"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستان اور یوکرائن: مماثلت اور فرق

چند ماہ سے یوکرائن کی وجہ سے روس اور نیٹو ممبر ممالک میں شدید تناؤ ہے۔ ایک لاکھ روسی فوج یوکرائن کی سرحد پر تعینات ہے اور امریکہ میں ساڑھے آٹھ ہزار فوجی الرٹ بیٹھے ہیں یوکرائن جانے کے لیے۔ ویسے صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ اُن فوجیوں کے فوری طور پر بھیجے جانے کا امکان کم ہے۔ یوکرائن میں سویلین آبادی کو بنیادی عسکری تربیت دی جا رہی ہے کہ اگر روسی حملے کی صورت میں فوج مشکلات کا شکار ہو جائے تو شہری اپنا دفاع خود کر سکیں۔
یوکرائن 1991 میں سوویت یونین سے علیحدہ ہوا تو پاکستان نے اسے فوراً تسلیم کر لیا تھا۔ اگلے سال دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ہاں سفارت خانے کھول لیے تھے۔ یوکرائن کے سفارت کار اکثر کہتے تھے کہ پاکستان اور یوکرائن ایک دوسرے کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کیونکہ دونوں معرض وجود میں آنے سے پہلے دو بڑے ملکوں کا حصّہ تھے۔ آزاد ہونے کے بعد دونوں ممالک کے بڑے ہمسایوں سے پرابلم چل رہے ہیں۔ اپنے تحفظ کی خاطر اگر پاکستان کو مغربی ممالک کے عسکری معاہدوں کا حصّہ بننا پڑا تو یوکرائن بھی اپنے دفاع کے لیے نیٹو کی جانب دیکھ رہا ہے۔
دونوں ممالک کی آزادی اور اپنے سے کہیں بڑے ہمسائے سے علیحدگی میں مماثلث ضرور ہے مگر فرق بھی ہے۔ مثلاً پاکستان کا موجودہ علاقہ اکثر و بیشتر برصغیر کا حصہ رہا۔ پاکستان بنا تو اس کی بنیاد مذہب پر مبنی الگ ثقافت تھی۔ لیکن پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے مدر انڈیا (Mother India) کے دو ٹکڑے ہوئے کیونکہ ہندو مت کی جنم بھومی دریائے سندھ کی وادی ہے‘ انڈیا کو لہٰذا اس علاقے سے جذباتی لگاؤ ہے۔ یوکرائن ماضی قریب میں سوویت یونین کا حصّہ ضرور رہا ہے لیکن اس کا الگ لسانی اور سیاسی وجود بھی رہا ہے۔ 2014 میں جب روس نے کریمیا پر قبضہ کیا تو یوکرائن کے وزیر اعظم وکٹر یانوکووچ (Victor yanukovych) روس کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے لیکن عوام میں ان کی مخالفت ایسی شدید بڑھی کہ وہ اپنے عہدے کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ پاکستان میں بھی انڈیا فرینڈلی لیڈر نہیں چل سکتا۔
گو کہ یوکرائن میں روس مخالفت جذبات جوبن پر ہیں لیکن دونوں ممالک میں نسلی اور مذہبی مماثلت بھی موجود ہے؛ البتہ یوکرائن کی زبان جو کہ روسی زبان کے خاصی قریب تھی‘ وقت گزرنے کے ساتھ اپنی الگ شناخت بنا چکی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اردو اپنے رسم الخط اور فارسی‘ عربی اور ترکی الفاظ کے دخول کی وجہ سے ہندی سے علیحدہ شناخت بنا چکی ہے۔ اسی طرح سے یوکرائن کی زبان نے پولش (Polish) زبان سے بہت سے الفاظ اپنے اندر سمو لیے ہیں۔
بڑے سائز کے ممالک کی اکثر کوشش ہوتی ہے کہ ارد گرد کے چھوٹے ممالک ان کے حلقۂ اثر (Sphere of Influence) میں رہیں یعنی کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے بڑی علاقائی طاقت کو پوچھا جائے۔ پاکستان نے 1950 کی دہائی میں انڈیا سے پوچھے بغیر سیٹو اور سینٹو کی ممبر شپ اختیار کی تو انڈیا کو بہت بُرا لگا۔ اُس نے کشمیر پر اپنی پوزیشن یکسر بدل دی۔ پاکستان نے سی پیک (CPEC) کا منصوبہ چین کی شراکت سے شروع کیا تو بھی انڈیا کو ذرہ بھر پسند نہ آیا۔ وجہ صرف یہ ہے کہ انڈیا کی سوچ میں پاکستان اُس کا بیک یارڈ ہی ہے۔ اس کے خیال میں چین خارجی قوت ہے لہٰذا سی پیک میں شرکت سے پہلے ضروری تھا کہ پاکستان انڈیا کی اشیرباد حاصل کرتا۔ پاکستان انڈیا کی اس سوچ کو اپنے داخلی معاملات میں دخل اندازی گردانتا ہے۔
کچھ ایسی ہی صورت حال یوکرائن کی ہے۔ 2014 میں روس نے کریمیا پر قبضہ کیا تو یوکرائن کو شدید عدم تحفظ کا احساس ہوا۔ 2017 میں یوکرائن کی پارلیمنٹ نے قرارداد پاس کی کہ ہمارے ملک کو نیٹو کا ممبر بننا چاہئے۔ موجودہ نیٹو ممبران بھی اس بات کے حامی ہیں لیکن روس کہتا ہے کہ ایسا کرنا جارحانہ اقدام تصور ہو گا۔ وہ امریکہ اور دیگر نیٹو ممالک کو یاد دلاتا رہتا ہے کہ ماضی قریب میں کتنی مرتبہ وعدہ کیا گیا کہ نیٹو کا پھیلاؤ مشرق کی طرف نہیں ہو گا اور پھر اُس وعدے کی خلاف ورزی ہوئی۔ روس کی بات حقیقت پر مبنی ہے۔
میں نے انڈین سفارت کاروں کو اکثر کہتے سُنا ہے کہ ہم ایک مستحکم پاکستان دیکھنے کے خواہاں ہیں‘ لیکن یہ سراسر منافقت ہے۔ 1971 میں انڈیا کو موقع ملا تو اُس نے پاکستان کو دولخت کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسی طرح روس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یوکرائن کو مشرقی اور مغربی دو حصوں میں تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یوکرائن کی چار کروڑ آبادی کا 17 فیصد روسی ہیں‘ لہٰذا روس یوکرائن کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔ بعینہٖ انڈیا نے مشرقی پاکستان کی ہندو آبادی کو ہمارے خلاف استعمال کیا تھا۔
اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یوکرائن کے مسئلے پر جنگ چھڑنے کے کتنے خدشات ہیں۔ میرے خیال میں جنگ کا خدشہ خاصا کم ہے۔ یوکرائن کے معاملے میں یورپ منقسم نظر آ رہا ہے جبکہ امریکہ اور برطانیہ یوکرائن کی بھرپور مدد کرنے کے حامی ہیں۔ جرمنی روس کے ساتھ زیادہ بگاڑ پیدا نہیں کرنا چاہتا۔ وجہ یہ ہے کہ انرجی وسائل کے لیے جرمنی روسی گیس پر انحصار کرتا ہے اور یہ گیس یوکرائن کے راستے پائپ لائن کے ذریعے آتی ہے۔
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ آیا امریکہ یوکرائن میں اپنے فوجی دستے بھیجے گا۔ میرا جواب نفی میں ہو گا۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں کے بعد امریکہ کسی اور جنگ میں فعال حصّہ لینے سے پہلے سو مرتبہ سوچے گا۔ امریکہ یوکرائن کی حربی سامان سے پوری مدد کرے گا‘ لیکن پرائی جنگ نہیں لڑے گا۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ 1971 کی جنگ میں ہم انتظار کرتے رہے تھے مگر امریکن نیول فلیٹ مشرقی پاکستان تک نہیں پہنچ پایا تھا۔ امریکہ نے تین ہزار فوجی جرمنی، پولینڈ اور رومانیہ تو بھیج دیئے ہیں لیکن جیسا کہ اوپر لکھا ہے امریکی دستوں کے یوکرائن جانے کا امکان بہت کم ہے۔
امریکہ اور یورپی ممالک چاہتے ہیں کہ یوکرائن بطور بفر (Buffer) ملک قائم و دائم رہے۔ روس یہ چاہتا ہے کہ یوکرائن نیٹو معاہدے کا ممبر نہ بنے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جب بھی یوکرائن کے ساتھ تناؤ ہوا تو نیٹو افواج روس کی سرحد پر آ جائیں گی۔ ویسے صدر پیوٹن نے ایک بھی گولی چلائے بغیر کافی بڑا فائدہ حاصل کر لیا ہے۔ اس تنازع کے بعد گیس کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ ایک برمحل سوال یہ ہو سکتا ہے کہ انڈیا اور روس اپنے دونوں ہمسایوں سے کیا چاہتے ہیں۔ انڈیا کی شروع سے خواہش ہے کہ پاکستان اُس کا تابع فرمان ہو۔ آج کے تناظر میں یوں مثال دے سکتے ہیں کہ انڈیا کی آشا ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش کی طرح ''اچھا ہمسایہ‘‘ بن جائے۔ روس بھی یوکرائن سے ایسا ہی اچھا رویہ چاہتا ہے۔
1991 میں جب یوکرائن آزاد ہوا تو اُس کے پاس سوویت عہد کے اچھے خاصے ایٹمی ہتھیار تھے۔ بعد میں یوکرائن نے ایک عالمی معاہدے کے تحت یہ ہتھیار ضائع کر دیئے۔ یوکرائن نے ایسا مغربی مالی امداد اور روس کی طرف سے عدم جارحیت کے وعدے کے بعد کیا‘ لیکن یہ وعدہ 2014 میں بھلا دیا گیا۔ قوموں کو جرمِ ضعیفی کی سزا ملتی رہی ہے۔ یوکرائن کی صورت میں پاکستان کے پاس واضح سبق ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں