"JDC" (space) message & send to 7575

ہائر ایجوکیشن کا المیہ

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں تعلیمی نظام اور تعلیمی معیار دونوں ناقص ہیں۔ ہم اپنی قومی آمدنی کا صرف دو اعشاریہ نو (2.9) فیصد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ خطے کے دوسرے ممالک مثلاً انڈیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا تعلیم پر پاکستان سے زیادہ وسائل صرف کرتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ریسرچ پر پاکستان صفر اعشاریہ دو پانچ (0.25) فیصد خرچ کرتا ہے‘ یعنی فرض کیجیے کہ ہماری سالانہ قومی آمدنی ایک لاکھ روپے ہے تو ہم ہر سال دو سو پچاس روپے سائنس کی ریسرچ پر خرچ کرتے ہیں‘ تو پھر چہ عجب کہ کورونا کی آمد کو ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا‘ مگر ہم بڑے پیمانے پر وینٹی لیٹر نہیں بنا سکے۔ اس وقت دنیا کے بارہ ممالک کورونا کی ویکسین بنا رہے ہیں اور ان میں انڈیا چوتھے نمبر پر ہے‘ مگر پاکستان نے ویکسین کی ایک شیشی بھی خود سے نہیں بنائی۔
ہماری سوچ نہ واقعیت پسند ہے اور نہ ہی عقل دوست۔ اب تک ہماری آبادی کا ایک حصہ اس بات پر مصر ہے کہ کورونا نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ ہم یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عقل استعمال کرکے اس وبا کے مہلک اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔ جب بو علی سینا کے عہد میں اسی قسم کی وبا پھیلی تھی تو اس نے سامانی حاکمِ وقت کو مشورہ دیا تھا کہ بخارا شریف کے تمام بازار بند کر دیئے جائیں‘ تاجر اپنا سامان گھروں سے فروخت کریں۔
ہماری اشرافیہ کو پاکستان ہائر ایجوکیشن سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کے بچے پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کرکے مغرب کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں چلے جاتے ہیں‘ لہٰذا پاکستانی اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو مناسب بجٹ مہیا کرنا پاکستانی لیڈرشپ کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ انٹرنیٹ کے مطابق دنیا کی پہلی پانچ سو یونیورسٹیوں میں ایک بھی پاکستانی دانش گاہ نہیں۔ گوگل کے مطابق پاکستان کی اس سال کی بہترین دانش گاہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد ہے‘ اور یہ بات میرے ذاتی علم میں ہے کہ اس ادارے میں زوال کی علامتیں واضح ہیں۔ مالی مسائل بڑھ رہے ہیں۔ یونیورسٹی کی سینکڑوں ایکڑ زمین پر سیاسی لوگوں کے قبضے ہیں۔ اگر یہ زمین واگزار کرا لی جائے تو قائد اعظم یونیورسٹی کے بہت سے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، لیکن یہ کام نہ کوئی وائس چانسلر کر سکا اور نہ ہی حکومت۔
سوچ کے اعتبار سے ہم لکیر کے فقیر ہیں۔ مسئلے کا جو حل ٹیکسٹ بک میں لکھا ہوا ہے‘ اسے یاد کرکے امتحانی پرچے پر نقل کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ناقدانہ سوچ کا فقدان ہے۔ اقبال نے بہت سمجھایا کہ جہانِ نو کی افکارِ تازہ سے ہی تعمیر ہو سکتی ہے مگر ہم آئینِ نو سے مسلسل ڈرتے رہے۔ نتیجہ وہی نکلا جو ہوتا تھا، بقول ایک معاصر کالم نگار ہم موجد نہیں مجاور پیدا کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد پاکستان کے کسی سائنس دان نے نوبیل پرائز حاصل نہیں کیا۔
اور اب آتے ہیں موضوع کے اُس حصے کی جانب جو اس کالم کے لکھنے کا محرک بنا۔ پچھلے دنوں ایک آرڈیننس جاری کرکے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری کو فارغ کر دیا گیا۔ انہیں کوئی شوکاز نوٹس نہیں ملا‘ بس مدتِ ملازمت چار سال سے کم کرکے دو سال کر دی گئی۔ ایک خود مختار ریگولیٹری ادارے کے سربراہ کی رخصتی بڑے ہی غیر مناسب طریقے سے ہوئی‘ جس سے آمریت کی بو آتی ہے۔ اور اب خبر آئی ہے کہ حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی خود مختاری ختم کرکے اسے فیڈرل وزارتِ تعلیم کے ماتحت کر دیا ہے، یعنی نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ اور یہ کام اس پارٹی کی حکومت نے کیا ہے جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر ادارے کمزور کرنے کا الزام لگاتی رہی ہے۔
میں ڈاکٹر طارق بنوری کو 1972 سے جانتا ہوں، جب ہم دونوں سول سروس اکیڈمی میں زیرِ تربیت تھے۔ پشاور یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ میں گریجویشن کی اور مقابلے کا امتحان دے کر سول سروس میں شامل ہوئے۔ چند سال بعد امریکہ چلے گئے اور ہارورڈ یونیورسٹی سے اکنامکس میں ڈاکٹریٹ کی۔ اقوام متحدہ کی پائیدار ترقی (Sustainable development) کی ڈویژن میں ڈائریکٹر رہے۔ پاکستان میں مشہور تھنک ٹینک SDPI کی بنیاد رکھی۔ سویڈن میں ماحولیات سے متعلق ایشیا سنٹر کے ڈائریکٹر رہے۔ اقوام متحدہ نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ممبر ممالک سے ایکسپرٹ لے کر ایک انٹرنیشنل گروپ بنایا۔ طارق بنوری اس گروپ کا حصہ تھے اور گروپ رپورٹ لکھنے میں ان کا لینڈنگ رول تھا۔ اس گروپ کو مشترکہ طور پر نوبیل انعام ملا۔ چھ سال امریکہ کی اوٹاہ یونیورسٹی (University of utah) میں اقتصادیات کے پروفیسر رہے۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ پاکستان میں اتنے کوالیفائیڈ لوگ کتنے ہیں۔ 2002ء میں حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز دیا۔
میں نے ایک عمر سرکاری سروس میں کام کیا ہے۔ قانون یہ ہے کہ ایک کلرک کو بھی نکالنا ہو تو پہلے شوکاز نوٹس دیا جاتا ہے۔ اپنا دفاع کرنے کا حق قانون چھوٹے سے چھوٹے سرکاری ملازم کو دیتا ہے۔ ڈاکٹر طارق بنوری کو چارج شیٹ نہیں کیا گیا‘ جو اس بات کا غماز ہے کہ حکومت کے پاس کوئی ٹھوس الزامات ان کے خلاف نہیں ہیں۔ میں نے کوئی نصف درجن ماہرینِ تعلیم سے بات کی ہے جو سب کے سب ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں اور ان میں سے کئی وائس چانسلر بھی رہے ہیں۔ یقین مانئے سب نے اس فیصلے پر رنج و الم کا اظہار کیا‘ اور ان میں ایک دو ایسے بھی ہیں جو ڈاکٹر طارق بنوری کی پالیسیوں کے ناقد ہیں۔
ڈاکٹر عطاالرحمن سائنس کی دنیا کا بڑا نام ہیں۔ ان کی خدمات گراں قدر ہیں۔ صدر مشرف کے دور میں زیادہ مشہور ہوئے۔ اس زمانے میں نائن الیون کے بعد اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں فارن فنڈنگ بہت آئی۔ ڈاکٹر عطاالرحمن کا دعویٰ تھا کہ ہم پاکستانی دانش گاہوں کو انٹرنیشنل لیول پر لائیں گے، متعدد لوگوں کو ملک میں‘ اور ملک کے باہر پی ایچ ڈی کرائیں گے تو پاکستان تعلیم اور ریسرچ کے میدان میں صف اول کے ممالک میں آ جائے گا۔ کراچی میں کیمسٹری، میڈیسن اور بیالوجی کی ریسرچ کے تین بڑے ادارے ان کی نگرانی میں کئی سال رہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ناقدین انہیں انا پسند کہتے ہیں‘ لیکن ان کی شخصیت ہمارا موضوعِ سخن نہیں۔ انہوں نے ایک اچھا کام بھی کیا کہ جب ایچ ای سی کے چیئرمین تھے تو پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے پاکستانی اداروں کو غیر ملکی ریفری رکھنے کا حکم دیا‘ لیکن ان کے عہد میں چونکہ پی ایچ ڈی کی ڈگری ریوڑیوں کی طرح بٹنے لگی تھی تو اس کی بے قدری بھی بہت ہوئی اور آج ملک میں بے شمار بیکار پی ایچ ڈی ہیں۔
ٹاک شوز اور پرنٹ میڈیا میں چھپے مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر طارق بنوری اور ڈاکٹر عطا الرحمن کے مابین تنازع کی اصل وجہ ڈاکٹر بنوری کا احتساب پر اصرار ہے۔ وہ میرٹ اور شفافیت پر توجہ مرکوز کئے رہے۔ انہوں نے ڈاکٹر عطا الرحمن سے متعلق تینوں اداروں سے بھی سوال جواب کئے اور لگتا ہے کہ یہی بات حکومت کو ناگوار گزری ہے‘ مگر مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ جو حکومت جہانگیر ترین سمیت کسی کو احتساب سے بالاتر نہیں سمجھتی وہ ڈاکٹر صاحب کو استثنا کیوں دینا چاہتی ہے؟
اگلے روز ایک ٹی وی اینکر نے ڈاکٹر عطاالرحمن سے پوچھا کہ آپ کے تین ریسرچ سنٹرز کو 1997ء سے لے کر اب تک اربوں روپے ملے ہیں۔ آپ کی آئوٹ پُٹ (Output) کیا ہے؟ جواب ملا کہ ہم نے 23 سال میں چالیس پیٹنٹ (Patent) منظور کرائے ہیں اور کروڑوں کمائے ہیں۔ اگر کوئی ادارہ اربوں خرچ کر کے کروڑوں کماتا ہے تو وہ سٹیل مل اور پی آئی اے کی طرح سفید ہاتھی بن چکا ہے۔ میڈیا میں بحث مباحثہ چل رہا ہے، سول سوسائٹی کا رد عمل بھی شدید ہے۔ معاملہ عدالت میں ہے، یقیناً وہاں انصاف پر مبنی تعلیم دوست فیصلہ ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں