"JDC" (space) message & send to 7575

روس، یوکرین اور پاکستان

پاک روس تعلقات کو وزیراعظم عمران خان کے دورہ ماسکو کے بعد دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔ شومئی قسمت سے روس نے اپنے ہمسائے یوکرین پر اُسی دن حملہ کیا جب ہمارے وزیراعظم وہاں موجود تھے۔ اُن کی روانگی سے قبل جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے تو کیا وزیراعظم کے دورۂ ماسکو کی ٹائمنگ درست تھی؟ میرا جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ مغربی ممالک کو یہ ٹائمنگ بالکل اچھی نہیں لگی بلکہ چند روز پیچھے مڑ کر دیکھیں تو صاف لگتا ہے کہ صدر پوتن نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے عمران خان کو آنے سے منع نہیں کیا۔
یوکرین پر حملہ کب کرنا ہے؟ یہ فیصلہ صدر پوتن کی صوابدید پر منحصر تھا۔ پاکستان کو اس کا علم نہیں تھا۔ صدر پوتن نے سب سے پہلے جنرل پرویز مشرف کو عندیہ دیا تھا کہ وہ پاکستان کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پھر 2012 میں ان کا دورہ طے ہوا اور آخری لمحات میں کینسل کر دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد روسی سفیر نے کہا کہ پاک روس تعلقات میں تقویت کے واضح امکانات یقینا موجود ہیں لیکن روس کی طرف سے اعلیٰ سطح کا دورہ تب ہوگا جب مختلف شعبوں میں ٹھوس تعاون صاف نظر آئے گا۔ اصل بات یہ تھی کہ کراچی لاہور گیس پائپ لائن پر پاکستان واضح فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا۔
صدر پوتن کو پاکستان آنے کی دعوت کی تجدید وزیراعظم عمران خان نے بھی کی۔ اس طرح دیکھا جائے تو دعوت دینے میں پہل پاکستان نے کی تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر روسی لیڈر کو پاکستان آنے کی جلدی نہیں تھی تو ہم اتنے بیتاب کیوں تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا کا سٹریٹیجک نقشہ بدل رہا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کا سٹائل اور نوعیت بھی بدلی ہے۔ اب چین، روس، امریکہ اور یورپ سے اچھے تعلقات ایک ہی وقت میں ممکن ہیں۔ دوسروں لفظوں میں غیر جانبداررہنا زیادہ مشکل نہیں رہا‘ لیکن میں اپنی بات کو دہراؤں گا کہ وزیراعظم اپنا دورئہ روس ملتوی کر دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔
دورہ ملتوی نہ کرنے کے بارے میں دو تین دلائل دیئے گئے۔ اوّل یہ کہ پھر یہ دورہ مستقبل قریب میں ممکن نہ ہوتا۔ دوسرے یہ کہ پاکستان نے روس سے گندم منگوانی ہے۔ اب یہ سوچئے کہ اگر یہ دورہ چند ماہ بعد ہو جاتا تو پاکستان کو کیا نقصان ہوتا؟ دنیا میں گندم برآمد کرنے والے اور بھی کئی ممالک ہیں‘ اور یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ مشرق مغرب مجوزہ راہداری کے سبب پاکستان کی اہمیت کا روس کو اندازہ ہے۔ افغانستان میں امن آنے کے بعد پاکستان سے روس تک کا لینڈ روٹ ممکن ہو گیا ہے۔ پاکستان اور سنٹرل ایشیا کے مابین تو یہ راستہ کسی حد تک کھل گیا ہے۔ بعد میں انڈیا اور روس بھی اس راستے سے تجارت کر سکتے ہیں۔ اس لئے فروری ہی میں یہ دورہ کرنا یقینا اتنی بڑی مجبوری نہیں تھی۔ اور مجھے یقین ہے کہ جنگ کی حالت میں گزارے ہوئے لمحے وزیراعظم عمران خان اور ان کے وفد کے لئے اتنے خوشگوار نہیں رہے ہوں گے۔
یوکرین پر روسی حملے کو دو زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ بادی النظر میں یہ چھوٹے ہمسائے کے خلاف کھلی جارحیت ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور اس وجہ سے قابل مذمت ہے۔ دوسرا زاویہ روس کا ہے جسے کئی مرتبہ یقین دلایا گیا کہ نیٹو کا پھیلاؤ مشرق کی جانب نہیں ہو گا اور پھر اس یقین دہانی کی دھڑلے سے خلاف ورزی بھی کی گئی۔ اگر 1962 میں امریکہ کو سوویت میزائل کیوبا میں قبول نہیں تھے تو روس یہ بات کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ نیٹو کا اسلحہ اور سازو سامان اُس کی مغربی سرحدوں پر موجود ہو۔
اگر صرف اصولوں کی بات کی جائے تو تمام دنیا کو یک زبان ہو کر روسی جارحیت کی مذمت کرنا چاہئے تھی اور اگر پاکستان کے قومی مفاد کی رو سے دیکھا جائے تو ہمارا موقف درست ہے عالمی تعلقات قومی مفادات کے تابع ہوتے ہیں نہ کہ اخلاقیات کے۔
اور اب دیکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ میں مباحثے اور ووٹنگ کے دوران صورت حال کیا رہی‘ جب سکیورٹی کونسل کا مباحثہ بے نتیجہ رہا تو جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا۔ یو این کی تاریخ میں چار عشروں کے بعد ایسا ہو رہا تھا۔ روس کے خلاف مذمتی قرارداد کو 141 ووٹ ملے جبکہ روس کے حق میں صرف پانچ ووٹ پڑے۔ 35ارکان نے ووٹ دینے سے اجتناب کیا۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ روس یوکرین کے معاملے پر انڈیا اور پاکستان کی پوزیشن ملتی جلتی تھی۔ چین، انڈیا، پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش اُن ممالک میں شامل تھے جنہوں نے ووٹ نہیں دیا اور غیر جانبداری اختیار کی۔
اسلام آباد میں مقیم یورپی یونین کے سفیروں نے ایک کھلے بیان میں پاکستانی حکومت سے کہا کہ وہ یوکرین پر روسی جارحیت کی مذمت کرے۔ میڈیا کے ذریعے اس قسم کی ڈیمانڈ کرنا سفارتی آداب کے خلاف ہے‘ لیکن ہمارا ردعمل بھی حسب معمول جذباتی تھا۔ خان صاحب نے میلسی کے جلسۂ عام میں یورپی حکومتوں سے پوچھا کہ کیا آپ نے اسی قسم کی ڈیمانڈ انڈیا سے بھی کی ہے؟ ہمارے عوام و خواص کو خان صاحب کا سوال بڑا پسند آیا ہے۔ سوشل میڈیا میں ان کی دلیری کو بڑے نمبر مل رہے ہیں‘ لیکن عوامی جلسوں میں دوسری حکومتوں سے اس طرح سوال پوچھنا بھی سفارتی آداب کیخلاف ہے۔ بڑھکوں والی سفارتکاری ہمارے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
روسی حملے کے بعد یوکرین نے بہت اچھی مزاحمت کی‘ لیکن یوکرین کے مقابلے میں روس بڑی طاقت ہے۔ ممولہ شہباز سے خوب لڑا ہے لیکن پلہ روس کا بھاری ہے اور اُس کے جیتنے کے امکانات روشن ہیں لیکن ہارے ہوئے یوکرین کو مغربی ممالک سے خوب امداد ملے گی‘ لہٰذا جنگ ختم ہو گئی تو بھی مکمل امن مستقبل قریب میں آنا دشوار ہے۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ روس اور مغرب کے مابین یہ گریٹ گیم کافی عرصہ چلے گی۔ ہمیں چاہئے کہ احتیاط برتتے ہوئے کسی کی جانب داری نہ کریں۔
خارجہ تعلقات میں ہمیں مصالحت کنندہ بننے کا شوق اکثرچراتا ہے۔ ہماری خواہش تھی کہ سعودی عرب اور ایران میں صلح کرائیں۔ خواہش اچھی تھی لیکن بوجوہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکی۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان چین اور امریکہ کے مابین افہام و تفہیم کی کوشش کرے گا۔ مصالحت کنندہ تب بنتا ہے جب دونوں اطراف اُس سے درخواست کریں اور ایسی درخواست عموماً تب کی جاتی ہے جب دونوں پارٹیاں مصالحت کنندہ کو نیوٹرل سمجھیں‘ لہٰذا پاکستان کے لئے فعال مگر لو پروفائل (Low Profile) فارن پالیسی زیادہ مناسب رہے گی۔
کیا پاک روس دوستی سے انڈیا کو کوئی فرق پڑے گا؟ میرے خیال میں قطعاً نہیں پڑے گا کیونکہ انڈیا کے ساتھ روس کے دیرینہ اچھے تعلقات ہیں۔ انڈیا روسی اسلحے کا پرانا خریدار ہے۔ پاک روس تعلقات میں بہتری ضرور آ رہی ہے لیکن یہ تعلق انڈیا روس تعلقات سے کم تر ہے۔
فارن پالیسی کا اولین ہدف زیادہ دوست ممالک کا حصول اور اپنی اقتصادی ترقی ہوتا ہے۔ پاک روس دوستی سے یہ دونوں ہدف حاصل ہوں گے لیکن یکدم نہیں۔ روس اقتصادی اعتبار سے اب چین سے بھی پیچھے ہے۔ روس کی اقتصادی پالیسی میں ایڈ دینا بھی شامل نہیں لیکن روس عالمی قوت ضرور ہے۔ مستقبل کے تجارتی راستے میں روس کا اہم رول ہوگا۔ سنٹرل ایشیا کے بیشتر ممالک اب بھی روس کے زیر اثر ہیں اور پاکستان تجارتی راہداری کا بہت اہم ملک ہوگا۔ داعش جیسی انتہا پسند تنظیموں کا خاتمہ بھی دونوں ممالک کا مشترکہ نصب العین ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں