"JDC" (space) message & send to 7575

افغانستان: امید و بیم کے درمیان

امریکی افواج کے مکمل انخلا کے اعلان کے بعد افغانستان کے حالات تیزی سے بدلے ہیں۔ صدر جارج بش کے زمانے میں نائن الیون کے فوراً بعد امریکہ کو افغانستان پر حملے کی بھی بڑی جلدی تھی اور اب واپسی بھی بغیر کسی سیاسی سمجھوتے کے ہو رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے لیے یہ سب سے طویل جنگ بہت مہنگی رہی ہے۔ ساڑھے تین ہزار امریکی فوجی مارے گئے۔ اس سے کہیں زیادہ زخمی ہوئے ان میں سے کئی امریکن ہیلتھ سسٹم پر مستقل بوجھ ہیں۔ نہ افغانستان میں حقیقی جمہوریت آ سکی اور نہ ہی اقتصادی خوش حالی۔ امن و امان کی صورت حال مخدوش رہی اور اب بھی ہے جبکہ طالبان‘ جنہیں سبق سکھانے امریکہ آیا تھا‘ آج بھی پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں۔
موجودہ افغانستان سے کبھی کبھی امید کی کرنیں پھوٹتی نظر آتی ہیں۔ طالبان کو اپنی متعدد کامیابیوں کے باوجود اس بات کا ادراک ہے کہ وہ بلا شرکتِ غیرے افغانستان پر حکومت نہیں کر سکیں گے‘ اس لیے وہ کچھ عرصہ سے تاجک لوگوں کو اپنی صفوں میں لا رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت طالبان میں تاجک شرکت 25 فی صد ہے۔ افغانستان میں کسی بھی کامیاب حکومت کے لیے لازم ہے کہ تمام لسانی گروہوں کو ان کا حصہ بقدر جُثہ ملے۔
افغانستان معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے۔ اگر وہاں حقیقی امن آ جائے تو چین سرمایہ کاری کر کے مائننگ (Mining) یعنی کان کنی کا عمل شروع کر سکتا ہے۔ یہ عمل چین کے لیے تو فائدہ مند ثابت ہو گا ہی‘ اس سے خود افغانستان کو معاشی اور اقتصادی لحاظ سے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے میں خاصی مدد ملے گی۔ اسی طرح پر امن افغانستان سی پیک کے منصوبے میں شامل ہو کر چین سے اپنی تجارت بڑھا سکتا ہے۔ افغانستان کے ذریعے پاکستان سنٹرل ایشیا سے تجارت کر سکتا ہے۔ مستقبل میں کسی وقت انڈیا اور سنٹرل ایشیا کے درمیان تجارت کا ایسٹ ویسٹ کوریڈور بھی کھل سکتا ہے۔ واہگہ سے روانہ ہو کر ایک ٹرک آسانی سے دو دن میں ازبکستان پہنچ سکتا ہے اور وہاں سے سامان لے کر اتنے ہی وقت میں واپس آ سکتا ہے۔ اگر افغانستان میں حقیقی امن آ جائے تو اس کا پورے خطے پر مثبت اثر پڑے گا۔ اس جنگ زدہ ملک کی صنعت اور تجارت پھلے پھولے گی۔ ہزاروں لوگوں کو روزگار ملے گا۔ سب سے زیادہ فائدہ خود افغانستان کو ٹرانزٹ فیس کے ذریعے ہو گا۔
چند روز پہلے امریکی فوجیوں نے بگرام کا عسکری بیس خالی کر دیا۔ یہ عمل رات کی تاریکی میں مکمل رازداری سے کیا گیا۔ بیس کی تمام بتیاں بجھا دی گئیں۔ انخلا کے بارے میں افغان حکومت اور افغان سکیورٹی فورس کو بھی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی۔ خیر طالبان اور امریکہ کے مابین بد اعتمادی تو سمجھ آتی ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو اشرف غنی حکومت اور اس کے عسکری کمانڈروں پر بھی اعتماد کم کم ہی ہے۔ بگرام سے اچانک انخلا نے ویت نام جنگ کے خاتمے کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔ افغان جنگ نے بطور سُپر پاور امریکہ کی ہیبت اور رعب و دبدبے کو خاصا کم کیا ہے‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان میں دس سالہ عسکری مداخلت نے سوویت یونین کی ہیئت ترکیبی کو منتشر کرنے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ امریکہ افغانستان میں سوویت یونین سے دو گنا عرصہ رہا ہے، امریکی ہسٹری کی یہ سب سے لمبی اور مہنگی ترین جنگ تھی۔ امریکی ساکھ کو بے شک نقصان پہنچا ہے، لیکن امریکہ اپنی اصلی حالت میں آج بھی قائم ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق 2020ء کے آخر تک امریکہ اس جنگ میں سوا دو کھرب ڈالر جھونک چکا تھا۔ ایک خطیر رقم افغان نیشنل سکیورٹی فورس کی ٹریننگ پر خرچ کی گئی اور یہ وہ فورس ہے جس کے سپاہی بدخشاں میں طالبان کا مقابلہ کرنے کے بجائے پچھلے ہفتے تاجکستان بھاگ گئے تھے۔ اس فورس کی سب سے بڑی کمزوری یا ویک پوائنٹ یہ ہے کہ اس میں پشتون افسر نہ ہونے کے برابر ہیں اور یہ افغانستان میں شدید لسانی تقسیم کی واضح دلیل ہے۔
ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ہر جنگ کو ابتدا میں ایک خوبصورت سا نام دے دیا جاتا ہے گو کہ جنگیں مسئلے حل کم کرتی ہیں‘ الٹا مزید مسائل پیدا کر دیتی ہیں یا پہلے سے موجود مسائل کی شدت میں اضافہ کر دیتی ہیں۔ اکتوبر 2001 میں امریکہ نے نائن الیون کا بدلہ لینے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا تو اسے Operation enduring freedom یعنی پائیدار آزادی کے لیے جنگ کا نام دیا گیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ افغانستان کو طالبان کے قبضے سے آزاد کرایا جائے گا‘ جمہوریت آئے گی، انسانی حقوق بحال ہوں گے‘ خواتین تعلیم بھی حاصل کریں گی اور سیاسی اور اقتصادی زندگی میں بھی فعال ہوں گی‘ اقتصادی ترقی آئے گی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ نائن الیون کے روز تین ہزار لوگ نیو یارک میں مارے گئے تھے اور افغانستان میں ان کا بدلہ لیتے لیتے ساڑھے تین ہزار امریکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں‘ اس سے کہیں زیادہ مستقل زخمی یا اپاہج ہو چکے ہیں، جو امریکن ہیلتھ بجٹ پر مسلسل بوجھ ثابت ہوں گے۔ طالبان سے بدلہ لیتے لیتے امریکہ نے اپنے آپ کو بھی خاصا نقصان پہنچا لیا ہے۔ یاد رہے کہ صدر جارج بش جونیئر کے زمانے میں امریکہ میں ڈک چینی اور رمسفیلڈ (Rumsfield) جیسے قدامت پسند آگے آگے تھے۔
چونکہ موضوع ہمارا افغانستان کے مستقبل قریب کے بارے میں ہے لہٰذا ماضی کے قصے دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ اور نیٹو افواج کے لیے بے تحاشا اسلحہ لایا گیا۔ اس میں سے کافی سارا اسلحہ بائی ایئر واپس بھیجا جا چکا ہے۔ کچھ سامانِ حرب تلف کر دیا گیا ہے۔ ایک بڑی کھیپ افغان سکیورٹی فورس کے حوالے کی گئی ہے جس میں سے ایک حصے پر طالبان نے شمالی صوبے قندوز اور واخان میں کارروائی کے دوران قبضہ کر لیا ہے‘ تو جس ملک میں اسلحہ کی بھرمار ہو اور متحارب دھڑے پُر امن سیاسی فیصلے سے خاصے دور ہوں وہاں خونیں سول وار کے اندیشوں کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
اور اب آتے ہیں امن کے روشن امکانات کی جانب، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے طالبان کو اس بات کا ادراک ہے کہ وہ اکیلے ملک پر حکومت نہیں کر سکتے‘ لہٰذا حکومت میں تاجک، ازبک اور ہزارہ شراکت ازبس ضرورت ہے اور سب سے امید افزا بات اس مرتبہ یہ ہے کہ پاکستان، ایران، چین اور روس کی افغانستان کے بارے میں سوچ میں مطابقت ہے۔ 1996ء میں یہ صورت حال نہیں تھی۔
2020ء میں دوحہ‘ قطر میں طالبان اور امریکہ کے مابین امن معاہدہ ہوا، امریکہ نے وعدہ کیا کہ مئی 2021ء تک افواج نکال لے گا اور طالبان نے وعدہ کیا کہ وہ افغانستان کی سر زمین امریکہ کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اس کے بعد سے طالبان نے امریکی فوجیوں پر حملے نہیں کیے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ اور طالبان کے مابین مفاہمت بڑھی ہے۔ یاد رہے کہ دوحہ مذاکرات میں اشرف غنی حکومت کا کوئی نمائندہ نہیں تھا۔ امریکہ نے بالآخر طالبان کی حقیقت کو تسلیم کر لیا تھا، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مستقبل میں طالبان کی حکومت‘ 1996-2001 کے دور کی طرح من مانی کرے گی۔ طالبان کو عالمی برادری کا حصہ بننا پڑے گا اور بیرونی مالی امداد کی بھی اشد ضرورت ہو گی۔ اگر افغانستان میں سول وار ہوئی تو پاکستان کو نقصان ہو گا اور اگر وہاں امن کی فاختائیں بولتی ہیں تو خوش گوار اثرات بھی پاکستان پر مرتب ہوں گے۔ ہمارے سامان کے ٹرک اور ٹریلر سنٹرل ایشیا جائیں گے۔ تاجکستان سے بجلی آئے گی۔ ترکمانستان سے گیس آئے گی۔ گوادر مصروف بندرگاہ ہو گی اسی طرح ایران، چین، سنٹرل ایشیا سب کا فائدہ ہو گا‘ لہٰذا سب ممالک کو مل کر امن کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں