمیر کی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ اور فیڈرل منسٹر شہریار خان آفریدی نے صدارت کی جبکہ صدر آزاد جموں کشمیر سردار مسعود خان مہمانِ خصوصی تھے۔ راقم الحروف کو بھی حاضرین سے خطاب کی دعوت دی گئی۔
محترمہ عظمیٰ گل کا کہنا تھا کہ پاکستان کو کشمیر کے لیے مزید بہت کچھ کرنا چاہیے۔ بیرونِ ملک کشمیری بھائی اہم رول ادا کر سکتے ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف رہتے ہیں۔ سابق سفیر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی متحرک اور فعال نہیں۔ صدر آزاد کشمیر کا خیال تھا کہ گزشتہ سوا سال میں ہماری پالیسی متحرک ضرور نظر آئی‘ہم کسی حد تک بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے میں بھی کامیاب رہے لیکن ہمیں پاکستان کی کشمیر پالیسی میں انڈیا والی جامعیت دکھائی نہیں دیتی۔میں نے اپنی تقریر کے دوران حاضرین کے ساتھ پنڈت نہرو کا 25 اگست 1952ء کو شیخ عبداللہ کے نام لکھا ہوا خط شیئر کیا‘ جس میں نہرو نے شیخ صاحب کو یقین دلایا تھا کہ وہ شروع سے ہی ریفرنڈم کے بارے میں سنجیدہ نہیں تھے۔ گویا انڈیا کی شروع سے بدنیتی کا اقرار کر رہے تھے۔ انڈیا کا 1948ء میں اقوام متحدہ کے ریزولیوشن کو ماننا مکر و فریب کے علاوہ کچھ نہ تھا اور انڈیا کو یقین تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے ممالک کشمیر کو بھول جائیں گے۔ عسکری اور اقتصادی طور پر مضبوط انڈیا کی ہاں میں ہاں ملانے لگ جائیں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کی جامع اور مربوط کشمیر پالیسی کے خدوخال کیا ہونے چاہئیں؟آپ کو یاد ہو گا بھٹو صاحب کے دور میں یوسف بُچ مرحوم وزیراعظم کے معاون خصوصی ہوا کرتے تھے‘ وہ مسئلہ کشمیر کی تمام تفاصیل اور زاویوں سے خوب واقف تھے۔ موجودہ حالات میں ہمیں پھر ایسی ہی شخصیت کی ضرورت ہے۔ اپنی صدارت کی تکمیل کے بعد سردار مسعود خان کو یہ قومی فریضہ سونپا جائے تو یہ مستحسن اقدام ہوگا۔ ان کے دل میں کشمیر کا درد بھی ہے اور کشمیر کیس کو بین الاقوامی محافل میں پر اثر انداز سے پیش کرنے کی صلاحیت بھی۔ وہ سفارت کاری کا لمبا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔
ہمارے ہاں کئی ادارے اپنے تئیں کشمیر پر کام کر رہے ہیں۔ متعدد یونیورسٹیوں میں ایریا سٹڈی سنٹرز ہیں۔ اسلام آباد میں کئی تھنک ٹینک ہیں جو کشمیر میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ وزارت خارجہ کشمیر کاز کے لیے کام کرتی رہتی ہے۔ وزارت اطلاعات کا بیرونی پبلسٹی کا رنگ ایک زمانے میں اس سلسلہ میں خاصا فعال ہوا کرتا تھا۔ شہریار خان آفریدی کی قیادت میں پارلیمانی کشمیر کمیٹی بھی بہت کچھ کرنا چاہتی ہے۔ ہمیں پارلیمانی وفود میں ایسے ممبران کو سلیکٹ کرنا چاہیے جو کشمیر کاز کی مؤثر تشریح غیر ملکی قائدین کے سامنے کر سکیں۔آج کا دور سوشل میڈیا کا دور ہے اور اس طرح مقبوضہ کشمیر میں انڈین مظالم کی تشہیر آسانی سے ہو سکتی ہے۔ اگر دس ادارے کشمیر پر کام کر رہے ہیں تو اُن میں باہمی ربط ضروری ہے۔ کشمیر پر اچھے کالم تواتر سے واشنگٹن پوسٹ‘ نیویارک ٹائمز گارڈین اور الشرق الاوسط جیسے عالمی اخباروں میں چھپنے چاہئیں۔ ہماری سوشل سوسائٹی کو بھی فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کے دوسرے اہم ممالک کی سول سوسائٹی سے روابط ضروری ہیں۔ امریکہ میں نئے صدر کی آمد آمد ہے اور ڈیمو کریٹک پارٹی انسانی حقوق کے بارے میں زیادہ حساس ہے۔ ایک جامع اور مربوط پالیسی ہی ہماری کامیابی کی ضامن ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں