"JDC" (space) message & send to 7575

کشمیر اور تیسرا آپشن

کوٹلی آزاد کشمیر میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جب کشمیری پاکستان سے الحاق کر لیں گے تو اس کے بعد ہم ان سے پوچھیں گے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزادی چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب کے اس بیان نے سیاسی فضا میں خاصا ارتعاش پیدا کیا۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کیا اقوام متحدہ کی قراردادوں میں یا ہمارے آئین میں تیسرے آپشن کی کوئی گنجائش ہے۔ دوسری سوچنے کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے یہ کہا ہی کیوں؟ اور اگر بالفرض کشمیر بشمول جموں اور لداخ پورے کا پورا آزاد ہو جائے تو جیو پولیٹیکل صورت حال کیا ہو گی؟
جہاں تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کا تعلق ہے‘ وہاں جموں و کشمیر کے بارے میں صرف دو آپشن ہیں‘ یعنی اقوام متحدہ کشمیری عوام سے سوال کرے گی کہ آپ پاکستان کو جوائن کرنا چاہتے ہیں یا انڈیا سے الحاق کرنا چاہتے ہیں۔ کسی قسم کا تیسرا آپشن اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں میں موجود ہی نہیں۔ ایسے کسی آپشن کا کوئی ذکر نہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کا آئین اس سلسلے میں کیا کہتا ہے۔ ایک انگریزی جریدے نے حال ہی میں لکھا کہ ہمارا آئین کشمیریوں کو تیسرے آپشن کی اجازت دیتا ہے اور اپنی اس بات کی تائید میں اخبار نے آئین کے آرٹیکل نمبر 257 کا حوالہ دیا ہے جو اس طرح ہے:
Provision relating to the State of Jammu and Kashmir: When the people of the State of Jammu and Kashmir decide to accede to Pakistan, the relationship between Pakistan and that State shall be determined in accordance with the wishes of the people of that State.
''جب ریاست جموں اور کشمیر کے عوام یہ فیصلہ کر لیں گے کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا ہے تب پاکستان اور ریاست کے باہمی رشتے کی نوعیت ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق طے ہو گی‘‘۔ اس حوالے سے اخبار نے لکھا ہے کہ وزیر اعظم کا کوٹلی والا بیان آئین کے مطابق ہے جبکہ اپوزیشن لیڈر کے اعتراضات درست نہیں۔
مجھے اس رائے سے اختلاف ہے۔ مندرجہ بالا آرٹیکل پاکستان کے اندر کشمیر کی حیثیت کی بات کرتا ہے۔ وضاحت میں ایسے کروں گا کہ الحاق کے بعد کئی صورتیں ہو سکتی ہیں‘ ایک شکل یہ ہو سکتی ہے کہ پنجاب اور سندھ کی طرح کشمیر بھی پاکستان کا صوبہ ہو‘ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ فارن پالیسی‘ کرنسی‘ دفاع اور مواصلات کے علاوہ باقی تمام اختیارات کشمیر کی حکومت کے پاس ہوں یعنی پاکستان میں رہ کر کشمیر کو مکمل اٹانومی حاصل ہو۔ آرٹیکل 257 مکمل آزادی یعنی تیسرے آپشن کی بات نہیں کرتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نے یہ بات کیوں کی؟ یہ سوال مجھ سے ایک عربی چینل پر بھی پوچھا گیا۔ میرا خیال ہے کہ بیان پی ٹی آئی کے لیے ووٹ حاصل کرنے کے لیے دیا گیا۔ کشمیر میں مکمل آزادی کا تصور کوئی نئی بات نہیں۔ کشمیر کو اکبر نے فتح کیا تو یہ انڈیا کا حصہ بنا ورنہ اس سے پہلے آزاد اور علیحدہ رہا۔ وہاں کے لوگ‘ کیا ہندو اور کیا مسلمان اپنی کشمیری شناخت پر ہمیشہ نازاں رہے۔ یہ بات بھی ثابت ہے کہ شیخ عبداللہ بھی مکمل آزادی کے حامی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ انڈیا کے ساتھ الحاق وقتی ہو گا لیکن پھر انڈیا کے جن بھوت نے ایسا پکڑا کہ چھوڑنے کا نام ہی نہ لیا۔ انڈیا کے قبضے کا شکنجہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔
1967ء کی بات ہے میں ایک انٹرکالجیٹ مباحثے میں گورنمنٹ کالج لاہور کی نمائندگی کے لیے میرپور کالج گیا۔ ایک دن اور ایک رات میر پور کالج کے ہوسٹل میں قیام کیا۔ طلبا سے کشمیر کے حوالے سے گفتگو ہوئی‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اُس وقت بھی چند طلبا کشمیر کی آزادی کے حامی تھے۔
چلئے ایک لمحے کے لیے فرض کرتے ہیں کہ کنٹرول لائن کے دونوں طرف کی آبادی کی اکثریت مکمل آزادی کا نعرہ لگانا شروع کر دیتی ہے تو کیا کشمیر آزاد ہو جائے گا؟ ہمسایہ ممالک کا ردِ عمل کیا ہو گا؟ سب سے پہلے انڈیا کو لیتے ہیں جس کا دعویٰ ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے۔ 5 اگست 2019ء سے اس نے اس''اٹوٹ انگ‘‘ کو ایسے آہنی ہاتھوں سے جکڑا ہے کہ کشمیر ایک بڑی جیل میں تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔ سری نگر کی حیثیت بھارت کی نظروں میں ویسی ہی ہے جیسی القدس (یروشلم) کی اسرائیل کے لیے ہے۔ جس طرح اسرائیل کی کوشش رہتی ہے کہ دوسرے ممالک القدس میں اپنے سفارت خانے شفٹ کریں اور مشرقی حصے میں قونصلیٹ کھولیں اسی طرح انڈیا اب دوست ممالک سے کہہ رہا ہے کہ وہ سری نگر میں اپنے قونصلیٹ کھولیں۔
کشمیر کی مکمل آزادی انڈیا کے لیے ایک بڑی ہزیمت ہو گی۔ اس کا عالمی طاقت بننے کا خواب بری طرح متاثر ہو گا۔ انڈینز کی تو کوشش ہے کہ دنیا کے اہم ممالک کشمیر پر اس کے قبضے کو تسلیم کر لیں۔ کشمیر میں انرجی‘ سیاحت اور دیگر شعبوں میں انڈیا کھربوں روپے کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ انڈیا کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ قائم رکھنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دے گا۔ ویسے بھی اگلے پانچ دس سالوں میں وہاں آبادی کا تناسب خاصا تبدیل ہو چکا ہو گا۔
چین کا رویہ کیا ہو گا‘ اور اس بات کو اس زاویے سے بھی دیکھئے کہ کشمیر کی مفروضہ آزاد ریاست انٹرنیشنل ریشہ دوانیوں کا گڑھ بن سکتی ہے اور اس کی بڑی وجہ اس کا محل وقوع ہو گا۔ چین کے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے امریکہ‘ چین اور انڈیا سب وہاں اپنا حلقۂ اثر بنانے کی دوڑ میں مشغول نظر آئیں گے۔ غیر ملکی خفیہ ایجنسیاں اپنے اپنے طریقوں سے مصروف ہو جائیں گی۔ امریکہ کے لیے چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا یہ اچھا موقع ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کشمیری ریاست کو بھاری امداد کے عوض فوجی اڈے دینے کا بھی کہے۔
چین کبھی نہیں چاہے گا کہ کوئی امریکہ جیسا طاقت ور ملک اس کے پچھواڑے میں آ کر بیٹھ جائے اور ہاں کشمیر کی ریاست انڈیا اور پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سنکیانگ میں علیحدگی پسندوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ کشمیر کی مکمل آزادی پاکستان کو بھی سوٹ نہیں کرتی‘ خاص طور پر عسکری اعتبار سے۔ اگر کوئی ایسا ملک کشمیر میں اثر و رسوخ حاصل کر لے جو پاکستان دوست نہ ہو تو خیبرپختونخوا اور پنجاب کے کئی علاقے عسکری طور پر غیر محفوظ ہو جائیں گے۔
آزاد کشمیر کے حالیہ الیکشن میں تینوں بڑی جماعتوں نے جس طرح ایک دوسرے کی بھد اڑائی ہے اس سے کشمیریوں میں پاکستان کا امیج خراب ہوا ہے۔ اس قدر سوقیانہ زبان کا استعمال اور بھونڈے الزامات کا تبادلہ شاید ہی کبھی ہوا ہو۔ یہ ذہن میں ضرور رکھیں کہ کشمیری خوش حال اور با اخلاق پاکستان کو ضرور جوائن کرنا چاہیں گے۔ اور آخر میں اپنے لیڈروں سے گزارش ہے کہ آئندہ تیسرے آپشن کی بات مکمل احتیاط سے کریں کیونکہ یہ آپشن نہ یو این کی قراردادوں میں پایا جاتا ہے اور نہ ہی آئینِ پاکستان میں۔ تیسرے آپشن کی بات کرنے کے بجائے آپ پاکستان کو ایسے مقام پر لے جائیں کہ کشمیری بھائی کھنچے کھنچے ہماری طرف آئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں