"JDC" (space) message & send to 7575

عید اور یادِ ایام

میرا بچپن فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے درمیان گوجرہ کے قصبے میں گزرا۔ والد صاحب وہاں سیکرٹری میونسپل کمیٹی تھے۔ گوجرہ اس زمانے میں مختصر سی آبادی تھی۔ شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ہم آدھے گھنٹے میں پہنچ جاتے تھے اور وہ بھی پیدل۔ اس قصبے کی کل آبادی بیس ہزار سے ذرا اوپر تھی۔ پورے شہر میں دو یا تین کاریں تھیں۔ شہر کے درمیان واقع غلہ منڈی زندگی کا محور تھی۔ یہ غلہ منڈی 1947ء سے پہلے بھی دیسی یعنی برائون چینی کی خریداری کے لیے پورے انڈیا میں مشہور تھی۔ پنجاب فتح کرنے کے بعد جلد ہی انگریز نے ساندل بار اور نیلی بار میں نہریں بنوائیں اور ریلوے لائن بھی بچھا دی اور کئی مارکیٹ ٹائون بنائے۔ گوجرہ ان ہی میں سے ایک تھا۔
گوجرہ کا ذکر ایک شخصیت کے بغیر نامکمل ہوگا اور وہ تھے سر مہدی شاہ۔ اٹک کے رہنے والے تھے۔ دوسری افغان جنگ میں انگریز فوج کو سامان سپلائی کرنے والے ٹھیکیداروں میں شامل تھے۔ خوب مستعدی سے کام کیا۔ انگریز سرکار نے انہیں خوش ہو کر گوجرہ کے پاس زمین دی اور سر کا خطاب دیا۔ روایت یہ تھی کہ جس شخص کو سر کا خطاب ملتا تھا حکومت اس کے گھر تک پختہ سڑک بنواتی تھی اور وائسرائے خود خطاب دینے آتا تھا۔ چنانچہ گوجرہ سے مہدی آباد تک پکی سڑک بن گئی۔ لارڈ ریڈنگ (Lord Reading) اس وقت وائسرائے تھے۔ وہ خود ایک دن کے لیے گوجرہ آئے۔ ان کے ایک شب کے قیام کے لیے سر مہدی شاہ نے ایک عالی شان کوٹھی تعمیر کرائی۔ اس محلے کو اب بھی مہدی آباد کہا جاتا ہے۔ انگریز سرکار نے سر مہدی شاہ کو نئی قائم شدہ میونسپل کمیٹی کا چیئر مین بھی بنایا۔
گوجرہ کے چاروں طرف متعدد دیہات تھے جہاں جاٹ، ارائیں، راجپوت اور گوجر سب برادریاں مقیم تھیں اور زراعت کے پیشے سے منسلک تھیں۔ شہر میں شیخ برادری کی اکثریت تھی۔
والد صاحب نے 1934 میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا تھا۔ اس وقت عالمی کساد بازاری کا سماں تھا جو دس سال تک چلا۔ ایک طویل عرصہ بے روزگار رہنے کے بعد انہیں گوجرہ میں جاب ملی۔ وہاں وہ سترہ سال رہے۔ شہر کی ترقی کے لیے بہت کام کیا۔ جمہوریت کے زیادہ حق میں نہیں تھے۔ کہا کرتے تھے کہ میونسپل کمیٹی کے منتخب چیئر مین ساری ڈویلپمنٹ اپنے ہی حلقے تک محدود رکھتے ہیں تا کہ ووٹ بینک محفوظ رہے چنانچہ گوجرہ میں 1960ء کی بنیادی جمہوریت آنے تک الیکشن نہ ہوئے، لیکن کالج بن گیا‘ ہاکی کا اچھا گرائونڈ بنا، شہر کے وسط میں ایک اچھی لائبریری بنی۔ متعدد پرائمری سکول بنے‘ ٹینس کھیلنے کے لیے سول کلب بنا۔ شہر میں صفائی کا اعلیٰ انتظام تھا۔ اب یہ قصبہ ایک بے ہنگم سا شہر بن چکا ہے۔
اس زمانے کی چند شخصیات نے میرے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ جسٹس محمد افضل چیمہ یہاں سے ایم این اے 1960 میں بنے اور متحدہ پاکستان کی نیشنل اسمبلی میں سینئر ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے۔ حمزہ صاحب گوجرہ ہی سے پہلے صوبائی اور پھر قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے اور کئی بار ہوئے۔ میں مذکورہ بالا نیک شخصیات کا معترف رہا ہوں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گوجرہ کے لوگوں نے ایک مرتبہ ایک ایسے شخص کو بھی منتخب کیا جس نے زمانہ طالب علمی میں پہلا ڈاکا مارا تھا۔
دو غیر سیاسی شخصیات کے ذکر کے بغیر گوجرہ کی یادیں نامکمل رہیں گی۔ ہمارے سکول کے ہیڈ ماسٹر میاں منظور محمد خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ ہر وقت با وضورہتے تھے‘ تہجد شاید ہی کبھی چھوڑی ہو۔ سکول میں ظہر کی نماز باقاعدگی سے ہوتی تھی۔ نقل لگانے کی کسی کو جرأت نہ تھی۔ سکول کے نتائج شاندار تھے۔ ہمارے ہی سکول کے کئی لڑکے بعد میں ہاکی کے اولمپین بنے۔ گوجرہ کی دوسری عظیم شخصیت ڈاکٹر چودھری رحمت اللہ تھے جو عرصہ تک سول ہسپتال کے انچارج رہے۔ آنکھوں کی سرجری کے لیے پورے پنجاب میں معروف تھے۔ نہایت خوش مزاج تھے۔ مریض کا آدھا علاج اپنی گفتگو سے کر دیتے تھے۔ ان کے پاس دور دراز سے ہزاروں مریض آتے اور شفایاب ہو کر دعائیں دیتے واپس جاتے۔
میری پیدائش پاکستان بننے سے چند ماہ پہلے کی ہے۔ والد صاحب کی تنخواہ محدود تھی لیکن سہولتیں کافی تھیں۔ ہمارے پاس وسیع گھر تھا جہاں دو عدد بھینسوں کا چارہ اگانے کی جگہ تھی۔ گھر کے اندر بڑا دالان تھا۔ سامنے وسیع لان تھا جہاں آم کے پیڑ تھے۔ یہی لان ہمارے قربانی کے جانور کے لیے چراگاہ کا کام بھی دیتا تھا۔ اسی گھر میں میں نے کبوتر بھی رکھے اور اعلیٰ نسل کی مرغیاں بھی پالیں۔
ہوتا کچھ یوں تھا کہ عید الفطر کے قریب کچھ لوگ خیبرپختونخوا سے دنبوں کے ریوڑ لاتے تھے۔ یہ دنبے بھی ابھی لڑکپن کی سٹیج میں ہوتے تھے یعنی تین چار ماہ کے۔ سفید رنگ میں یہ چھوٹے چھوٹے دنبے بڑے ہی خوصورت لگتے تھے اورہاں ایک دنبے کی قیمت تیس سے پینتیس روپے ہوتی تھی، یہ پڑھ کر شاید آپ کو لگے کہ میرا تعلق بہت ہی قدیم زمانے سے ہے۔
دنبے کو ایک لمبی رسی کے ساتھ سامنے لان میں باندھ دیا جاتا تھا اور وہ خوراک میں خود کفیل ہو جاتا تھا۔ کبھی کبھی اسے صحت مند بنانے کے لیے چھوٹے چنے اور سوکھی روٹی بھگوکر راتب میں شامل کر دئیے جاتے تھے۔ گھر کی بچی ہوئی سوکھی روٹیاں ایک بوری میں اسی مقصد کے لیے سٹور کی جاتی تھیں۔ سکول سے واپسی پر اپنے دنبے کو دیکھنا میرا روزانہ کا مشغلہ تھا۔ ایک روز میں سکول سے آیا تو بہت بُری خبر ملی۔ پتہ چلا کہ دنبے نے رسی سے رہائی حاصل کر کے بوری میں سے بہت سی روٹیاں کھا لی ہیں اور اس لالچی فعل کے نتیجہ میں اس کا پیٹ بُری طرح پھولا ہوا ہے۔ پنجابی میں جانور کی اس حالت کو اُپھارہ کہا جاتا ہے۔ میرے دنبے کی حالت خاصی نازک تھی۔ نوکر کو سائیکل پر بھیجا گیا کہ وہ جلدی سے شہر کے اکلوتے ویٹرنری ڈاکٹر کو لے آئے لیکن ڈاکٹر کے آنے سے پہلے دنبہ حالت نزاع سے آگے جا چکا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دنبے کے فراق میں میں بہت رویا تھا۔
اس مختصر سے قصبے کا طرز زندگی بہت سادہ تھا۔ کسی کے گھر میں نہ فریج تھا اور نہ ہی فریزر لہٰذا قربانی کا گوشت فوراً ہی تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ دوپہر کو کھانا قربانی کے گردہ کلیجی تک ہی محدود ہوتا تھا۔ اس شہر کی آبادی چاند رات اور اس کی رسومات سے نابلد تھی۔ گھروں میں فون نہیں تھے۔ ہمارے گھر میں پہلا فون 1963میں لگا۔ عید مبارک کہنے کا بڑا ذریعہ عیدکارڈ تھے۔ شہر کے مکین ایک دوسرے کو عید ملنے جاتے تھے۔ اگر عید کے موقع پر شہر میں سرکس آ جاتی تو عید کا مزا دوبالا ہو جاتا تھا، شہر کے اکلوتے سینما میں عید پر نئی فلم ضرور لگتی تھی۔ چند بانکے لڑکے دلیپ کمار یا راج کپور کا سا ہیئر سٹائل بنائے گھومتے نظر آتے تھے۔
ہمیں عیدی روپوں میں نہیں بلکہ آنوں میں ملتی تھی۔ اگر عید آم کے سیزن میں آئے تو سول کلب والے قریبی نہر جھنگ برانچ پر پکنک کا اہتمام کرتے تھے۔ عید کی نماز ہمارے سکول کے فٹ بال گرائونڈ میں ہوتی تھی، بڑے جلدی سے گھر آنے کی کوشش کرتے تھے تا کہ قربانی وقت پر ہو جائے بچے پارک میں جھولوں کا رخ کرتے تھے۔ قربانی کا گوشت ایک وقت ہی پکتا تھا۔ سری پائے یا نہاری کا ہم نے سنا ہی نہیں تھا۔ سادہ سی زندگی تھی اور سادہ سی عید مگر وہ دن یاد اب بھی آتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں