"JDC" (space) message & send to 7575

زعمِ مسیحائی

عمران خان کا پاکستانی سیاست میں آنا ہوا کا تازہ جھونکا تھا۔ لوگ آمریت دیکھ چکے تھے اور دو خاندانوں کی اجارہ داری پر مبنی نام نہاد جمہوریت بھی۔ سیاست میں مالی وسائل کا بے تحاشا استعمال اس بات کا غماز تھا کہ عام آدمی اسمبلی میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہمارے فیوڈل سسٹم میں وڈیرا اپنے مزارعوں اور کھیت مزدوروں کو ووٹ دینے کا حکم دیتا ہے ‘شہری سیاستدان الیکشن کیلئے اشتہاری مہم چلاتے ہیں‘ ہزاروں ووٹروں کو کھانا کھلاتے ہیں‘ ان کیلئے ٹرانسپورٹ کا بندوست کرتے ہیں‘ مزدور دیہاڑی چھوڑ کر ووٹ دینے آتا ہے تو اس کی مناسب مالی امداد سیاستدان کرتا ہے۔ سیاستدان یہ سمجھتا ہے کہ اگر کروڑوں خرچ کر کے اقتدار میں آنا ہے تو وصولی بھی ضروری ہے۔ نظریاتی اور اصولی سیاست قصۂ پارینہ ہو چکی ہے۔ کپتان اقتدار میں آیا تو لوگ سمجھے کہ نظریاتی سیاست واپس لوٹ آئی ہے۔ کرپشن کو ہمارا لیڈر آناً فاناً ختم کر دے گا۔ باہر جانے والی بلیک منی اب ملک ہی میں رہے گی۔ ملک میں سرمایہ کاری بڑھے گی۔ ٹھیکے داروں سے اب کمیشن طلب نہیں کیا جائے گا۔ دفاتر میں سب کام فی الفور اور بغیر رشوت کے ہوں گے۔ بیورو کریسی سیاسی مداخلت سے آزاد ہو گی۔ فیصلے صرف اور صرف میرٹ پر ہوں گے قوم نے بالعموم اور نوجوانوں نے بالخصوص سمجھا کہ ہمارا مسیحا آ گیا ہے۔ کپتان کے سپورٹرز نے اُسے دیوتا کی طرح چاہا۔ یہ ایک اندھی محبت کا رشتہ تھا جس سے یہ بندۂ ناچیز بھی دو تین سال پیوستہ رہا۔
دوسری جانب کپتان کو بھی ورلڈ کپ جیتنے کے بعد یقین ہو چکا تھا کہ وہ ہر ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔ خود اعتمادی بڑی اچھی بات ہے لیکن یہاں خود اعتمادی ضرورت سے زیادہ ہی تھی۔ 2011ء میں مینارِ پاکستان پر تاریخی جلسہ ہوا تو عمران خان پر عیاں ہو گیا کہ نوجوان نسل اس کے سحر میں گرفتار ہو چکی ہے۔ یہ وہ نوجوان نسل تھی جو تعلیم یافتہ تھی‘ وہ ملک میں ترقی چاہتے تھے‘ انصاف چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ انہیں جابز میرٹ پر ملیں‘ وہ پرانے سیاسی چہروں سے تنگ آ چکے تھے‘ وہ ان کی کرپشن کے قصّے سُن سُن کر سخت متنفر تھے۔ یہ قصّے کبھی سوئٹزر لینڈ کے بینکوں کی سیر کراتے تھے تو کبھی سرے محل اور ایون فیلڈ کے اپارٹمنٹس تک پہنچ جاتے تھے۔ کرپشن کا تعفن ہر جانب پھیلا ہوا تھا۔ نوجوان نسل اورمڈل کلاس کو یقین تھا کہ یہ تعفن صرف عمران خان ہی دور کر سکتا ہے۔ نوجوانوں کی کپتان سے توقعات آسمان کو چھو رہی تھیں۔ خود اعتمادی حد سے بڑھ جائے اور اسے لاکھوں سپورٹرز مل جائیں تو وہ تکبر میں آسانی سے بدل جاتی ہے اور یہی کچھ عمران خان کے ساتھ بھی ہوا۔
میں اُن دنوں خلیج کے ایک انگریزی اخبار کیلئے کالم لکھا کرتا تھا‘ لہٰذا ملک کے حالات پر ہمہ وقت توجہ مرکوز رہتی تھی۔ ملک کے اندر بھی عمران خان کا فین کلب تیزی سے بڑھ رہا تھا اور ملک کے باہر تو اُن کے دیوانے بے شمار تھے۔ اتنے میں ایک نئی ڈویلپمنٹ آشکار ہوئی۔ اب نوجوانوں کے علاوہ سنجیدہ اور معمر لوگ بھی کپتان کے حمایتی بن رہے تھے۔ وہ بھی سوچ رہے تھے کہ وہ نجات دہندہ آ گیا ہے جس کا ایک عرصے سے انتظار تھا۔ دوسری جانب محبوب لیڈر کی رعونت بڑھنے لگی۔ اُسے یقین ہو گیا تھا کہ میں اس قوم کی سب سے بڑی ضرورت ہوں۔انہی دنوں کی بات ہے‘ میرے دو قریبی دوست فیڈرل سیکرٹری کے عہدوں سے ریٹائر ہوئے۔ دونوں قابل تھے اور ایماندار بھی۔ وہ اپنی اپنی وزارتوں کو کامیابی سے چلا چکے تھے‘ دونوں میں خواہش پیدا ہوئی کہ اس ابھرتے ہوئے لیڈر کو اپنے اپنے اختصاص کے بارے میں بریف کریں اور آئندہ کے بارے میں لائحہ عمل بھی تجویز کریں۔ دونوں نے بڑی عرق ریزی کے بعد بریف بنائے اور کپتان کو بھجوا دیے۔ وہاں سے نہ کسی نے شکریہ ادا کیا اور نہ ہی کوئی جواب آیا۔ یہ تکبر کی دلیل ہے اور یہ اس سوچ کی بھی غماز ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں‘ ہمیں کسی بریفنگ کی ضرورت نہیں اور اب سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے اعتراف کیا ہے کہ جب ہم اقتدار میں آئے تو اقتصادی پالیسی کے بارے میں ہمارا کوئی ہوم ورک نہیں تھا۔
پی ٹی آئی کا لیڈر دراصل تضادات کا مجموعہ تھے۔ خود کو جمہوریت کا چیمپئن کہتے تھے لیکن پارٹی میں شفاف الیکشن نہ کرا سکے۔ بیورو کریسی کو سیاست سے آزاد کرانا تھا لیکن سینئر ترین افسران کی ترقی سے پہلے ان سے خود انٹرویو کرنے کا فیصلہ کیا۔ پنجاب جیسے اہم صوبے پر ایسا نااہل وزیراعلیٰ مسلط کیا جو ذرّہ برابر ڈلیور نہ کر سکا۔ بار بار تبادلے کرکے بیوروکریسی کو بددل اور خائف کئے رکھا۔ دعویٰ کیا کہ سب کا احتساب ہوگا لیکن کچھ لوگ احتساب سے بالاتر رہے۔ عمران خان اب بھی ذہنی طور پر کرکٹ ٹیم کے کپتان ہیں‘ وہ سیاستدان نہیں بن سکے۔ سیاستدان میں بالغ نظری‘ برداشت‘ مشاورت اور خوش اخلاقی جیسے عناصر کا ہونا ضروری ہے۔ ہر مخالف کو چور ڈاکو کہہ کر آپ اچھے لیڈر نہیں بن سکتے اور مستزادیہ کہ ایک بھی چور اور ڈاکو پکڑ نہ سکے۔
کامیاب لیڈر کا کام دوستیاں بنانا اور سیاسی رشتوں کو مضبوط کرنا ہوتا ہے مگر جو لیڈر خود پسندی کی انتہا کو پہنچ جائے اُسے دوستوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے موصوف خاصے کورے کرارے ہیں۔ جہانگیر ترین اور علیم خان نے ان کیلئے انتھک کام کیا‘ اپنے ذاتی وسائل فراخدلی سے استعمال کئے لیکن ان کے احسانات فراموش کر دیے گئے۔ میڈیا کے ساتھ تعلقات میں بھی بہت مسائل رہے۔ ایک اہم ادارے کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کا خوب چرچا رہا لیکن پھر دونوں کے اوراق الگ الگ ہو گئے۔ جب اقتدار میں تھے تو موجودہ پارلیمنٹ ان کو اچھی لگتی تھی مگر اب اپوزیشن میں ہیں تو وہاں بیٹھنے کو تیار نہیں ۔Captain this is not cricket۔ان کی ذاتی زندگی کے ایک دو فیصلوں کو ہمارے قدامت پسند معاشرے میں استحسان کی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ اگر اپوزیشن نے اتنی آسانی سے عمران خان کے جمہوری حکومتی گھر میں نقب لگا لی تو گھر کے اندر بھی کوئی خرابی ضرور تھی۔ نہ جانے کیوں مجھے عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیات میں کچھ کچھ مماثلت نظر آتی ہے۔ دونوں میں آمرانہ رویے جھلکتے ہیں‘ دونوں نرگسیت سے قریب ہیں۔ عمران خان نے 2014ء میں پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر چڑھائی کر دی تھی تو ٹرمپ کے حامیوں نے جنوری 2021ء میں اپنی پارلیمنٹ بلڈنگ پر دھاوا بول دیا تھا‘ دونوں کے حامی سمجھتے ہیں کہ ہمارا لیڈر غلطی کر ہی نہیں سکتا۔ دونوں نے اپنے اپنے معاشرے کو تقسیم کیا ہے۔ سیاست میں بازاری زبان کو رائج کیا ہے۔
خان صاحب کے آمرانہ رویوں کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ان کے عہد میں قصر ِصدارت آرڈیننس فیکٹری کہلایا۔ ایک دن ایسا بھی آیا کہ قومی اسمبلی نے بے شمار بل ایک ہی روز میں چشم زدن میں پاس کر دیے۔لیکن اگر تحریک انصاف حکومت کی مثبت باتوں کو اگنور کر دیا جائے تو یہ کالم کے ساتھ عدل ہوگا نہ قارئین کے ساتھ۔ خان صاحب کی حکومت نے کورونا جیسی وبا کو احسن طریقے سے ہینڈل کیا۔ دوسرے ممالک سے ڈیل کرتے وقت قومی مفاد کو مقدم رکھا۔ اپنے کسی عزیز کو سفیر نہیں بنایا۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے احساس پروگرام کو ایمانداری اور اہلیت سے چلایا۔ صحت کارڈ کسی حد تک غریبوں کا سہارا بنا۔لیکن مجھے کپتان پر دہرا غصہ ہے‘ وہ نہ صرف اپنی وکٹ اتنی جلدی گنوا بیٹھے بلکہ اُن کے بعد بیٹنگ اُن لوگوں کی شروع ہوئی ہے جنہیں وہ سالوں سے چور ڈاکو کہہ رہے تھے۔ ان سیاسی لڑائیوں میں ایک ادارہ امپائر کا رول ادا کیا کرتا تھا اب وہ بھی ایک طرف ہو گیا ہے کہ کوئلے کی کان میں کالک ضرور لگتی ہے۔ میں تین مرتبہ تحریک انصاف کو ووٹ دے چکا ‘مگراب فیصلہ کیا ہے کہ اگلی بار گھر میں ہی رہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں