"JDC" (space) message & send to 7575

مشرق اور مغرب

مشہوربرطانوی صحافی‘ ناول نگار‘ شاعر اور افسانہ نویس جوزف رڈیارڈ کپلنگ(Joseph Rudyard Kipling) 1865ء میں ممبئی میں پیدا ہوئے۔ صحافتی زندگی زیادہ تر لاہور میں گزاری جہاں وہ مشہور انگریزی اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ایڈیٹر رہے۔ وفات 1936ء میں لندن میں ہوئی۔ انہوں نے مشرق اور مغرب کا بغور مشاہدہ کیا۔ کپلنگ کا مشہور قول ہے : ''East is East and West is West, and never the twain shall meet‘‘ یعنی مشرق اور مغرب دو مختلف جہان ہیں اور یہ کبھی یکجا نہیں ہو سکتے۔ میں نے بھی مشرق اور مغرب دونوں کو قریب سے دیکھا ہے اور مجھے کپلنگ کے قول سے اتفاق ہے‘ تو آیئے دیکھتے ہیں کہ دونوں ثقافتوں میں بنیادی فرق کہاں کہاں ہے:
مغربی کلچر میں فرد کی اہمیت بنیادی عنصر ہے‘ جبکہ اکثر مشرقی ممالک میں فیملی اور قبیلہ اب بھی بہت اہم ہے۔ مغربی ممالک میں بچے جوان ہوتے ہی والدین سے ''آزاد‘‘ ہونے کا سوچنے لگ جاتے ہیں‘اگر لڑکا بیس سال کی عمر کو کراس کر جائے اور پھر بھی والدین کے گھر میں مقیم ہو تو یار دوست اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں لڑکے والدین سے جدا اُس وقت ہوتے ہیں جب ان کی جاب اس امر کی متقاضی ہو یا بیوی کے پریشر میں آ جائیں۔ اگر جاب اسی شہر میں ہو جہاں والدین مقیم ہیں اور بیوی علیحدہ رہنے کا تقاضا نہ کرے تو جوائنٹ فیملی سسٹم چلتا ہے جہاں والدین کی رائے احترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ وقت گزرتا جاتا ہے اور یہی جوائنٹ فیملی اولڈ ایج ہوم بھی بن جاتی ہے۔
مغرب میں فیملی کے گھونسلے سے اڑنے کی جلدی صرف لڑکوں کو نہیں ہوتی بلکہ لڑکیاں بھی مکمل آزادی کیلئے بیتاب ہوتی ہیں۔ وہاں لڑکیوں کیلئے بر ڈھونڈنا یا ان کی شادی کرنا والدین کے فرائض میں شامل نہیں۔ لڑکے اور لڑکیاںاس امر میں مکمل خود کفیل ہوتے ہیں‘ بس رسماً والدین کو مطلع کر دیا جاتا ہے۔مشرق میں لڑکی یا لڑکے کیلئے برڈھونڈنا اب بھی والدین کی ذمہ داری ہے‘ خاص طور پر دیہات میں۔ البتہ شہروں میں پڑھے لکھے اور برسر روزگار لڑکے لڑکیاں اب شادی کے معاملے میں والدین کو اپنی رائے دینے لگ گئے ہیں ۔بڑے شہروں میں تو یہ عمل تواتر سے ہونے لگا ہے اور اس میں شرع کے اعتبار سے بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ کافی عرصے کی بات ہے‘ کولڈ وار چل رہی تھی‘ دو سپر پاورز کے درمیان مہلک ترین ہتھیاروں کی دوڑ جاری تھی‘ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ دنیا کے سرپر منڈلا رہا تھا‘ اُس ماحول میں امریکہ میں ایک سروے ہوا‘ سوال یہ تھا کہ آزادیٔ رائے اور امن میں سے آپ کس چیز کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں؟ اکثریت کا جواب تھا کہ ہمارے لئے آزادیٔ رائے زیادہ اہم ہے۔ یہی وہ حد سے بڑھی ہوئی رائے کی آزادی ہے جس کو جواز بنا کر ڈنمارک اور فرانس کے اخبار دوسرے مذاہب کا مذاق اڑاتے ہیں اور وہاں کی حکومتیں انہیں کچھ نہیں کہتیں۔
انسانی حقوق کے بارے میں بھی مشرق اور مغرب کے تصورات الگ الگ ہیں۔ برصغیر میں بہنیں دیہات میں اکثر اپنی زرعی اراضی کی وراثت سے بھائیوں کے حق میں دستبردار ہو جاتی تھیں۔ بات پھر وہیں آتی ہے کہ مشرق میں فیملی اور قبیلے کی اہمیت فرد سے زیادہ ہے جبکہ مغرب میں معاملہ برعکس ہے‘ وہاں بچوں کو جائیداد میں حصہ والدین کی وصیت کے مطابق ملتا ہے اور اس ضمن میں کوئی جنسی تفریق نہیں ہوتی۔ اگر وصیت نہ ہو تو سب برابر۔ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کے بارے میں بھی برصغیر اور یورپ کے رویے مختلف نظر آتے ہیں۔ مغرب میں اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں لوگ فخر محسوس کرتے ہیں جبکہ انڈوپاک میں ہاتھ سے کام کرنے والے کو کمی کمین کہا جاتا ہے۔ غالباً یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اقتصادی ترقی میں یورپ ہم سے آگے ہے۔ وہاں آپ کو سمتھ (Smith)اور گارڈنر( Gardener) قسم کے فیملی نام عام ملتے ہیں۔ وہ لوگ بڑھئی یا لوہار کا کام بھی فخر سے کرتے ہیں اور اپنے نام کے ساتھ شناخت کے طور پر بھی لگاتے ہیں جبکہ برصغیر کے دیہاتی علاقوں میں جو بڑا آدمی صاحبِ جائیداد ہوتا تھا‘ وہ ہر کام نوکروں سے کرواتا تھا ‘خود سفید پوش بن کر بیٹھا رہتا تھا۔ چوہدراہٹ کرتا تھا پنچایت لگاتا تھا اور اس نکمے شخص کو سوسائٹی میں قابلِ احترام سمجھا جاتا تھا۔ اس کے برعکس مغرب میں بڑے سے بڑا زمیندار بھی ٹریکٹر خود چلاتا ہے۔ اعلیٰ درجے کا افسر دفتر سے گھر آتا ہے تو مشین پکڑ کر لان کی گھاس کاٹنے لگ جاتا ہے‘ خاوند کو بیوی کے ساتھ مل کر برتن دھونا پڑتے ہیں۔
پچھلے دنوں مغرب میں انسانی حقوق کے سیاق میں ایک دلچسپ کہانی سننے کو ملی۔ مجھے یہ تو کئی سال پہلے کینیڈا میں قیام کے دوران معلوم ہو گیا تھا کہ والدین اپنے بچے کو تھپڑ رسید کرنے کا حق نہیں رکھتے کیونکہ ایسی صورت میں بچہ پولیس کو بلا سکتا ہے مگر یہ تازہ کہانی ذرا مختلف ہے۔ امریکہ کی مشہور ریاست کیلے فورنیا میں میرے ایک عزیز وسیع گھر میں رہتے ہیں۔ آرام سے ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ مشغول رہنے کیلئے چند پالتو جانور اور پرندے گھر میں رکھے ہوئے ہیں اور ان میں مرغیاں بھی شامل ہیں۔ اب مرغے کا جب موڈ بنے وہ بانگ دے دیتا ہے۔ گورے ہمسایوں کو یہ بات بہت ناگوار گزرتی تھی کہ مرغ علی الصبح کیوں بانگیں دینے لگتا ہے۔ اب مرغے کی زبان بندی بھی ناممکنات میں سے ہے۔ ہمسایوں نے پولیس کو فون کر دیا۔ پولیس آ کر تمام مرغے لے گئی البتہ مالک کو اتنا اختیار ضرور دیا کہ وہ ذبح خانے میں ان کے سامنے ذبح کرکے گوشت لے سکتے ہیں۔ اب اس کے الٹ قصہ بھی سنئے۔ میرے ایک دوست لاہور میں کئی پشتوں سے مقیم تھے‘ چند سال پہلے جب لوڈشیڈنگ عروج پر تھی ان کے ہمسائے نے بائونڈری وال کے ساتھ جنریٹر لگا دیا جو بہت شور مچاتا تھا اور رات کو نیند ڈسٹرب کرتا تھا؛ چنانچہ ہمسائے سے درخواست کی گئی کہ جنریٹر کو کسی اور جگہ شفٹ کر دے مگر کوئی اثر نہ ہوا۔ دوسرے ہمسایوں سے کہلوایا گیا۔ پولیس کو شکایت کی گئی تو جواب ملا کہ ہر مالک اپنے گھر کی حدود میں خود مختار ہے تا آنکہ وہ کسی کے جان و مال کو نقصان نہ پہنچائے۔ تمام کوششوں کی ناکامی کے بعد میرے دوست نے امریکہ کی امیگریشن کیلئے اپلائی کر دیا۔
برصغیر میں اور عرب دنیا میں فیملی اب بھی سٹرانگ ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے ہاں بھائی بھائی کو بچانے کیلئے عدالت میں جھوٹی گواہی دینے کیلئے تیار ہو سکتا ہے‘ جبکہ مغرب میں ایسا ناممکن ہے۔ وہاں فرد کی وفاداری فیملی سے زیادہ نظام کے ساتھ ہے۔ مشرق میں حفظِ مراتب اور وضع داری کی روایت ابھی تک چل رہی ہے۔ والدین بزرگوں اور استاد کی آرا کو عام طور پر چیلنج نہیں کیا جاتا جبکہ مغرب میں یہ ممکن ہے۔
پروفیسر اناٹول لیوین ( Anatol Lieven)پاکستان پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ دس سال پہلے ان کی کتاب : Pakistan: A Hard Countryآئی تو اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ یہ پاکستانی سوسائٹی اور ریاست پر بے لاگ تبصرہ ہے۔ اپنی کتاب کے نام کی تشریح کرتے ہوئے ان کاکہنا تھا: پاکستان میں سیاست کمزور دل لوگوں کا کام نہیں۔ لیکن وہ کتاب کے ٹائٹل کی مثبت تشریح بھی کرتے ہیں کہ پاکستان کا مضبوط فیملی سسٹم اور پروفیشنل مسلح افواج ملک کو طاقت فراہم کرتی ہیں۔پاکستان کے بارے میں کانگریس کا خیال تھا کہ یہ بہت تھوڑا عرصہ چلے گا۔ طارق علی نے 1983ء میں ''Can Pakistan Survive‘‘ لکھی تھی۔ ان کا بھی یہی خیال تھا‘ لیکن پاکستان نے بہت سی منفرد پیش گوئیوں کو غلط ثابت کیا ہے۔ مغرب نے کئی اسلامی شعائر کو اپنایا ہے مثلاً وقت کی پابندی اور سچ بولنا۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ ہمیں کون سی مغربی عادات کو مستعار لینا چاہئے تو میں کہوں گا کہ سائنٹفک سوچ اور ایمانداری سے ٹیکس دینا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں