"JDC" (space) message & send to 7575

خلیج کی تازہ صورت حال اور پاکستان

دوستو! اچھی خبر یہ ہے کہ خلیج کے متلاطم پانیوں میں قدرے سکون آیا ہے۔ سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ ہم ایران کے ساتھ دوستانہ مراسم چاہتے ہیں تا کہ ہمارا خطہ خوشحالی کی جانب بڑھے۔ یہ پیش رفت بغداد میں بیک چینل سفارت کاری کے رائونڈ کے بعد ممکن ہوئی ہے، جہاں سعودی اور ایرانی سفارت کاروں میں براہ راست بات چیت ہوئی۔ 2016ء سے دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔ یمن کی جنگ اور کئی دوسرے عوامل کے سبب خلیج کے ان دو بڑے ممالک میں شدید تنائو رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ سعودی ایران مصالحت میں کردار ادا کرنے کی خواہش پاکستان کی بھی رہی ہے۔ اب یہ کام عراق نے کر دکھایا ہے۔ پاکستان نے کھلے دل سے اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے یہ تبدیلی آ رہی ہے۔ ایک بڑی وجہ تووائٹ ہائوس سے صدر ٹرمپ کی رخصتی ہے، کیونکہ جلتی پر تیل چھڑکنا موصوف کا مشغلہ تھا، لیکن اس خطرناک فعل میں بھی امریکی قومی مفاد ان کے زیر نظر رہتا تھا۔ ٹرمپ نے ایران اور خلیجی ممالک کے اختلافات کو خوب ہوا دی اور پھر اربوں کا اسلحہ عرب ممالک کو بیچا۔ نئے امریکی صدر بائیڈن کی پالیسی مڈل ایسٹ کے بارے میں مختلف ہے۔
حال ہی میں ایک ادارے نے مجھے مڈل ایسٹ کی صورتحال پر لیکچر کے لیے بلایا۔ وہاں ایک سوال یہ پوچھا گیا کہ عرب ایران جنگ کے خدشات کتنے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ نہ ہونے کے برابر۔آپ کو یاد ہو گا کہ جب صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ ختم کیا تھا اور ایران پر مزید پابندیاں لگائی تھیں تو عرب ممالک خاصے خوش تھے۔ شاید ان کے دل میں یہ خواہش بھی تھی کہ امریکہ یا اسرائیل ایران پر ایک آدھ عسکری سٹرائیک کر دیں تو ایران آئندہ توسیع پسندی سے باز آ جائے گا۔ توسیع پسندی سے یہاں مراد خطے میں اپنے اثر رسوخ کی توسیع ہے۔ امریکہ کے لیے اپنے خلیجی عسکری اڈوں یا کسی بحری جہاز سے ایران پر دو چار میزائل پھینکنا چنداں مشکل نہ تھا لیکن صدر ٹرمپ نے عقل مندی اور احتیاط سے کام لیا۔ عرب ممالک یہ جنگ خود چھیڑنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ ایک تو وہ یمن کی جنگ میں مصروف تھے۔ دوسرے عرب ممالک کی تیل کی تنصیبات خلیجی ساحل سے خاصی قریب ہیں، لہٰذا یہ ایران کے میزائلوں کی زد میں ہیں۔ شکر اس بات کا ہے کہ وہ مشکل وقت اب گزر چکا ہے۔
عرب ایران مکمل صلح ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔ سعودی ولی عہد نے ایران کی جانب صلح کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے جن تین مسائل کی طرف واضح اشارہ کیا ہے، ان میں ایرانی ایٹمی اور میزائل پروگرام شامل ہیں اور تیسرے ایران کی جانب سے خطے کے نان سٹیٹ ایکٹرز کی امداد ہے اور یہ آپ کو معلوم ہو گا کہ ان نان سٹیٹ ایکٹرز میں لبنان کی حزب اللہ اور یمن میں حوثی باغی شامل ہیں۔
اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بیک چینل سفارت کاری سے جو کام بغداد میں سر انجام پایا وہ اسلام آباد میں کیوں نہ ہو سکا۔ میں اپنے کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ مصالحت کنندہ کے لیے تین شرائط لازمی ہیں۔ اول یہ کہ فریقین اس کی غیر جانبداری پر یقین رکھتے ہوں۔ دوئم یہ کہ مصالحت کنندہ کے اپنے حالات مستحکم ہوں اور سب سے اہم بات یہ کہ فریقین مصالحت کے لیے قوی رغبت رکھتے ہوں اور اپنی خواہش کا اظہار براہ راست یا بالواسطہ کریں۔ ویسے غور سے دیکھا جائے تو عراق نے سہولت کاری کی ہے‘ مصالحت ہونے میں ابھی مزید وقت لگے گا۔
ایران اور عرب ممالک میں مخاصمت کا سب سے منفی نتیجہ یہ نکلا کہ خلیجی ممالک کی اسرائیل سے قربتیں بڑھنے لگیں۔ انڈیا سرمایہ کاری، افرادی قوت اور کلچرل طریقے سے خلیجی ممالک میں پائوں جما چکا ہے۔ دبئی اور مسقط میں تو مندر عرصے سے قائم ہیں اور اب اطلاعات آ رہی ہیں کہ نصابی کتابوں میں ہندو مت اور بدھ مت کے بارے میں معلومات بھی شامل ہوں گی۔ مجھے اس پر بھی اعتراض نہیں لیکن عرب ممالک اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اپنے دوست انڈیا سے مسلمانوں کی حالت زار کا ذکر کریں یہ تو کہنے کا حق بنتا ہے کہ کشمیریوں پر ظلم بند کرو۔
بات موضوع سے ذرا ہٹ گئی۔ خدا کرے کہ خلیجی ممالک اور ایران کے تعلقات دوستانہ ہو جائیں، اس کا سب سے مثبت نتیجہ یہ ہو گا کہ خلیج میں غیر ملکی عسکری وجود کم ہو جائے گا اور اسرائیل کی آمد کے لیے سپیس بھی محدود ہو جائے گی۔
پچھلے چند ماہ میں کئی مبصروں نے کہا کہ پاک سعودی تعلقات میں سرد مہری آ گئی ہے۔ انڈین میڈیا تو بہت خوش نظر آیا۔ میرا تب بھی خیال تھا اور آج بھی یہ رائے ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کی ضرورت ہیں، ابدی روحانی رشتہ اس کے علاوہ ہے۔
اور اب آتے ہیں ایک اور حالیہ ڈویلپمنٹ کی جانب جس نے فارن سروس کے افسروں کے مورال کو خاصا ڈائون کیا ہے۔ سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر راجہ علی اعجاز کو اچانک ریاض سے واپس بلا کر کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔ موصوف چند ہفتے میں ریٹائر ہو رہے تھے لیکن ریٹائرمنٹ کا انتظار نہیں کیا گیا۔ پانچ افسر سفارت خانے سے مزید واپس بلا لیے گئے ہیں۔ میں راجہ صاحب کو اچھی طرح نہیں جانتا لیکن اتنا بتاتا چلوں کہ 1996 میں جب ہماری کابل ایمبیسی پر حملہ ہوا تھا تب وہ وہاں جونیئر افسر تھے اور اس وقت افغانستان میں پاکستانی سفیر قاضی ہمایوں صاحب ان کی تعریف کرتے ہیں۔
راجہ صاحب اور ان کے افسروں پر یہ الزام ہے کہ وہ پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے۔ چند ایک پر کرپشن کا الزام بھی لگا ہے۔ سب کوواپس بلا کر انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔ اچھا ہوتا کہ تحقیقات پہلے ہوتیں۔ سفیر اور افسروں کو اپنے دفاع کا موقع دیا جاتا اور جو قصور وار ہوتا اسے سزا دی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ خلیجی ممالک میں ہمارے چند اچھے افسر بھی کمیونٹی کی سیاست کا شکار ہوئے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتیں خلیجی ممالک میں بھی وجود رکھتی ہیں۔میں نے انٹرنیٹ پر راجہ صاحب کے سفارتی کیریئر کی تفصیل دیکھی تو پتا چلا کہ سعودی عرب میں ان کی تعیناتی بطور سفیر ان کا پہلا تجربہ تھا‘ اس سے پہلے وہ نیویارک میں قونصل جنرل تھے۔ قونصل جنرل اور سفیر کے فرائض منصبی کی نوعیت خاصی مختلف ہوتی ہے، ہمیں خلیجی ممالک میں ایسے سفیر بھیجنے چاہئیں جو وہاں کے کلچر اور زبان سے خوب آشنا ہوں۔
راجہ صاحب کی جگہ جو سفیر گئے ہیں ان کا تعلق فارن سروس سے نہیں ہے۔ نان کیریئر سفرا کا تعین دو سال کے لیے ہوتا ہے اور یہ عرصہ انہیں اپنا کام سیکھنے میں لگ جاتا ہے۔ میں سعودی عرب میں ساڑھے سات سال رہا۔ عربی زبان جاننے کی وجہ سے یہ قیام دلچسپ اور بار آور رہا۔ 1984ء سے 1992ء تک کا وہ دور پاک سعودی تعلقات کا سنہری زمانہ تھا۔ میں نے تین سفرا کے ساتھ کام کیا، ان میں سے دو کا تعلق فارن سروس سے تھا۔ میں سو فیصد یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پیشہ ور سفارت کاروں کی پرفارمنس بہت اچھی تھی۔ فارن آفس میں آج بھی اچھے افسر موجود ہیں۔ اس وزارت کی پرفارمنس کئی دوسری وزارتوں سے بہتر ہے۔ حال ہی میں دبئی میں ہمارے قونصل جنرل احمد امجد علی نے کمیونٹی کے لیے اچھا کام کر کے نیک نامی کمائی ہے۔
وزیراعظم عمران خان تین روزہ دورے پر سعودی عرب پہنچ چکے ہیں۔ وہاں خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال پر بھی بات ہو گی اور دوطرفہ تعاون پر بھی ۔ اللہ کرے کہ یہ دورہ کامیاب رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں