"JDC" (space) message & send to 7575

برٹش راج، ایک معروضی جائزہ

برصغیر میں برطانوی راج کے بارے میں متعدد آرا پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے دو اہم ہیں اور بالکل متضاد بھی۔ ایک رائے یہ ہے کہ برٹش استعمار کے زیر تسلط آنے سے پہلے انڈیا سونے کی چڑیا تھی۔ پوری دنیا کی دولت میں انڈیا کا حصہ 23 فیصد تھا۔ تقریباً دو سو سال کے بعد جب انگریز نے 1947 میں برصغیر چھوڑا تو اس کا عالمی دولت میں شیئر صرف چار فیصد رہ گیا تھا۔ گویا اس عرصے میں برصغیر کے وسائل لوٹے گئے۔ انگلستان امیر تر ہوتا گیا جبکہ انڈیا غریب تر۔ دور حاضر میں اس نظریے کے بڑے حامی انڈیا کے سابق سفارت کار اور موجودہ کانگرسی سیاست دان ششی تھرور ہیں۔ نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں ماہر معاشیات Usta Patnaik نے تو ریسرچ کے بعد یقین سے کہا ہے کہ 45 کھرب ڈالر کے برابر انڈیا کے وسائل برطانیہ منتقل ہوئے۔
انگریز کی برصغیر پر حکومت کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا پیریڈ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کا تھا جو بنگال سے شروع ہوئی اور تقریباً سو سال چلی۔ دوسرا پیریڈ ڈائریکٹ حکومت کا ہے جو 1858 سے لے کر 1947 تک چلتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دو زمانوں میں انڈیا کا استحصال کیسے ہوا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم ہونے سے پہلے بھی انڈیا اور برطانیہ کے مابین تجارت ہوتی تھی۔ انڈیا سے کپڑا اور چاول برطانیہ جاتے تھے۔ بعد میں ایک تیسرا آئٹم ایکسپورٹ لسٹ میں شامل ہوا اور وہ تھی چائے۔ کمپنی کی حکومت سے پہلے انگریز انڈین برآمد کنندہ کو قیمت کی ادائیگی سونے یا چاندی کی شکل میں کرتے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی چونکہ بنیادی طور پر ایک تجارتی ادارہ تھا لہٰذا کمپنی نے خود مال خرید کر ولایت بھیجنا شروع کر دیا۔ کمپنی برآمد کنندہ کو ادائیگی لوکل کرنسی میں کرتی تھی اور یہ کرنسی کمپنی کو لوکل ٹیکسوں سے حاصل ہوتی تھی یعنی انڈیا والوں کے جوتے اور انہی کا سر۔ 1858 میں تاج برطانیہ کی ڈائریکٹ حکومت آنے کے بعد طریقۂ واردات ذرا مختلف ہو گیا لیکن انڈیا کا استحصال جاری رہا۔ اب انگریز امپورٹر سونے چاندی کے عوض ٹریژری بل (Treasury Bill) اپنے ہی ملک میں خرید کر انڈیا میں ایکسپورٹر کو بھجواتے تھے اور وہ اس کے عوض لوکل کرنسی میں پے منٹ لے لیتا تھا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ انگریز کے آنے تک دنیا کا بہترین کپڑا انڈیا میں بنتا تھا اور اس کی عالمی ڈیمانڈ تھی۔ صنعتی انقلاب کے بعد مانچسٹر میں ٹیکسٹائل کارخانے لگ گئے تو انگریز نے سوچا کہ انڈیا سے کپڑا امپورٹ کرنے کے بجائے کاٹن منگوائی جائے۔ مزید کاٹن پیدا کرنے کے لئے پنجاب میں ساندل بار اور نیلی بار کا ایریا آباد کیا گیا‘ یہاں آبپاشی کا وسیع و عریض نظام قائم کیا‘ زراعت کو ترقی دی گئی۔ بقول ششی تھرور انڈیا کی شاندار ٹیکسٹائل انڈسٹری کو جان بوجھ کر تباہ کیا گیا۔
مگر ششی تھرور کی اس بات کو من و عن تسلیم کرنا میرے لیے مشکل ہے کہ انگریز کے آنے سے پہلے انڈیا سونے کی چڑیا تھا جسے برطانوی راج نے اپنی جیب میں ڈال لیا۔ جنگ پلاسی کے بعد انگریز کو پورے انڈیا پر قبضہ کرنے میں تقریباً سو سال لگے۔ کہیں کہیں مزاحمت ضرور ہوئی لیکن انڈین اشرافیہ کے بڑے حصے نے انگریز کا ساتھ دیا۔ اسی وجہ سے برٹش فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ اگر انگریز کے آنے سے پہلے انڈیا اقتصادی طور پر اتنا خوشحال تھا تو استعمار کے خلاف کوئی بڑی منظم اور طویل عسکری جدوجہد کیوں نہ ہوئی۔ دوسرے یہ کہ انگریز کو برصغیر سے گئے ستر سال سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ 1947 کے بعد انڈیا اور پاکستان کے اقتصادی حالات بہت جلد بدلنا چاہئیں تھے‘ مگر ایسا نہ ہوا۔ اسی طرح سے اُستا پٹنائک کے پیش کردہ 45 کھرب ڈالر کے اعداد و شمار مبالغہ آمیز ہیں کیونکہ نہ تو انڈیا کی اکانومی اتنی بڑی تھی کہ دو صدیوں میں بھی اتنے خطیر وسائل دے سکتی اور نہ ہی یو کے کی اکانومی اتنی بڑی تھی کہ اتنے وسائل جذب کر سکتی۔
دوسرا نظریہ خود انگریزوں کا وضع کردہ ہے۔ رُدیارڈ کپلنگ (Rudyard Kipling) نے سفید فام لوگوں کا بوجھ (White Man`s Burden) کی اصطلاح پیش کی تھی۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ نوآبادیوں میں مقیم لوگ خواہ وہ سیاہ فام ہوں یا براؤن رنگت کے، یہ جاہل اور گنوار تھے‘ لہٰذا سفید فام کا فرض ٹھہرا کہ انہیں زیر تسلط لا کر تعلیم دیں، طرز زندگی اور طرز حکمرانی سکھائیں۔ یہ بات بھی انڈیا پر منطبق نہیں ہوتی کیونکہ انگریز سے پہلے مغلوں کی حکمرانی بُری نہیں تھی۔ اشوک اور اکبر کے ادوار بہت اچھے تھے۔
مگر یہاں اُن اچھے کاموں کا ذکر بھی ضروری ہے جو برٹش راج کی بدولت انڈیا میں ہوئے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انڈیا میں کبھی بھی انگریز سویلین افسروں کی تعداد دس ہزار سے زائد نہیں رہی‘ گویا چند ہزار لوگوں نے کروڑوں انڈین عوام پر حکومت کی۔ انڈین سول سروس ایک شاندار تنظیمی ڈھانچہ تھا اور پھر انڈین بھی اس اعلیٰ سروس میں میرٹ کی بنیاد پر شامل ہونے لگے۔ برصغیر کے لیے میرٹ سسٹم ایک نئی چیز تھی۔ مغلوں کے عہد میں انڈین بیوروکریٹ ایران، افغانستان اور سنٹرل ایشیا سے امپورٹ ہوتے تھے اور شجرہ نسب ساتھ لاتے تھے۔ میرٹ سسٹم کا نفاذ برٹش راج کا بہت بڑا عطیہ ہے۔ آج انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں کالج میں داخلے یا اعلیٰ ترین جاب کے لیے شجرہ نسب کی ضرورت نہیں پڑتی۔
انگریز نے برصغیر میں کالج بنائے‘ یونیورسٹیاں بنائیں۔ ان اداروں سے پڑھ کر کتنی شاندار لیڈرشپ برصغیر کو ملی۔ سر سید احمد خان، گاندھی جی، قائد اعظم، علامہ اقبال، پنڈت نہرو، لیاقت علی خان، امبیڈکر سب ماڈرن برٹش ایجوکیشن سے مستفید ہوئے اور بڑے قد کاٹھ کے لیڈر بنے۔ برٹش راج نے ریلوے لائن کا جال پورے انڈیا میں بچھا دیا۔ لنڈی کوتل تک پہاڑوں میں سے ہوتی ہوئی ریل کی پٹڑی پہنچا دی گئی۔ بلوچستان کے سنگلاخ علاقوں تک آسانی سے سفر ممکن ہوا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ پہاڑی علاقوں تک سڑکیں بنیں اور یہ بھی محل نظر رہے کہ اُس زمانے میں ہیوی مشینری نہیں تھی۔ دور دراز علاقوں میں لیبر بھی دستیاب نہیں تھی۔ ان علاقوں میں جیل کے قیدیوں سے لیبر کا کام لیا گیا۔
آج اگر انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا ماڈرن جمہوری ملک ہیں تو یہ بھی برٹش راج کی اچھی باقیات میں سے ہے۔ ماڈرن ایجوکیشن کی بدولت ہمیں اچھے ڈاکٹر اور انجینئر ملے۔ سرگنگارام انجینئرنگ کے میدان میں اوج کمال تک پہنچے اور لاہور کی شکل بدل ڈالی۔ اس خوبصورت شہر کو مزید خوب صورت بنا ڈالا۔
ماڈرن ایجوکیشن کی بدولت برصغیر میں ایک نئی باشعور مڈل کلاس پیدا ہوئی۔ ان لوگوں نے مطالبہ کیا کہ انڈین عوام کو بھی وہی حقوق ملنے چاہئیں جو برطانیہ کے لوگوں کو حاصل ہیں۔
لیکن اپنے راج کو مضبوط کرنے کے لیے انگریز نے فیوڈل کلاس کو اور مضبوط کیا‘ انہیں جاگیریں دیں۔ انڈیا نے حقیقی زرعی اصلاحات کر کے جاگیردار سے نجات حاصل کر لی مگر ہمارے ہاں یہ کام زبانی کلامی زیادہ ہوا اور فیوڈل لارڈ آج بھی ہمارے سر پر سوار ہیں۔
ہمیں چاہیے تھا کہ انگریز کی اچھی عادات یعنی ڈسپلن، وقت کی پابندی اور رول آف لا کو مزید بہتر کرتے اور ان کی بُری روایتوں یعنی فیوڈل ازم کو ختم کرتے مگر ایسا نہ ہوا اور نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ ہماری آج کی سیاسی لیڈرشپ بہت پست قد، خود غرض اور وطن کی محبت سے عاری ہے۔ نتائج آپ کے سامنے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں